موسم بدل رہا ہے


سن ساٹھ کی دہائی میں کہ جب مغربی ملکوں اور کسی حد تک پاکستان جیسے ملکوں میں بھی نوجوانوں نے بغاوت کا علم بلند کیا تھا تب ایک امریکی گلوکار کے گائے ہوئے ایک گیت یا نغمے کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی۔ وہ گلوکار بوب ڈائلن تھے۔ بلکہ ہیں کیونکہ پچھلے سال ہی انہیں ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ وہ اپنے گیت خود لکھتے رہے ہیں۔ یعنی انہیں ایک شاعر کی حیثیت سے مانا گیا ہے۔ یہ بحث بھی چھڑی کہ کیا اودہم مچانے والی دھنوں پر گائے جانے والے عوامی گیت اعلٰیٰ ادب کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ خود بوب ڈائلن نے بھی کہ جو شوبزنس کے افق پر چمکنے والا ایک روشن ستارہ رہے ہیں کافی نخرے کئے۔ نوبل انعام کی تقریب میں بھی انہوں نے شرکت نہیں کی۔ بعد میں ایک تقریر کرکے خود کو انعامی رقم کا حقدار بنالیا۔

تو بات بوب ڈائلن کے نصف صدی سے کچھ پہلے کے ایک گیت سے شروع ہوئی اور یہ تو طے ہے کہ میرا موضوع آج کا پاکستان ہے۔ اب اس پورے گیت کا ترجمہ تو میں نہیں کررہا۔ جسے آپ مکھڑا کہیں وہ یہ تھا کہ یہ جاننے کے لئےکہ ہوا کا رخ کیا ہے آپ کو کسی موسمیات کے ماہر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ جب حالات کروٹ لے رہے ہوتے ہیں اور ہوا کا رخ بدلنے لگتا ہے تو آپ دیکھ بھی سکتے ہیں اور محسوس بھی کرسکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہوا کا رخ کیسے بدل رہا ہے اور بدل بھی رہا ہے یا نہیں۔ ایک محاذ سیاست کا ہے۔ ایک معاشرے کا ہے۔ پوری دنیا آندھیوں کی زد میں دکھائی دیتی ہے۔ ہوا کا تعلق موسم سے بھی ہے اور ماحول سے بھی… پھر ہم اسے اور موسم کے دوسرے اشاروں کو ایک تمثیلی شکل میں بھی دیکھتے ہیں۔ ہوا، آندھی، طوفان ، دھوپ اور سایہ اور دن اور رات… ان سب کو ہم اپنی ذاتی اور اجتماعی کیفیت کا آئینہ بنا لیتے ہیں۔ تیز ہوا تو چراغوں کو گل کر دیتی ہے اور جس دئیے میں جان ہو وہ آندھی میں بھی جلتا رہتا ہے۔

پرآشوب زمانوں میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن سے میر انیس نے کہا تھا کہ ’’چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے…‘‘ اور دھوپ کا استعارہ تو ہمارے جیسے گرم ملکوں کی ناآسودگی کا ایک اظہار ہے۔ اسی لئے ہم شجر سایہ دار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہوا، دھوپ اور سائے کے محاورے ہر طرح کی بات کہنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ نریندر مودی جیسے کھٹن ہندی بولنے والے نے بھی ایک سیاسی جلسے میں ندا فاضلی کی ایک غزل کا یہ مصرع پڑھا کہ ’’سفر میں دھوپ تو ہوگی، جو چل سکو تو چلو…‘‘

آپ کہیں گے کہ میں خود کہیں اور چلا گیا۔ کہنا یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کا موسم بدل رہا ہے۔ یوں تو ہماری سیاست ایک زمانے سے افراتفری کا شکار ہے لیکن اب یہ لگ رہا ہے کہ کئی فیصلوں کا وقت قریب آگیا ہے۔ اگر آپ باقاعدگی سے ٹاک شوز دیکھتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو ڈرائونے خواب بھی دکھائی دیتے ہوں۔ کوئی کہتا ہے کہ الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ ویسے ہم حساب میں اتنے کمزور ہیں کہ الٹی گنتی گنتے گنتے زمانہ گزر جاتا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خاں سپریم کورٹ سے نااہل ہوسکتے ہیں۔ منگل کے دن سابق وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور بعد میں انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں بیان دیا بلکہ پڑھا اور سوال یہ اٹھایا گیا کہ وہ کون ہے جس نے نواز شریف کو اسکرپٹ لکھ کر دیا۔

اس سوال کے پیچھے نواز شریف کی تلخ گفتگو تھی کہ غلط فیصلوں میں ملک ٹوٹ چکا ہے اور یہ بھی کہ مولوی تمیز الدین کیس سے شروع ہونے والا کینسر ٹھیک نہ ہوا تو ڈر ہے کہ پھر کوئی حادثہ نہ ہوجائے گویا خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ سیاسی کھینچا تانی کا عالم یہ ہے کہ اب جب کہ قومی اسمبلی کی مدت چند ماہ میں ختم ہونے والی ہے قائد حزب اختلاف کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر اختلافات کا شکار ہیں۔ تحریک انصاف کی اندرونی کہانیوں میں ایک اور کہانی کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک سوال ہے کہ جو کسی نے نواز شریف کیلئے اٹھایا اور کسی نے عمران خاں کیلئے اور آپ چاہیں تو دوسرے کئی رہنما اس فہرست میں شامل کرلیں۔ سوال یہ ہے کہ جناب، آپ ڈکٹیشن کس سے لے رہے ہیں؟ یعنی ڈوریاں کون کہاں سے ہلا رہا ہے؟ علامہ اقبال کا وہ قطعہ یاد آرہا ہے جس کا عنوان ہی ’’سیاست‘‘ ہے اور صرف یہ شعر: ؎
’’بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ‘‘

بات سے بات نکلتی رہتی ہے اور میں اپنے خیالات کو سمیٹ بھی نہیں پاتا۔ سیاسی ہلچل میں اضافے کے موسم کا ذکر بہت مناسب ہے لیکن اس کی تشریح میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کسی نے یہ کہا کہ اب آپشنز ختم ہوتے جارہے ہیں تو میری سمجھ میں یہی بات نہیں آتی کہ کس کے پاس کیا آپشن ہے۔ سیاست میں تو لوگ موسم اور عاشق کے مزاج سے زیادہ تیزی سے یوں بدل جاتے ہیں کہ آپ حیرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ عمران خاں کی جماعت کے اہم رہنما ایم۔کیو۔ایم کے دروازے پر دستک دے سکتے ہیں۔ سیاست میں موسم کی تبدیلی اسی لئے سمجھ میں نہیں آتی۔ لیکن میں سچ مچ کے موسم کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس میں ایک بڑی تبدیلی ضرور رونما ہورہی ہے۔ یا یہ کہئے کہ ایک ہفتے قبل ہوچکی ہے۔ 22؍ستمبر کے آس پاس، ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب رات اور دن بالکل برابر ہوجاتے ہیں۔ شمالی کرہ ارض میں کہ جس میں ہمارا ملک بھی واقع ہے اسے موسم گرما کے اختتام اور خزاں کے آغاز کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

یہی کرشمہ کہ جب دن اور رات برابر ہوجائیں 21؍ یا 22؍ مارچ کو رونما ہوتا ہے اور تب موسم بہارکا آغاز ہوتا ہے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں، مختلف انداز میں اس کا جشن منایا جاتا ہے۔ شمالی ملکوں میں خاص طور پر ان موسموں کی الگ الگ پہچان زندگی کی پوری دھن کو تبدیل کردیتی ہے۔ ہمیشہ سے انسان نے اپنی زندگی کو بدلتے موسموں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ موسم بھی زندگی کے استعارے ہیں۔ ہم لوگ، خاص طور پر شہروں میں رہنے والے، موسموں کی تبدیلی کو زیادہ محسوس نہیں کرتے۔ کسی حد تک یہ ہماری تہذیبی پسماندگی کی ایک نشانی ہے کہ ہم اپنے موسمی تہواروں اور تقریبات سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ زمین سے ہمارا رشتہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ لاہور، کی بسنت اب ایک یاد بن کر رہ گئی ہے اور یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جس کے سچے اظہار کی ہم میں صلاحیت بھی نہیں۔ وسیع تر معنوں میں اپنے ماحول سے بھی ہمارا رشتہ معاندانہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ماحول کی آلودگی آنے والے زمانے میں ہم سے بہار کے تصور تک کو چھین لے گی۔ لیکن آنے والا زمانہ کیسا ہوگا اس کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ سیاست میں ہم پھول کھلنے اور پھل پکنے کے موسم کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔ فی الحال تو وقت کی تقویم میں خزاں کا موسم شروع ہورہا ہے…


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).