وہ تیرہ کام جو سعودی عورتیں آج بھی نہیں کر سکتیں


سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیو کرنے کی اجازت جہاں صنفی مساوات کی طرف ایک اہم قدم ہے وہیں ریاست میں ایسے بہت سے دوسرے قوانین اب بھی ہیں جو انسانی حقوق سے براہ راست متصادم ہیں۔

سعودی عرب کی ریاست کرہ ارض کی واحد حکومت تھی جہاں خواتین کو گاڑی چلانے سے روکا گیا تھا۔ نئے احکامات کے مطابق جون ۲۰۱۸ سے خواتین ڈرائیونگ لائسینس حاصل کر سکیں گی۔ اس دوران ایک کمیٹی اس قانون کو ملکی آئین سے ہم آہنگ کرنے پر کام کرے گی۔

اقوام متحدہ میں سعودی سفیر نے اسے ایک تاریخی دن قرار دیا۔

انہوں نے بتایا کہ “خواتین اپنے محرم کی اجازت کے بغیر گاڑی چلا سکیں گی۔ یہ ان کی مرضی پر ہو گا، لیکن شاید اس میں کچھ سماجی مسائل پیش آئیں۔”

لیکن ہیومن رائٹ واچ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں ڈرائیونگ کی اجازت ہی وہاں موجود خواتین کے تمام مسائل کا حل نہیں ہے۔ زندگی کے دیگر فیصلوں میں وہ اب بھی ڈرائیونگ سیٹ پر موجود نہیں، اس کے لیے اب بھی وہ اپنے محرم (ولی، گھر کا سربراہ مرد) کی محتاج ہیں۔ اور اس کی وجہ ملکی قوانین ہیں۔ وہ ہر معاملے میں حل کے لیے اپنے باپ، شوہر، بھائی یا بیٹے کی طرف دیکھنے کی محتاج ہیں۔

درج ذیل تیرہ بنیادی نکات وہ ہیں جو دیگر بہت سے مسائل کے علاوہ سعودی خواتین کو درپیش ہیں؛

شادی؛
ہیومن رائٹ واچ رپورٹ کے مطابق وہ اپنے ولی کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کر سکتیں۔

طلاق؛
عورت کو طلاق کے لیے بھی ولی کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ اور جب تک طلاق کا فیصلہ نہ ہو جائے اس کا خاوند ہی اس کا قانونی محرم/ولی  ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شادی کے بعد بھی لڑکی کا باپ یا بھائی اس رشتے سے ذاتی طور پر مطمئن نہ ہونے کی صورت میں طلاق کے لیے عدالت سے رابطہ کر سکتے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا۔

بچوں کی تحویل؛
رہورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طلاق کے بعد سات برس کا لڑکا اور نو برس کی عمر کے بعد لڑکی ماں کی تحویل میں نہیں رہ سکتے۔

پاسپورٹ کا حصول؛
رپورٹ کے مطابق محرم کی اجازت کے بغیر خواتین شناختی کارڈ یا پاسپورٹ نہیں بنوا سکتیں۔

سفر؛
خواتین محرم کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں، نہ ہی سفر کر سکتی ہیں۔ (ہیومن رائٹس واچ رپورٹ)

جیل سے رہائی؛
خواتین اگر کسی جرم کی سزا پا کر جیل میں ہیں تو بھی وہ محرم کی اجازت کے بغیر رہا نہیں ہو سکتیں۔ بعض اوقات محرم انہیں رہائی کی اجازت دینے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ وہ اسے خاندان کی بے عزتی سمجھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ اس اجازت سے ان کا وقار مجروح ہو گا۔ (ہیومن رائٹس واچ رپورٹ)

بینک اکاؤنٹ کھولنا؛
انہیں اپنا یا اپنی اولاد کا بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے بھی محرم کا تحریری اجازت نامہ درکار ہوتا ہے (ہیومن رائٹس واچ رپورٹ) ۔

نوکری کا حصول؛
سعودی عرب میں بہت کم ایسی نوکریاں ہیں جو خواتین ولی کی اجازت کے بغیر حاصل کر سکتی ہیں۔ کچھ کمپنیاں تو خواتین کا ملازمت دینے کے حق میں ہی نہیں ہیں۔(ہیومن رائٹس واچ رپورٹ)

لباس کا انتخاب؛
سعودی عرب میں شرعی قوانین یا اسلامی قانون کا نفاذ بہت سختی سے ہے۔ ان کے مطابق جب خواتین پبلک میں ہوں گی تو ان کا لباس مکمل طور پہ ان کا جسم ڈھانپتا ہو گا اور ان کا سر بھی ڈھکا ہو گا۔ ایک سکارف اور ایک عبایا لوازمات میں سے ہیں۔  (ہیومن رائٹس واچ رپورٹ)

مردوں سے آزادانہ بات چیت؛
خواتین کو فیملی میں موجود مردوں کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بہت کم بات چیت کی اجازت ہوتی ہے۔ وہ بینکوں، دفاتر، ریسٹورینٹس اور یونیورسٹیوں میں بھی مردوں سے دور رکھی جاتی ہیں۔ (یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ)

وراثت؛
سعودی شرعی قوانین کے مطابق بیٹیوں کو بیٹوں کی نسبت جائیداد میں آدھا حصہ ملتا ہے۔ (یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ)

گواہی کا مسئلہ؛
سعودی عدالتوں میں ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر ہوتی ہے۔ (یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ)

علاج کے مساوی حقوق؛
سعودی عرب میں خواتین کو بعض امراض میں علاج کے لیے بھی ولی کی اجازت درکار ہوتی ہے۔  سرجری اور زندگی بچانے والے پروسیجرز میں بھی انہیں محرم کا اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ (ہیومن رائٹس واچ رپورٹ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).