اف یہ کمیٹیاں !


\"mujahid

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے شہباز تاثیر کی بازیابی کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کی تحقیقات کے لئے دو اعلیٰ افسروں پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہمیں قوم سے سچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ جہاندیدہ وزیر داخلہ نے اس فقرے میں وہ ساری بات کہہ دی جو براہ راست کہتے ہوئے شاید ڈھیٹ سیاستدانوں کو بھی حجاب محسوس ہوتا ہوگا۔ کہ کسی واقعہ کے بارے میں صرف سرکاری مؤقف پر بھروسہ کیا جائے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ سرکار میں شامل ہر کل پرزہ جھوٹ کی اس نگری میں خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔ بیچارے وزیر داخلہ اپنی خفیہ صلاحیتوں کے بل پر وزیراعظم کو تو ’تھلے‘ لگا سکتے ہیں لیکن بیوروکریسی کے سینکڑوں افسروں کا منہ کیسے بند رکھیں۔ سو اب یہ کمیٹی اس ملین ڈالر سوال کا جواب تلاش کرے گی۔

یوں تو مستعد اور قوم کے سچ جاننے کے حق کے لئے بے چین وزیر داخلہ کو چاہئے تھا کہ اس معاملہ پر کمیٹی بنانے سے پہلے وہ ایک ایسی کمیٹی بناتے جو ان کمیٹیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتی جو صرف مسلم لیگ (ن) کے موجودہ تین سالہ دور میں قائم کی گئیں اور پھر وہ اس نظام میں ’مقیم ‘ ہوگئیں۔ نہ کمیٹیوں کی کارکردگی کا پتہ چلا اور نہ یہ علم ہوسکا کہ حکومت نے اس بے عملی پر کیا اقدام کیا ۔ دراصل کام کے بوجھ اور مسائل کی ریل پیل کی وجہ سے حکومت کو بھی کہاں خبر رہتی ہے کہ کب کون سی کمیٹی بنائی تھی اور اس نے کوئی کام کیا بھی تھا یا نہیں۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ چوہدری نثار علی خان کو اگر اس معاملہ پر غصہ آ ہی گیا ہے تو وہ ایک ایسی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دیں جو یہ جواب تلاش کرے کہ کمیٹیاں کام کیوں نہیں کرتیں۔ اور ایک کمیٹی اس مقصد کے لئے بنائی جا سکتی ہے کہ آخر اتنے بھاری بھر کم سرکاری نظام ، اداروں اور افسروں کے ہوتے ہوئے کمیٹیاں بنانے کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوتی ہے۔ ایک کمیٹی یہ جانچ کر سکتی ہے کہ عام لوگ اس قسم کی کمیٹی سازی کے بارے میں یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ارباب اقتدار کو جب کسی معاملہ پر دھول ڈالنا ہوتی ہے تو کمیٹی قائم کرنے جیسے تیر بہدف نسخے کا ہی کیوں سہارا لیا جاتا ہے۔ کوئی نیا طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں۔

یہ ساری بھاری بھر کمیٹیاں بنانے کے بعد ان کا انتظام کرنے کے لئے ایک وزارت، باقاعدہ سیکریٹریٹ اور عملہ کی ضرورت بھی پڑے گی۔ حکومت چونکہ عوامی ہے ، اس لئے اس معاملہ کے انتظامی اور مالی پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لئے بھی ایک کمیٹی بنائی جا سکتی ہے جسے دو، تین ، چار یا پانچ دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا جا سکتا ہے۔البتہ چوہدری نثار علی خان کی بہادری، حق پرستی ، فعالیت اور عوام سے سچ بولنے کی شدید خواہش کے پیش نظر ہماری یہ درخواست ضرور ہوگی کہ یہ وزارت قائم ہونے کے بعد، چوہدری صاحب خود اس کا انتظام سنبھالیں۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ چوہدری نثار علی خان حکومت کے اندر بھی ’ناپسندیدہ ‘ عناصر کی موجودگی کے پیش نظر وزارت داخلہ چھوڑنے کا خطرہ مول لیں گے لیکن وہ نئی وزارت کا اضافی چارج تو بہر صورت سنبھال ہی سکتے ہیں۔ اپنے حقوق سے محروم قوم کا چوہدری صاحب پر اتنا حق تو ہے ہی۔

اس دوران شہباز تاثیر کی رہائی کا معاملہ ہو ، مصطفی کمال کی واپسی کا اسکینڈل ہو یا ممتاز قادری کی پھانسی پر گرم افواہیں ہوں، قوم یا تو آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنر ل عاصم باجوہ کے ٹوئٹر پیغامات کا سہارا لے سکتی ہے یا پاکستان کے خبر ساز سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی معلومات پر تکیہ کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments