شیعہ، محرم اور بند سڑکوں کا شکوہ


محرم کے دنوں میں بعض حلقوں کی جانب سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو جاتی ہے کہ شیعہ اپنی طاقت دکھانے کی خاطر سڑکیں بند کر کے پورے ملک کو مفلوج کر ڈالتے ہیں۔ کیا ایسا کہنے والے انصاف کر رہے ہیں؟ کیا سڑکیں صرف محرم کے دنوں میں بند کی جاتی ہیں؟ کیا یہ سڑکیں شیعہ بند کرتے ہیں یا کوئی دوسرا ایسا کرتا ہے؟ کیا ہم اس حقیقت سے واقعی واقف نہیں ہیں کہ شیعان حیدر کرار کو چن چن کر نشانہ بنایا جاتا ہے؟ لشکر جھنگوی ہو، القاعدہ یا داعش، ہر ایک کے دہشت گردوں کا یہ مسلک نشانہ بنتا ہے۔

کیا ہمیں کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف مسلسل ہونے والے بم دھماکے یاد نہیں ہیں؟ کیا ہمیں پارہ چنار بھول رہا ہے جہاں دہشت گردی نے نہ جانے کتنے گھر اجاڑ ڈالے ہیں؟ کیا ہم ہر چند دن بعد کراچی میں قتل ہونے والے کسی ڈاکٹر کی خبر نہیں دیکھتے جو ”اتفاق“ سے ہر مرتبہ شیعہ ہی نکلتا ہے؟ کیا ہم لاہور میں قتل ہونے والے اس ڈاکٹر اور اس کے گیارہ سالہ معصوم بچے کو یاد نہیں کرتے جن کا جرم شیعہ ہونا ٹھہرا تھا؟

ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ ملک میں مسلکی تنگ نظری کے باعث دہشت گردی کے عروج پانے کے بعد سے کسی بھی مذہب و مسلک کے لئے امن سے عبادت کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔ عید اور جمعے کے اجتماعات کے موقعے پر ہر مسجد اور عید گاہ کے باہر مسلح سپاہی تعینات کیے جاتے ہیں۔ یہاں تو جنازے بھی محفوظ نہیں ہیں اور نماز جنازہ کے اجتماعات میں بھی خود کش حملے ہوتے رہے ہیں۔ اور یہ حال سنی عبادت گاہوں کا ہے۔ چرچ اور امام بارگاہیں تو خاص طور پر نشانہ بنائے جاتے ہیں۔

آج ٹی وی پر خبریں چل رہی ہیں کہ پنجاب حکومت نے لاہور کو دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر حساس ترین شہر قرار دیا ہے۔ پورے پنجاب میں ڈیڑھ لاکھ سیکیورٹی اہلکار محرم کے جلوسوں کی حفاظت کے لئے تعینات کیے گئے ہیں۔ اور یہ شیعہ نہیں بلکہ حکومت ہے جو محرم کے جلوس اور اجتماعات پر سڑکیں بند کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ کون سی حکومت چاہے گی کہ اس کے سینکڑوں شہری خاک اور خون میں نہا جائیں؟

ہمیں خود بہت تکلیف ہوتی ہے جب ہمیں اپنے آنے جانے کے راستے بند ملتے ہیں، موبائل کے سگنل بند ہو جاتے ہیں، ہماری بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ایسا نہ ہو۔ مگر ہم سے زیادہ یہ خواہش تو شیعان حیدر کرار کی ہے کہ وہ اپنی جان کے خوف کے بغیر یہ جلوس نکال سکیں۔ ان جلوسوں میں اور مجلسوں میں شریک ہونے والے تو سر ہتھیلی پر رکھ کر ایسا کرتے ہیں۔ یہ کوئی جنگجو نہیں ہیں جو ان جلوسوں میں شامل ہوتے ہیں، یہ ہم اور آپ جیسے عام سے لوگ ہی ہیں۔ راستے بند ہونے سے یہ ہم سے زیادہ تنگ ہوتے ہیں۔ دور کسی محفوظ جگہ پر گاڑی پارک کر کے ادھر سے کسی اینٹری پوائنٹ پر پہنچنا اور پھر خوب خوار ہو کر جلوس یا مجلس میں شامل ہونا ان کو بھی تنگ کرتا ہے۔

اگر امن یقینی ہو گا اور دہشت گردی نہیں ہو گی تو کیا یہ راستے روکنے کی ضرورت ہو گی؟ سنہ 80 کی دہائی تک بھی یہ محرم کے جلوس ہوتے تھے۔ ان کی وجہ سے کتنی دیر تک راستے بند ہوتے تھے؟ کسی جگہ سے محرم کے جلوس کو گزرنے میں کتنا وقت لگتا ہے، پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ حکومت کو اب یہ راستے کئی کئی گھنٹے اور کئی کئی دن بند رکھنے پڑتے ہیں؟

راستے بند کرنے کی بات چلی ہے تو ہم سنی بھی تو ہر جمعے کو راستے بند کرتے ہیں۔ مساجد میں جگہ کم پڑنے پر سڑک بند کر کے وہاں صفیں بچھائی جاتی ہیں۔ دہشت گردوں سے بچنے کے لئے وہاں بھی راستے بند کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں خوف کی اس کیفیت کا سامنا نہیں ہے جس کا اہل تشیع شکار ہیں۔ مانا کہ قرآن مجید میں قوم لوط کے جو تین گناہ گنوائے گئے تھے ان میں ایک راستے بند کرنا بھی شامل ہے اور حدیث پاک میں بھی راستے کے حقوق دینے کی تاکید دی گئی ہے اور راستوں پر بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن جب مجبوری ہو اور حکومت اپنے شہریوں کی جان کے خوف سے ایسا کرے تو پھر شکایت سرکار یا شیعان حیدر کرار سے نہیں بلکہ خود اپنے آپ سے کرنی بنتی ہے کہ ہم نے اپنے پرامن معاشرے کو کس نہج پر پہنچا دیا ہے۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar