کربلا میں شب عاشور اور خضر سے گفتگو


تین سال پہلے آج کے دن میں کربلا میں تھا۔ مغرب سے کچھ پہلے میں نے اپنے بیٹے حسین سے کہا کہ چلو، تمھیں کربلا کی شب عاشور دکھاتا ہوں۔ چودہ صدیاں پہلے اسی مقام پر یہ رات امام حسین کے قافلے پر بھاری تھی۔ اس رات کربلا والے نہیں سوئے۔ کربلا والوں کو ماننے والے آج بھی نہیں سوتے۔

حسین اس وقت بارہ سال تھا۔ میں اس کا ہاتھ تھام کر ہوٹل سے نکلا۔ اگر آپ کبھی کربلا نہیں گئے تو تصویروں میں دیکھا ہوگا کہ وہاں دو روضے ہیں۔ ایک امام حسین کا اور ایک ان کے بھائی لشکر حسینی کے علم دار حضرت عباس کا۔ ان دونوں روضوں کے درمیان ایک کلومیٹر کا راستہ ہے۔ یوں تو کربلا کے چاروں طرف سخت سیکورٹی ہوتی ہے لیکن حرمین کے اطراف سیکورٹی کا ایک مرکزی دائرہ ہوتا ہے۔

مغرب سے پہلے میں اور حسین اس آخری دائرے میں داخل ہوئے۔ اذان ہونے میں آدھا گھنٹا ہو گا۔ میں روضوں کے باہر باہر سے ایک چکر لگانا چاہتا تھا لیکن شارع علقمہ پر پہنچ کر مجھے لگا کہ اچانک رش بڑھ گیا ہے۔ میرے ساتھ بچہ تھا۔ میں نے چاہا کہ روضے میں داخل ہوجاؤں۔ لیکن وہاں جگہ نہیں تھی۔ میں وہیں سے پلٹ گیا۔ لیکن پیچھے اتنا ہجوم تھا کہ چلنا مشکل ہوگیا۔

اس کے بعد ایک گھنٹے تک ہم عوام کے ریلے کے ساتھ بہتے رہے۔ گرمی تھی اور رش کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ ایک راستے پر کوئی گاڑی کھڑی تھی۔ راستہ اور تنگ ہو گیا۔ مجھے آگے پیچھے زور لگا کر اپنی جگہ بنانی پڑ رہی تھی۔ حسین کو بھی دھکم پیل سے بچانا تھا۔ میں بری طرح گھبرا گیا۔ ایک لمحے کو مجھے خدشہ ہوا کہ میں اپنے بیٹے کو زندہ باہر نہیں نکال پاؤں گا۔

پتا نہیں کیسے مجھے ایک بغلی گلی میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ روضوں کے اطراف میں نسبتا بڑی سڑکیں ہیں۔ وہاں بہت رش تھا۔ تنگ گلیوں میں کم لوگ تھے۔ وہاں پرانے ہوٹل تھے، چھوٹی دکانیں تھیں، کچھ رہائشی مکان بھی تھے۔ ہم اندر ہی اندر چلتے گئے۔ میرا مقصد کہیں پہنچنا نہیں، ہجوم والے مقامات سے دور جانا تھا۔ لیکن ان گلیوں میں بھی رکاوٹیں تھیں۔ کہیں نیاز کی دیگ چڑھی ہوئی تھی، کہیں تبرک تقسیم ہو رہا تھا، کہیں کہیں بند گلی بھی تھی۔

راستہ لمبا کرتے کرتے ہم سیکورٹی کے مرکزی دائرے سے باہر نکل آئے۔ اب ایک کھلی شارع تھی۔ روشنی کم تھی۔ ہجوم نہیں تھا۔ میں نے ایک دکان سے پانی لیا اور حسین کو پلایا۔ پھر اپنی سمجھ کے مطابق ایک رخ پر چل پڑا۔ اب جہاں سے آگے جانے کی کوشش کی، وہاں راستہ بند ملا۔ ۔ گلیوں سے گلیاں نکلتی گئیں، ہم روضوں سے دور ہوتے گئے۔ جیسے ہی مرکز کی طرف بڑھتے، گلی بند ملتی یا عوام کا ریلا راستہ روک دیتا۔

حسین تھک گیا تھا۔ میری گھبراہٹ کم ہوچکی تھی۔ دور سے حضرت عباس کے روضے کا گنبد نظر آ رہا تھا۔ میں نے دل میں کہا، مولا! کیا آپ کے شہر میں راستہ پوچھنے کے لیے خضر کو آواز دوں؟

اسی لمحے میرا فون بجا۔ میں نے کال وصول کی تو کوئی اجنبی تھا۔ غلطی سے میرا فون ملا بیٹھا تھا اور اردو بول رہا تھا۔ میں نے کہا، بھیا ہے تو رونگ نمبر لیکن میں راستہ بھول گیا ہوں۔ کچھ مدد کرسکتے ہو؟ اس مہربان نے کہا، حکم! میں نے بتایا کہ کہاں موجود ہوں اور ہوٹل کا نام کیا ہے؟ اس مہربان نے کہا کہ یہ ہوٹل جس علاقے میں ہے، اس کا نام خیام ہے۔ کسی سے پوچھیں کہ خیام جانے کا راستہ کیا ہے۔ اس سڑک کا نام شارع امام علی ہے۔

میں نے ایک راہ چلتے عرب سے پوچھا کہ شارع امام علی کہاں ہے؟ خیام کا علاقہ کدھر ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ ساتھ والی عمارت، جہاں لوگ شمعیں جلارہے ہیں، یہی خیام حسینی ہیں۔ تم جس سڑک پر کھڑے ہو، یہی شارع علی ہے۔ ہوٹل برابر والی گلی میں تھا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi