آزاد میڈیا سازش نہیں ہوا کرتا


عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب ہم کسی فلم ساز، اداکار، شاعر، سیاست دان، لکھاری یا کسی بھی ایسے شخص کی وہ بات سنتے ہیں جو ہمارے دماغ کے خانے میں فٹ نہیں آتی تو ہم اس کے پیچھے فنڈنگ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں، ہمیں ایجنڈے کی خوشبوئیں آنا شروع ہو جاتی ہیں، ہم سازشوں کا راگ الاپتے ہیں، ہم تھڑوں پر بیٹھ کر جتنا ممکن ہو سکتا ہے انہیں گالیاں دیتے ہیں، ہمارا بلڈ پریشر ہائی ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر، ڈھونڈ ڈھانڈ کر جب کوئی ایک بھی ہم خیال ملتا ہے تو ہماری طبیعت قابو میں آنا شروع ہو جاتی ہے۔ دو چار دن بعد لگتا ہے کہ یار سب کچھ نارمل ہی تو ہے، کیوں خواہ مخواہ اتنی توانائی ضائع کی۔

سب سے پہلے یہ جاننا چاہئیے کہ منافقت کسی کی میراث نہیں ہے۔ اگر اپنے اردگرد ایویں ایک ہلکی سی نظر ڈالیں تو آپ کو بہت سے کردار ایسے نظر آئیں گے جو آپ کے ساتھ بالکل یس ہوں گے لیکن آپ کے مخالفین سے بھی ان کی گاڑھی دوستی ہو گی۔ بقول افضل ساحر، جندے نیں کی لچھن تیرے، پھنیر نال یارانے وی نیں، جوگی ول وی پھیرے۔ ایسا اتفاق سوشل میڈیا پر بھی ہو سکتا ہے اور عام زندگی میں تو خیر ہر دوسرا بندہ فلمی ہیرو بنا یہی گاتا پھرتا ہے، مجھے دوستوں نے لوٹا، مجھے زندگی نے مارا۔ لیکن یہ رویے صرف اس زندگی میں ہی ممکن ہیں جو عام آدمی گزارتا ہے۔ جس لمحے آپ فلم ساز، اداکار، شاعر، سیاست دان یا لکھاری بن کے بات کرتے ہیں تو آپ کی ہر بات، ہر دوستی، ہر مخالفت، ہر رویہ، سب کچھ آن دا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اب یا تو بات کرنے والا چکنا گھڑا ہو، اس صورت میں کہے گئے لفظوں سے پھر جانا ممکن ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو منافقت ایک نہایت مشکل کام بن جاتا ہے۔ اگر آپ ایکسپوزڈ ہیں، لوگ آپ کو جانتے ہیں، ذمہ دار جگہ پر بیٹھے ہیں تو بیان دے کے یو ٹرن مارنا آپ کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے میں ایک راستہ بچتا ہے، اپنے پوائنٹ آف ویو پر قائم رہتے ہوئے اس کا دفاع کرنا۔ وہ کچھ بھی ہو، کوئی بھی بات ہو، اسے ممکنہ طور پر ثابت کرنا۔ اور اگر وقت گزرنے کے ساتھ کبھی ایسا لگے کہ یار ہم غلطی پر تھے تو شرافت سے اس نظرئیے کو خیرآباد کہہ دینا۔

سوچنا ہر انسان کا حق ہے اور تمام سوچ بچار کی ایکسرسائز کے بعد جو راستہ بہتر لگے اسے نظریاتی طور پر اپنا لینا بھی جائز بات ہے۔ نئی تہذیب کے اصول ہرگز منع نہیں کرتے کہ لکھنے والا جانبدار نہ ہو۔ یہاں معاملات تھوڑے سکوئیز کر کے دیکھنے ہوں گے۔ پاکستانی صحافیوں کے بارے میں چند دن پہلے ایک دعویٰ کیا گیا کہ وہ بیکری کے ملازم ہیں اور جب مالکان حکم دیتے ہیں تو وہ اٹھ کر شیشہ چمکانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ پاکستان میں لکھنے والے واضح طور پر دو گروپس میں تقسیم ہیں۔ ستر فیصدی پرو اسٹیبلشمنٹ سمجھ لیجیے بیس فیصد اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور جو دس فیصد ہیں وہ بہت کوشش کریں گے کہ ان کا جھکاؤ واضح نہ ہو مگر صاحب تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ اس تقسیم میں پھر دائیں اور بائیں بازو کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے لیکن جو کوئی، جو کچھ بھی لکھتا ہے وہ کم از کم غیر جانبداری کا دعوی نہیں کر سکتا۔ چند مشہور لکھنے والوں کے نام ذہن میں لائیے تو ساتھ ہی ان کی وابستگیاں بھی یاد آ جائیں گی۔ اب یہ جو شیشہ چمکانے والا معاملہ ہے، یہ ہر کوئی اپنے دائرے میں رہ کے سرانجام دیتا ہے لیکن، مرضی اپنی ہوتی ہے۔ مالکان آپ کو رف قسم کی پالیسی کا ایک خاکہ تو دے سکتے ہیں، اسی فریم کے اندر رہنے پر مجبور بھی کر سکتے ہیں لیکن ہارڈ لائنر کبھی نہیں بن سکتے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اخبار کے ادارتی صفحے پہ لکھنے والا ہر ایک آدمی یکساں راگ الاپ رہا ہو، ایسا ہو گا تو پھر وہی ہو گا جو ماضی کے مشہور اخبارات کے ساتھ ہو چکا ہے۔ یک رنگی سے پیدا ہونے والا زوال خود مجبور کرتا ہے کہ اخبار میں ورائٹی پیدا کی جائے، مخالف پوائنٹ آف ویو لایا جائے، یہی ورائٹی کارپوریٹ کلچر یا ٹھیک طور سے جمہوریت بھی کہلا سکتی ہے۔ سادہ ترین لفظوں میں یہ ضروری نہیں کہ ہر اخبار کی ہر تحریر ہر ایک کو پسند آ جائے۔ سازش سونگھ کر آدم بو چِلّانے اور میڈیا ہاؤس چلانے میں فرق رکھنا پڑتا ہے۔

کارپوریٹ کلچر اور آزاد میڈیا کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ فی الحقیقت یہی چیز ہمارے نصابی رویے ہضم نہیں کر سکتے۔ ہم آئے دن اشتہاروں میں فحاشی ڈھونڈتے ہیں، ڈراموں میں غیر اخلاقی مناظر کا رونا روتے ہیں، سیاست دانوں کی کوریج پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں، بھائی یہ ایک کاروبار ہے۔ اگر منڈی کھلی نہیں ہو گی، ہر طرح کی دکان کھولنے والوں کو آپشن نہیں ملے گا تو کاروبار کیسے ہو گا؟ جب کوئی بزنس مین کچھ بھی انویسٹمنٹ کرتا ہے تو سامنے چند فائدے اسے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ وہ سکول بھی کھولے گا تو فی سبیل اللہ پڑھانے کا وہاں کوئی رواج نہیں ہو گا بلکہ فیس وصولی جائے گی۔ میڈیا سکول نہیں ہوتا، یہ آپ کو اخلاقیات کا درس نہیں دے سکتا، یہ آپ کے سامنے آپشنز رکھتا ہے، اگر اتفاق نہیں ہے تو وہ چینل دیکھنا چھوڑ دیجیے، اس سائیٹ پر جانا چھوڑ دیجیے، جو پسند ہے، وہاں جائیے، وہ دیکھیے اور سکون پروگرام۔ اسی طرح چونکہ کوئی بھی چینل قوم کی اخلاقی تربیت کا دعویدار نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کوئی فیس وصول کرتا ہے تو اسے اشتہار چاہئیے ہوتے ہیں۔ عقیدے، سماجیات، پند و نصائح اور گھریلو زندگی کے درس ڈپٹی نذیر احمد کے دور میں چلتے تھے، انہوں نے کماحقہ انہیں چلایا اور وہ کتابیں انگریز سرکار نے منظور بھی کیں۔ اب اس وقت اگر میڈیا کاشتکاری کے راہنما اصول بتائے گا، یا پیارے بچوں کو سلام کر کے قاعدے پڑھائے گا تو وہ سٹیٹ چینل تو ہو سکتا ہے کمرشل چینل نہیں ہو سکتا۔ رہ گیا نظریہ اور جانبداریاں تو اس وقت بھی ہر چینل کے پاس اپنا نظریاتی ورژن موجود ہے اور وہ اس کے مطابق چلتے ہیں۔ ہمارا نظریہ، ہمارے خیالات، ہمارا یقین پوری دنیا پر لاگو نہیں کیا جا سکتا، اس مقصد کے لیے ہمیں قدرت نے ریموٹ کنٹرول کی سہولت مہیا کی ہے۔

جسے ہم لوگ جھوٹ یا دھوکا کہہ رہے ہوتے ہیں وہ دراصل ہمارے اپنے خیالات سے میچ نہیں کر رہا ہوتا۔ ہو سکتا ہے کسی چینل کا جھوٹ کسی بندے کا سچ ہو۔ مثلاً ایک چینل دائیں بازو کا ہے تو اس سے کتنے بائیں بازو والوں کو اتفاق ہو گا؟ ایک چینل ن لیگ کو سپورٹ کرتا ہے تو انصاف والے کتنے ہوں گی جو اسے ٹھیک سمجھتے ہوں گے؟ یعنی ایک ہی وقت میں ن لیگ کا سچ تحریک انصاف کا جھوٹ ہو گا؟ تو یہ جھوٹ یا دھوکا وغیرہ جو ہے، یہ ریلیٹو ٹرم ہے اسے جذباتی نعروں میں برتا جا سکتا ہے لیکن خواہ مخواہ میڈیا کو رگڑنا مناسب نہیں ہے۔

مختصراً یوں ہے کہ ہم اپنی ذات کے اسیر رہ کر اپنا بھلا تو کر سکتے ہیں لیکن دوسروں کو اسی بھلے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ باڈی پازیٹو تحریکوں کے اس زمانے میں اگر محدب عدسہ لے کے ہر ڈرامے اور اشتہار میں خواتین کا لباس جانچا جائے تو یہ عجیب سی بات لگتی ہے۔ جب پوری دنیا کا میڈیا آپ سے مقابلے پر ہے، دیکھنے والے کی رسائی امریکن اور برٹش میڈیا جائنٹس تک ہے تو اپنے ننھے منے چینلوں کی ہر کوشش کو منجن بیچنے سے تشبیہ دینا اچھا رویہ نہیں ہے۔

پاکستانی میڈیا کی موجودہ آزادی ایک لمبی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ یہاں لکھنے والا ہر کالم نگار اور صحافی محترم ہے۔ وہ اپنے نظرئیے سے وفادار ہے اور اس کا اسے حق حاصل ہے۔ تمام چینل جائز معاشی سرگرمی پہ یقین رکھتے ہیں اور اپنی حدود جانتے ہیں۔ اوپن مارکیٹ اکانومی اور مقابلے بازی کی فضا میں جینے کی کوشش کیجیے، رہے برا بھلا کہنے والے، تو ہر کوئی کچھ بھی کہہ لیتا ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain