واقعہ کربلا کی روشنی میں بھائی کی ضرورت


اسلام میں بھائی کو سرپرست، نگران اور تحفظ کی علامت سمجھا جاتا ہے، ماں باپ کی طرح بیٹیوں کو بھی بھائی کی تمنا ہوتی ہے اور بھائی کی پیدائش کے لئے خاص طور پر معصوم بچے بچیوں سے ماں باپ بیٹے کی پیدائش کی دعا کرواتے ہیں، بیٹا (اولاد نرینہ)کے لئے ہر ماں باپ خواہشمند ہوتے ہیں کیونکہ بیٹے سے نہ صرف نسل آگے بڑھتی ہے بلکہ بیٹا خاندان کی فلاح و بہبود کا بھی ضامن قرار دیا جاتا ہے، مرد خاندان کے معاشی مستقبل کا سہارا ہوتا ہے اور جب والدین ضعیفی کو پہنچتے ہیں تو انہں اپنی اسی اولاد سے ساری توقعات وابستہ ہوجاتی ہیں جس کو پال پوس کو انہوں نے پروان چڑھایا ہوتا ہے۔ میں بیٹے کا وجود باعث نجات اور خیرعافیت کے ضامن ہونے کے موضوع کو زیر بحث لانے پر اپنے قلم کو جنبش دینے کی خواہشند ہوں اور اسے لئے اس موضوع پر لکھ رہی ہوں کہ بھائی کیوں ضروری ہے۔

میرا یہاں اس موضوع پر لکھنا اس لئے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ میں ایک مرد کو عورت کا سہارا اور نگہبان اور سرپرست تسلیم کرتی ہوں، چاہے وہ باپ ہو یا بھائی یا پھر شوہر۔ عورت کا وجود مرد کے سہارے اور اس کے تحفظ کے بغیر ناممکن ہے اورپروردگار عالم نے خود اپنے کتاب حکمت میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہےاور عورت مرد کی کھیتی ہے اور اس بات میں بل کل کوئی شک و شبہات نہیں، بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے وجود کی تکمیل کے لئے اس دنیا میں آئے اور نہ مرد بغیر عورت باپ بن سکتا ہے اور نہ عورت بغیر مرد کے ماں، لہزا اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ اولاد ماں باپ کی آخرت کی کنجی ہے ، اگر اولاد کی درست تربیت کی گئی تو وہ جنت کا دروازہ بھی کھول سکتی اور اگر غفلت اور بے اعتنائی برتی گئی تو جہنم کا منہ بھی کھول سکتی ہے۔

میں جس امر پر بات کرنا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ بھائی کا وجود کیوں ضروری ہے؟ کیا بھائی کا وجود ہماری سلامتی کا باعث ہے؟ ہمارے وقار کا ضامن ہے ؟ ہمارے سماجی مقام میں اضافہ کرتا ہے یا پھر صرف ہمارے معاشی بوجھ کا حصے دار یا بڑھاپے کا سہارا ہے؟ ان تمام باتوں کو دو زاویوں سے سوچا اور سمجھا جاسکتا ہے ایک تو ماں باپ بن کر اور دوسرا بہن یا بیٹی بن کر، میری تحریر کا جز بہن کے لئے بھائی کی ضرورت پر مبنی ہے لہذا میں ایک بہن کے لئے بھائی کی ضرورت پر آج لکھ رہی ہوں۔ بہن کے لئے بھائی نہ صرف ایک سرپرست ہوتا ہے بلکہ اس کی طاقت و ہمت کا بھی ضامن ہوتا ہے، ایک بھائی کا وجود بہن کو اس ہمت و بہادری کے مقام سے ہمکنار کرواتا ہے جو وہ اکیلے کبھی نہیں حاصل کرسکتی اور اسے بھائی کے وجود سے اپنے زور بازو اور دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنے کی ہمت و جسارت کی صفت ملتی ہے، بے شک بھائی کا وجود ایک بہن کے لئے ہر غم و الم سے نجات کا باعث ہے اور وہ اپنی بہن کا مان ہوتا ہے اور بہن ہر طرح کی آفت اور مصیبت سے اپنے بھائی کی حفاظت کے لئے خدا کے سامنے سجدہ رو ہوکر گریہ کرتی ہے، آخر بھائی کا وجود کیوں اتنی اہمیت کا حامل ہے؟ اور کیوں بہن کی عزت و تکریم میں اضافے اور حفاظت کا ضامن ہے؟

یہ سب سننے اور سمجھنے کے لئے ہمیں واقعہ کربلا سے درس حاصل کرنا بے حد ضروری ہے،واقعہ کربلا کا درس صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ رہتی دنیا کے انسانوں کے لئے زریعہ نجات ہے اور امام حسین مظلوم کسی ایک فرد یا قوم کے امام نہیں بلکہ پوری خلقت خدا کے امام ہیں اور نوجوانان جنت کے سردار حسن و حسین ہیں، واقعہ کربلا میں جہاں حق اور باطل کی جنگ اور فتح یابی کے اصولوں سے تمام انسانیت کو وقار اور سربلندی کردار کا درس ملا وہیں ایک بہن سے بھائی کی محبت، طاقت و کامرانی اور ہمت وحوصلہ اور مرد مجاہد، سپہ سالار لشکر حسینؑ قمر بنی ہاشم اور مولائےکائنات علی ابن ابی طالب کی وجاہت اورللکار کی بہترین مثال حضرت عباس علمدارؑ کی شکل میں ہمارے دلوں میں محبت و وفاداری اور بھائی سے بہن کی محبت و الفت اور اس کے مان کی اس سربلندی کا نام ہے جس نے جناب زینب کا مان اور بہنوں کا محافظ بن کر دریائے فرات پر ہمت و بہادری کی اعلیٰ مثال بن کر اپنے دونوں بازو قلم کروادیے اور پورے لشکر حسین کی عزت و حفاظت کا ضامن بن کر تین دن کی بھوک اور پیاس کے باوجود نہر فرات سے پانی نہیں پیا کیونکہ ننھی سکینہ کا مشکیزہ خالی تھا اور زینب بنت علی کو اپنی بھائی کی مردانہ وجاہت و للکار اور زور بازو کا مان تھا اور وہ تمام بیبیوں کو عباس علمدار سے بندھی ڈھارس و یقین کا واسطہ دے کر تسلی دےرہیں تھیں کہ کوئی آنکھ اٹھا کر خیموں کی طرف نہیں دیکھ سکتا لیکن وہ بھائی جو ایک بہن کا محافظ اور لشکر حسین کا سپہ سالار تھا علمبردار تھا دونوں بازو قلم کئے جانے پر مشکیزہ سکینہ اپنے دندانے مبارک سے تھام لیتا ہے لیکن مشکیزہ گرنے نہیں دیتا، اور مولاعباس ؑ کی بہادری اور شجاعت کے جوہر اور للکار سے ڈر کر ان کے مشکیزے کو چھید دیا جاتا ہے تاکہ وہ خیمہ حسینی کے بچوں کی پیاس نہ بجھا سکیں جس کے بعد آپ کی آس ٹوٹ گئی، آپ کے دونوں بازو پہلے ہی قلم کئے جا چکے تھے۔

روایات میں لکھا ہے کہ حضرت عباسؑ علمدار اپنے چہرے کے بل زین سے زمین پر آتے ہیں اور آپکی آنکھ میں بھی تیر پیوست تھا جو امام حسین نے اپنے دست مبارک سے نکالا تھا تاکہ بھائی دم رخصت امام حسین کا دیدار کر سکے، مولا عباس علمدار کی وفاداری اورامام سے محبت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے کبھی امام حسین ؑ کو بھائی کہ کر نہیں پکارا، ہمیشہ آقا کہ کر مخاطب کیا اور ہمیشہ ان کی ہی حکم کی تعممیل کی اور کبھی زینب کو عباس کے ہوتے ہوئے کسی تکلیف یا رنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا، حضرت عباسؑ جناب زینب سلام اللہ علیہا کا مان تھے ان کی آنکھوں کا ٹھنڈ ک اور طاقت تھے، جنگ صفین میں مولائے کائنات حضرت علی انب ابی طالب نے آپ کو قمر بنی ہاشم کا لقب دیا کیونکہ آپ بےحد خوبصورت اور مرادنہ وجاہت سے مالا مال تھے ، حضرت عباس علمدار ؑ کو باب الحوائج بھی کہا جاتا ہے اور سقائے سکینہ کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے، واقعہ کربلا میں مولا عباس ؑ کا کردار جہاں تمام امت مسلمہ اور کائنات کے لئے حشمت و جلال اور بہادری کا درس دیتا ہے وہیں بھائی کی بہن سے محبت اور عزت و تکریم میں اضافے اور سلامتی کا باعث بھی ہے اور یہاں یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ایک بہن کے لئے بھائی کا سہارا اور بھائی کےلئے بہن کا مان کیا قدرو منزلت رکھتا ہے اور دنیاو آخرت میں کامیابی و کامرانی کا باعث ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).