پردیس میں استاد بسم اللہ خان کی شام غریباں


مجھے دبئی شفٹ ہوئے قریب ڈھائی سال بیت گئے۔ شروع شروع میں تو دل بالکل نہیں لگتا تھا۔ لاہور کی رہنے والی جو تھی۔ گلیاں چاہیے تھیں۔ کوچوں کی تلاش تھی۔ لیکن اب دل سنبھل گیا ہے۔ یہیں لگتا ہے۔ بس گئی ہوں شاید۔ اب تو لاہور جا کر بھی دل واپس لوٹنے ہی کو بےقرار رہتا ہے۔ وہاں والے کہتے ہاں، دبئی کی ہوا لگ گئی۔ شاید صحیح کہتے ہیں۔ بڑی جھلسا دینے والی ہوا چلتی ہے کبھی کبھی۔ انہیں کیا پتہ۔

عرب ملک کا حصہ ہوتے ہوئے بھی دبئی کچھ وکھرا سا ہی ہے۔ ہر طرف نیویارک کے علاقے مین ہٹن  طرز پر بنی فلک بوس عمارتیں، چمکتے دمکتے شاپنگ مال، حسینوں کا جم غفیر، اندر کی لیلا۔ ساحل سمندر یا کلب میں جانے کی سعادت نصیب ہو تو لگتا ہی نہیں کہ عربوں کا قدامت پرستی سے دور دور تک کوئی رابطہ ہے۔ لیکن کسی بھول میں مت رہے گا۔ روایات کے پکّے ہیں۔ راسخ العقیدہ اور بدعت سے دور۔ بس کسی کے کام میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔ قانون سے مطلب ہے بس۔ لاء اینڈ آرڈر کی وہ پاسداری ہے کہ دنیا کے ہر ملک کو پیچھے چھوڑے ہوئے ہیں۔ یوں ہی تو دشت کو بھی ظلمات کا نمونہ بنا چکے ہیں۔

جس علاقے میں اپارٹمنٹس کی بلڈنگ میں غریب خانہ ہے۔ جابجا اونچی بلڈنگیں، تپتے ہوئے صحرا میں یخ بستہ بلڈنگیں، ویری بورنگ۔ میرا ننھا سا اپارٹمنٹ یہاں کے حساب سے بہت ننھا نہیں۔ لیکن کیا کہوں کہ پنجاب کی ہوں۔ جب تک کشادہ صحن کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے میں سانس نہ ہانپ جائے دل راضی نہیں ہوتا۔ شروع شروع میں تو دم گھٹتا تھا۔ اب عادت ہو گئی ہے۔ دن کے وقت ہو کا عالم ہوتا ہے یہاں۔ یوں تو رات کو بھی۔ مکمّل سکوت ! خدا جانے کوئی بستا بھی ہے آس  پاس یا نہیں۔ بستا  ہے تو دکھتا  نہیں۔ سنائی نہیں دیتا۔ سجھائی نہیں دیتا۔

یہ بلاگ کچھ ٹوٹا ٹوٹا سا ہے۔ بکھرا ہوا سا۔۔۔ بالکل مرے گھنگھریالے بالوں کی طرح جب میں نہانے کے بعد انہیں سہلائے بغیر سو جاؤں۔ میری ذات کے ظاہر اورغائب  گرداب کی طرح۔ کوئی غلطی ہی ہو تو معاف کیجئے گا۔ سنی ان سنی کر دیجئے گا۔

ابھی چار پانچ دن ہوئے شام کے قریب چار بجے وائلن کی آواز سنی دیتی ہے۔ شاید پڑوس میں کوئی نیا شخص آیا ہے۔ ریکارڈ تو نہیں لگتا۔ ہر دفعہ کوئی نئی  ہی تان ہوتی ہے، کوئی نیا درد ۔ خاموشی میں ایسے یہ دھن  چیرتی ہے دل کو کہ مت پوچھیے۔ میں نہیں جانتی کون ہے۔ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی۔ یہاں رواج نہیں ہے۔ اگر پائیڈ پائپر نکلا تو؟ چار بجے بجانا شروع کرتا ہے اور پانچ بجے سے پہلے ٹھک سے بند کر دیتا ہے دل کے سب کواڑ ۔ چلتی دھن رک جاتی ہے یک دم۔ اس کے ہونٹ سل جاتے ہیں شاید۔ یا شاید سنڈریلا کی طرح اس کے پاس بھی وقت کی قید ہے۔ ایک منٹ بھی اوپر ہوا تو طلسم ٹوٹ جائے گا۔

ہے تو کچھ طلسم ہوشربا  ہی۔۔۔ نارمل دھن تو لگتی نہیں۔ مجھے اپنے سب کام کاج چھوڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے اس کا وائلن سننے کے لئے۔ کہیں پائیڈ پائپر تو نہیں یہ؟ میری تو حتی الوسع کوشش یہی ہوتی ہے کہ کانوں میں روئی ٹھونس لوں۔ مبادا یہ جادو کہیں مجھے بہا کر سمندر میں غرق نہ کر دے۔ علاج سے احتیاط بھلی۔

اس وقت قریب آٹھ بجے ہیں رات کے- دبئی کے مقامی وقت کے مطابق۔ خزاں کا موسم آ چکا ہے۔یوں تو کوئی خاص پتے ہیں نہیں لیکن جو ہیں ان کی  پت  جھڑ شروع ہے۔ آج کی شام بھی شام غریباں ہے یہاں۔ عجیب بوجھل، سرخی مائل سیاہ سی۔۔۔ عرب ملک ہے۔ ان بدعتوں پر یقین نہیں رہتے۔ نذر  نیاز دکھائی نہیں دیتی۔ دور دور تک ٹھنڈے پانی اور لال شربت ملے دودھ کی سبیلیں بھی نہیں۔ نہ کربلا  گامے شاہ کے ذوالجناح کے قدموں کی چاپ دکھائی دیتی ہے نہ ہی چنیوٹ کے خالص لکڑی پر باریک کام والے تعزیے ۔۔۔ کچھ ہلکی ہلکی آواز آنا شروع ہوئی ہے۔ میرا واہمہ ہو شاید۔ آج کی دو بھی تو مس ہو گئی۔

پتہ نہیں آج کیا ماجرا ہے۔ چار گھنٹے ہونے کو آئے اور اس گمنام وائلن کی آواز ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ دھن تیز ہوتی جا رہی تھی ہے۔ درد اور بلند ہو رہا ہے/ استاد بسم اللہ خان صاحب کی انجمن حیدری بنارس میں بجنے والی شہنائی جو اپنے سوز میں یکتا تھی یا پائیڈ پائپر کا معصوم بچوں کو سمندر میں ڈبو دینے کا جادوئی پلان؟ خدا ہی جانے، کون بشر ہے۔

وائلن کی آواز اور تان ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ میرے دل کی دھڑکن بھی۔ کہیں اپنے وطن والا عاشورہ کا ماحول نہیں دیکھا۔ بظاھر سب نارمل ہے۔ لیکن یہ شام عجیب ہے۔ دل بوجھل ہے۔ شام کی سرخی سیاہی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شام غریباں جو ہے۔ کہیں استاد بسم اللہ خان صاحب کوئی سوانگ بدل کر دبئی میں تو نہیں آ بسے؟ گنگا کے پانیوں سے عرب کے صحراؤں میں۔۔۔ آج شہنائی کا دوسرا  جنم ہے۔ مہینہ وہی ہے۔ ہر سال آتا ہے۔ ہر سال آئے گا۔ ظلم بھی رہے گا اور ظالم بھی۔ مظلوم بھی رہے گا اور سر اٹھا کر اپنا سینہ چھلنی کرانے والے بھی۔ یزید بھی ر ہے اور حسین بھی۔

 بس سوانگ بدلے گا۔ وقت جو بدل گیا ہے۔ شہنائی ہو یا وائلن ۔ کیا فرق پڑتا ہے ؟

بس نام کی شام ہے۔ تاریکی  تو رات کو مات دے رہی ہے۔ شام غریباں جو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).