خوشی اور غم منانا آسان نہیں رہا


دیکھتے ہی دیکھتے المیے کے اندر ایک اور المیہ ہو گیا کہ عشرۂ محرم اتحاد بین المسلمین کے درجے سے اتر کر نفاق بین المسلمین لگنے لگا۔

صرف تیس پینتیس برس پہلے تک عشرۂ محرم مشترکہ شیعہ سنّی میراث تھی۔ فرقے نہیں ذمہ داریاں بٹی ہوئی تھیں۔ شیعہ عزاداری میں مصروف ہوں گے تو سنّی راستے میں پانی کی سبیل اور لنگر لگائیں گے۔ سنّی تعزیہ بنائیں گے اور شیعہ تعزیہ اٹھائیں گے۔ شیعہ یا سنّی ذاکر مجلس پڑھے گا تو مختلف الفقہہ مجمع مشترکہ اشکبار ہو گا۔ کسی مجلس میں گورنر جائے گا تو کسی میں وزیرِ اعلیٰ تو کسی میں میئر۔ عقیدے کے سبب نہیں عقیدت کے سبب۔

حفاظتی انتظامات کچھ یوں تھے کہ بڑے شہروں کے مرکزی جلوسوں میں آگے آگے نوعمر سکاؤٹ ہاتھوں کی زنجیر بنا کے چلتے تھے اور جلوس کے پیچھے دس، بارہ پولیس والے ہوتے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں نہیں چھڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ گولی کیا آنسو گیس کا گولہ فائر کرنے کی بھی نوبت نہیں آتی تھی ۔چھوٹے شہروں میں حفاظت کا کام محلوں کے تنومند شیعہ سنّی رضاکار سنبھالتے تھے۔

پھر یوں ہوا کہ پہلے خوشیوں کی خبر لی گئی۔ بسنت فرار ہو گئی، شب برات کے پٹاخے معدوم ہونے لگے، نمازِ عید کھلے میدانوں سے جامع مساجد میں منتقل ہوئی اور پھر غم منانا بھی جان لیوا سا ہو گیا۔ مکروہ حرام میں اور حرام کفر میں ڈھلا اور کفر کی سزا نفرت سے ترقی کر کے موت ہو گئی۔

سنا ہے تقسیم سے پہلے دسہرے، دیوالی، عید الفطر اور ایامِ محرم میں ہندو مسلم امن قائم رکھنے کے لیے دونوں مذاہب کے نمائندے سرکاری عہدیداروں کو تحریری و زبانی ضمانت دیتے تھے۔ آج بھی روایت وہی ہے مگر کردار بدل گئے۔ اب ہندو مسلم کا جھگڑا کم ازکم پاکستان کی حد تک تو مٹ گیا۔ اب محرم الحرام شروع ہونے سے پہلے شیعہ سنّی علما سرکاری عہدیداروں کو اپنے اپنے فرقے کے جذبات قابو میں رکھنے کا یقین دلاتے ہیں۔ پھر بھی انٹیلی جینس ایجنسیوں کا کام دوگنا ہو جاتا ہے۔

کئی برس پہلے محرم کے جلوسوں کے بلارکاوٹ گزرنے کے لیے بغلی گلیاں اور سڑکیں بند ہوتی تھیں اور جیسے جیسے جلوس آگے نکلتا جاتا ویسے ویسے پچھلی گلیاں کھلتی چلی جاتیں۔

یومِ عاشور کی تعطیل شہری خود احتراماً کرتے تھے۔ پھر نو اور دس محرم کی چھٹی ہونے لگی اور اب یہ ہے کہ آٹھ تا دس محرم پورا پاکستان عملاً بند اور مواصلاتی طور پر باقی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔

امام حسین کی جنگ کھلی فسطائیت سے تھی۔ آج فسطائیت نے بھی سر پہ عمامہ رکھ لیا ہے۔ کل کا شمر صاف پہچانا گیا۔ آج کا شمر کیموفلاج سیکھ گیا ہے۔ پتہ تب چلتا ہے جب وہ بندوق کی سرخ نال یا آگ کے گولے میں بدلتا ہے۔ کربلا میں ہر لاش صاف پہچانی گئی۔ آج ڈی این اے کے بغیر پہچان مشکل ہو گئی ہے۔ جیسے جیسے رواداری برتنے کے وعدے بڑھتے گئے ویسے ویسے عدم تحفظ بھی ترقی پاتا گیا۔

نتیجہ یہ ہے کہ محرم کے پہلے دس روز تمام امام باڑے انتظامی رکاوٹوں کے محاصرے میں ہوتے ہیں۔ اچانک حملوں کے خوف نے سانجھی مجالس کا دور لپیٹ کر رکھ دیا۔

بڑے شہروں میں مرکزی جلوس چھتوں پر موجود ماہر سرکاری نشانچیوں کی عقابی نگاہوں سے گزرتے ہوئے کنٹینروں کی فولادی دیوار کے بیچوں بیچ چلتا ہے۔ جلوس کے ہر شریک کی جامہ تلاشی ہوتی ہے۔ مقامی انتظامیہ پنجوں کے بل ہوتی ہے اور سانس تب آتا ہے جب جلوس کا آخری شریک بھی منتشر ہو جائے۔

تو کیا یہ سب اس لیے ہے کہ شیعہ اور سنّی روز بروز ایک دوسرے سے متنفر ہو رہے ہیں؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر انڈونیشیا سے مراکش تک عشرۂ محرم کنٹیروں کی دیواروں کے بیچوں بیچ ہونا چاہیے۔

کیسی بوالعجبی ہے کہ جب پاکستان دہشت گردی کی گرفت میں نہیں تھا تو یہاں سال میں ایک آدھ بار کہیں نہ کہیں سے شیعہ سنّی فساد کی خبر آ جاتی تھی۔ جب سے دہشت گردوں نے یہ فرض خود کش اور ٹارگٹ کلنگ کی شکل میں اپنے ذمے لیا ہے تب سے کسی بڑے شہر یا قصبے سے فرقہ وارانہ فسادِ خلق کی اطلاع نہیں آتی۔

کوئی بتا سکتا ہے پاکستان میں آخری بار عام سنّیوں اور شیعوں نے کب ایک دوسرے کے سر بلاامتیاز پھاڑے اور املاک کو اندھا دھند آگ لگائی؟ اس کا مطلب ہے کہ مسئلہ کچھ اور ہے۔

جس برس عید گاہوں اور امام بارگاہوں میں داخلے سے پہلے جامہ تلاشی بند ہو گئی، جس سال عید میلاد النبی اور یومِ عاشور کے جلوس کی حفاظت کی ذمہ داری مقامی شہری رضاکاروں اور ایک ڈیڑھ درجن ڈنڈا بردار پولیس والوں کے پاس دوبارہ سے آ گئی، اس دن ہم دہشت گردی اور فسطائی نظریے کی کمر ٹوٹنے کا جشن منانے کے واقعی حق دار ہوں گے۔
اگر یہ شرط مشکل لگے تو لگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).