ٹام آلٹر بہت یاد آؤ گے تم


یہ کم بخت کینسر ایسا مرض ہے، جو جان لے کر پیچھا چھوڑتا ہے۔ اب اس نے تھیٹر کی دنیا کے لیجنڈ اور مایہ ناز اداکار ٹام آلٹر کو ابدی نیند سلا دیا ۔ ٹام آلٹر کے مرنے کی اطلاع ملی تو تھوڑی دیر کے لیے یقین ہی نہیں ہوا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے؛ سوشل میڈیا پر اول اول جب یہ خبر دیکھی تو لگا کہ یہ افواہ ہوگی، جو بس ایسے ہی اڑا دی گئی ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے کل ہی تو ان سے ملاقات ہوئی تھی اور اتنی جلدی وہ کیسے جا سکتے ہیں۔ تصدیق کے لیے انٹرنیٹ کھولا تو دیکھا کہ نو منٹ قبل ٹائمس آف انڈیا نے یہ خبر دی ہے کہ سچ مچ میں اب ٹام آلٹر نہیں رہے۔

خبر پڑھتے ہی بس دل سے یہی نکلا خدایا ٹام کے روح کو شانتی دے۔ ٹام سے میری کوئی ایسی شناسائی نہیں تھی لیکن  ایک دو پروگراموں میں ان کے ڈرامے دیکھنے اور اس کے بعد ان سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ملنے کا موقع ملا تھا؛ تب سے ٹام سے ایک انسیت سی ہو گئی تھی؛ وہ میرے پسندیدہ اداکاروں میں سے ایک تھے اور دہلی میں جب کہیں ان کا پروگرام ہوتا، میں اس میں شرکت کی کوشش ضرور کرتا۔ ان کے پروگرام کو جتنی مرتبہ بھی دیکھتا طبیعت کو سیری حاصل نہیں ہوتی اور طبیعت کو منانے کے لیے اکثر یوٹیوب کا سہارا لیتا۔

ٹام آلٹر سے یہ محبت شاید اس کی اردو دوستی کی وجہ سے بھی تھی۔ میں آج بھی اس منظر کو نہیں بھول پاتا، جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کھچا کھچ بھرے انصاری آڈیٹوریم میں دو اداکار مولانا ابوالکلام آزاد اور ہمایوں کبیر کا کردار ادا کررہے تھے؛ سکوت اور مدھم روشنی میں ڈراما جاری تھا۔ مولانا آزاد کی بہروپ میں شیروانی زیب تن کیے ہوئے، لاٹھی ٹیکتے نحیف مگر با رعب انداز میں ٹام آلٹر اسٹیج پر نمودار ہوئے تھے۔ سارا آڈیٹوریم تالیوں کی گونج جاگ اٹھا تھا۔ ایک ہیولا ہمایوں کبیر کے کردار میں محرر کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ مولانا آزاد کی زبان کھلی ہے اور پورا ماحول مہر بلب ہوگیا۔

مولانا آزاد اپنے مخصوص انداز میں ”انڈیا ونز فریڈم“ کا املا لکھوا رہے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے اردوئے مبین میں کسی الہامی کتاب کا نزول ہورہا ہے۔ جامعہ کے وہ شرارتی لونڈے جو کسی کو اسٹیج میں ٹکنے نہیں دیتے تھے، ہمہ تن گوش ہوکے قائد ملت کے ایک ایک لفظ کو اپنے سینوں میں جذب کر رہے تھے. مولانا آزاد کے بہروپ میں ٹام آلٹر کی زبان سے کبھی بجلی کڑکتی دکھائی دیتی، کبھی ماحول پر غم کے بادل چھا جاتے، کہیں دلوں کو ان کی مسکراہٹ گدگداتی تھی، تو کبھی ساری فضا قہقہوں سے لالہ زار ہوجاتی۔ کہیں اپنوں کی نارسائیوں کا قصہ شروع ہوتا، تو کبھی غیروں کی دھوکے بازی اور دغا بازی کی المیہ داستان سن کے آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ علم و ادب کی شکل میں انوار رحمت برستی تو کبھی فصاحت و بلاغت کا غلغلہ بلند ہوجاتا؛ تاریخ کے جھروکے کھلتے، تو کہیں چوٹ، درد، کسک کی صرصر عصیاں جیسا معلوم ہوتا تھا۔ اس سمے ایسا لگ رہا تھا، جیسے سچ چ ٹام آلٹر کی صورت میں مولانا ابولکلام آزاد فلک سے زمین پر اتر آئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سوئی ہوئی قوم کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ مولانا آزاد کی کو گزرے برسوں بیت گئے، اب ٹام آلٹر بھی آنجہانی ہوئے۔

ٹام آلٹر کے نباہے مغل سلطنت کے آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر کے کردار کو کون فراموش کر سکتا ہے۔ جب انگریز ایک بوڑھے بادشاہ کو سزا دینے کی خاطر رنگون جیسی بے کیف جگہ میں قید کرکے رکھ چھوڑتے ہیں۔ ان کے دونوں بیٹوں کا سر کاٹ کر ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ پورے ہندُستان کو اس کے سامنے یوں لوٹا جاتا ہے تباہ کیا جاتا ہے جیسے کسی بچے کے سامنے اس کی ماں کی آب رو تار تار کی جاتی ہو؛ وہ دشمنوں کو تکا بوٹی کردینا چاہتا ہیں مگر وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں صدیوں بعد جب ہندُستان کی بساط بدل چکی ہے، یعنی ہندوستان تین ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے، اتنے سالوں میں نجانے کتنی جانوں کا اتلاف ہو چکا ہے، ایسے میں ماضی کی داستان سننے کے لیے ایک لڑکا پھٹی پرانی جینز پہنے بہادر شاہ ظفر کے پاس پہنچتا ہے۔

ٹام آلٹر بہادر شاہ ظفر کا کردار ادا کرتے ہوئے اسے اس ہندوستان کی کہانی سناتے ہیں، جس میں شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے تھے، لیکن عیاروں کو یہ رویہ اچھا نہیں لگتا اور وہ اس کو توڑ پھوڑ کر پورے جنگل کا نظام درہم برہم کر دیتے ہیں۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ بہادر شاہ ظفر بدلے حالات، نوجوان کے تلفظ اور تذکیر و تانیث سے ماورا ہندی زبان سن کر ششدر رہ جاتے ہیں، لیکن نوجوان کی دل چسپی دیکھ کر کہانی کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ صدیاں الٹی جاتی ہیں۔ تہذیبوں، روایتوں اور حقیقتوں کا تصادم ہوتا ہے، اکیسویں صدی میں لوگ وہ زبان سن رہے ہیں جو قلعہ معلی میں بولی جاتی تھی، لیکن یہ قلعہ معلی زیادہ دیر نہیں سجتا، چراغ گل کردیے جاتے ہیں؛ بہادر شاہ ظفر کہانی سناتے سناتے ابدی نیند سو جاتے ہیں، لڑکا بہت جگاتا ہے مگر وہ نہیں جاگتے اور پردہ گر جاتا ہے۔

ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہم کو اپنے پرکھوں کی یاد دلانے والا یہ اداکار جو ہمیں ہماری تاریخ سے رُوشناس کرارہا تھا، کہانی کہتے کہتے یوں سو جائے گا؛ پردہ گر جائے گا۔ حق ہے کہ وہ پردے کے اس پار سے کبھی نہیں آئے گا۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ جانے والے تو چلے جاتے ہیں، صرف ان کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں؛ سو اب صرف تمھاری یادیں ہی باقی ہیں۔ ٹام آلٹر تم ہماری تہذیب اور تاریخ کی باقیات کی شکل میں دیر تلک یاد رکھے جاوگے؛ تمھاری فصیح لسان، تمھارا شستہ لہجہ اور تمھارا دل کش انداز۔ تمھارے چاہنے والے جو تمھاری کلا کے رسیا ہیں، انھیں لگتا ہے کہ نیلی آنکھوں والا ٹام آلٹر مرا نہیں، ہنوز اداکاری کر رہا ہے۔ کاش ایسا ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے۔ نہیں! اب تم نہیں آوگے؛ تمھاری متحرک نیلی آنکھیں اب ساکت ہوگئی ہیں؛ یہی سچ ہے۔ خداوندخدا تمھاری روح کو شانتی دے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah