سارا سچ ان کا ، جھوٹ قوم کا مقدر ہے


آج کے اخبار کی دو خبریں حیران کن ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایک توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان خبروں کا جواب سامنے آنا چاہئے کہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بعض دہشت گردوں کی سرپرستی کررہی ہیں۔ انہوں نے یہ درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک پیٹیشن کی بنیاد پر جمع کروائی ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ یہ صورت حال ملک کی سلامتی کے حوالے سے بے حد سنگین ہے کیونکہ دیگر شواہد بھی ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ اس حوالے سے انہوں نے حلقہ این اے 120 میں ملی مسلم لیگ کے امید وار کی طرف سے انتخابی بینرز میں کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید کی تصویروں کی اشاعت کے علاوہ دو برس قبل افغان طالبان کے سابق سربراہ کی ایک امریکی ڈرون میں ہلاکت کے وقت ان کے پاس سے پاکستانی شناختی کارڈ برآمد ہونے کے معاملہ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ دوسری خبر جماعت الدعوۃ کے نظر بند لیڈر حافظ سعید کے وکلا کی طرف سے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو 10 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا نوٹس دینے سے متعلق ہے۔

حافظ سعید کے وکیل اے کے ڈوگر نے خواجہ آصف کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا ہے کہ ان کے مؤکل پر ایسے الزامات عائد کئے گئے ہیں جودرست نہیں ہیں اوراس طرح آئین کی شق 14 کے تحت فراہم کردہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ واضح رہے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے نیویارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید جیسے عناصر بیس تیس پہلے امریکہ کی ڈارلنگ تھے۔ یہ لوگ وہائٹ ہاؤس میں دعوتیں اڑاتے تھے اور ان کے ساتھ مل کر شراب پی جاتی تھی۔ لیکن اب پاکستان پر ان کی سرپرستی کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ ‘ حافظ سعید کی طرف سے خواجہ آصف کو دیئے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ان کا مؤکل کبھی وہائٹ ہاؤس کے قریب بھی نہیں گیا اور ان پر وہاں جاکر شراب پینے کا الزام جھوٹا اور ناقابل قبول ہے۔ یہ ایک دلچسپ مقدمہ ہے کہ ایک ایسا شخص وزیر خارجہ کے ایک بیان پر توہین محسوس کررہا ہے جو اپنے افعال، بیانات اور کارناموں کی وجہ سے پوری قوم کی توہین کا سبب بنا ہؤا ہے اور جس کو دنیا میں عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔

حافظ سعید کی گرفتاری یا موت پر امریکہ نے دس ملین ڈالر کا انعام مقرر کیا ہے۔ لیکن وہ کچھ عرصہ پہلے تک آزادانہ گھومتے تھے حتیٰ کہ حکومت کو عالمی دباؤ کے سبب انہیں گھر میں نظر بند کرنا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے ملک میں ایک عالمی دہشت گرد نہ صرف محفوظ رہا ہے بلکہ وہ ہر طرح کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک کے وزیر خارجہ کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ ایسے بوجھ کو پاکستان کی مشکلات میں شمار کرسکے ۔ خواجہ آصف کے بیان کے بعد قومی اسمبلی میں مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے۔ ملک کے عقابی نظر رکھنے والے مبصر دور کی کوڑی لارہے ہیں اور اس بات کا انتظار ہے کہ وزیر خارجہ وطن واپس آئیں تو ان سے اس ’گستاخی‘ جواب طلب کیا جائے۔ یعنی اس ملک کی عدالتیں ، حکومت اور طاقتور ادارے جس شخص کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی مجال نہیں رکھتے ، اس ملک کی کمزور سویلین حکومت کے نئے اور ناتجربہ کار وزیر خارجہ کو کیسے یہ جرات ہوئی کہ وہ ایسی ’مقدس‘ ہستی پر حرف زنی کرے۔

اس معاملہ پر آنے والے دنوں اور ہفتوں میں سامنے آنے والے رد عمل سے یہ طے ہو سکے گا کہ اس ملک میں نئے ڈان لیکس نما اسکینڈل کا آغاز ہوگا یا ملک کے حکمران اب قومی مفاد اور سلامتی کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ خواجہ آصف کا بیان دراصل اسی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے ہی پتہ چل سکے گا کہ ملک کے اصل طاقتور حلقے کیا چاہتے ہیں۔

سینیٹ فرحت اللہ بابر کا توجہ دلاؤ نوٹس بھی اسی تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتا ہے۔ وہ اشاروں کنایوں میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ملک کی سیاست پر ایجنسیوں کا کنٹرول ختم ہونا چاہئے۔ کوئی ان کی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ جس پیٹیشن کو بنیاد بنا کر یہ بات کہہ رہے ہیں ، اس میں سرکار نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ متعلقہ اہلکار جن معلومات کو فراہم کرنے کا مطالبہ کررہا ہے، انہیں عام کرنے سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ اس لئے اس درخواست کو فضول قرار دے کر مسترد کر دیا جائے۔ اسی طرح سینیٹر بابر نے این اے 120 میں ملی مسلم لیگ کے بینرز اور ملا منصور اختر کے پاکستانی شناختی کارڈ کے معاملہ کا حوالہ دیا ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی اور اس کی ہلاکت کا واقعہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی پیش آیا تھا لیکن ان کی پارٹی سمیت کوئی حکومت اس کی اصل تفصیلات عوام کو بتانے میں ناکام رہی ہے۔

فرحت اللہ بابر جس عارضے کا علاج کرنے کی بات کررہے ہیں، ملک کے سیاستدان اسی کو پروان چڑھانے میں اپنی اپنی ضرورت کے مطابق کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ آصف علی زرداری اس وقت نواز شریف کے ساتھ جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ بھی اسی رویہ کا حصہ ہے ۔ اس لئے اپوزیشن کے طور پر بعض لیڈر خواہ کیسی ہی باتیں کریں، حقیقت میں جب تک اس ملک کے سیاست دان گروہی اور ذاتی مفادات سے بلند ہو کر صورت حال کو تبدیل نہیں کرنا چاہیں گے، اس قوم کو اس جھوٹ پر ہی گزارا کرنا ہوگا جو سچ کے طور پر ان کے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali