ہمیں روہنگیا بخار ہے!


کل ہی ایک بزرگ خاتون روتی پیٹتی میرے پاس آئیں کہ ان کے محلے میں ایک سیانا لڑکا رہتا ہے اور اس نے انھیں بتایا ہے کہ انھیں روہنگیا بخار ہے اور اس بخار میں انسان کو دور کی چیزیں صاف اور پاس کی چیزیں دھندلی نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی نئی نئی بیماری آئی ہے اور جلد ہی اس کا علاج دریافت ہو جائے گا، پھر انھیں دور اور نزدیک کی چیزیں یکساں دھندلی نظر آئیں گی۔

خاتون کے جانے کے بعد خبریں دیکھیں تو معلوم ہوا کہ پاک ترک سکولوں کے ڈائریکٹر کو ان کی رہائش گاہ سے اغوا کر لیا گیا۔ یاد رہے کہ پاک ترک سکول، پاکستان میں ایک مدت سے چل رہے ہیں اور پچھلے سال ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ان کے سٹاف کو ترکی بھیج دینے کا حکم دیا گیا۔

ترکی، پاکستان کو حکم دے گا؟ خاصی دیر سوچا، پھر ذہن میں آیا کہ برادرانہ درخواست کی گئی ہو گی۔ خیر ان اساتذہ نے اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے تحت پاکستان میں پناہ کی درخواست دی تھی جو منظور ہوگئی۔ اس درخواست کی مدت نومبر تک ہے۔ مگر مدت پوری ہونے سے پہلے کچھ اساتذہ کو اٹھا لیا گیا۔ ظاہر ہے پوچھ تاچھ کے لیے۔

پاکستان میں پناہ گزین، یہ خوبصورت، پڑھے لکھے درمیانے طبقے کے اساتذہ، ہمارے بچوں کو پڑھانے آئے تھے اور کسی کو تعلیم دینا بجائے خود ایک بڑا احسان ہوتا ہے۔
گولن اور اردوغان کے درمیان جو بھی معاملہ ہے وہ ان کا داخلی مسئلہ ہے۔ پاکستان اور ترکی کے تعلقات صرف سفارتی یا ملکی سطح پر نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام ایک ایسے گہرے اور پیارے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔ پرانی تصویریں اٹھا کر دیکھ لیں کتنے ہی بزرگ، ترکی سے اظہارِ یک جہتی کو ترکی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔

تحریکِ خلافت اور بی اماں کا نام نہ بھی لیں تو ’فسانہ آزاد‘ ہی اٹھا کر پڑھ لیں، میاں آزاد غازی بن کر لوٹنے کے لیے ترکی کی جنگ میں حصہ لینے پہنچتے ہیں۔ ترک عوام اور پاکستانی عوام کی محبت کسی، سیاستدان، کسی جرنیل، کسی مولوی، کسی مفکر کی سوچ کے تابع نہیں ہے۔

اس محبت کو نہ کسی ایک حکومت نے پروان چڑھایا اور نہ ہی کوئی عہد اسے اپنا غلام بنا سکتا ہے۔ اس رشتے کی کئی شاخیں ہیں اور جڑیں اتنی گہری کہ کوئی کھوج بھی نہیں سکتا۔

آج کل ہم سب، برما کے مسلمانوں پہ ہونے والے ظلم پہ بے بسی سے تلملا رہے ہیں۔ وہ بے چارے اقلیت ہونے کی وجہ سے ایک اندھی اکثریت کے ہاتھوں موت کے خوف سے اپنا ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش اور انڈیا میں پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ مگر یہ دونوں ملک انہیں ان کے ملک واپس بھیجنا چاہتے ہیں جہاں یقینی موت اور اذیت کی زندگی ان کی منتظر ہے۔ یہ بے چارے سمندروں میں بھٹک رہے ہیں اور بھوک پیاس کے ہاتھوں لاچار ہو کر مر رہے ہیں۔

خالدہ ضیا کا کہنا ہے کہ ان کا ملک پہلے ہی بہت غریب ہے اور اس کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے، اس لیے ان کی فوج، مہاجرین کو واپس جانے کا کہہ رہی ہے۔

بنگلہ دیش والوں پہ ہمیں بہت غصہ ہے اور ہمارے دل روہنگیا مسلمانوں کی بے بسی پہ کڑھتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر کہیں برما ہم سے قریب ہوتا تو ان بے چاروں کو یوں بھٹکنا نہ پڑتا۔ پاکستان تو یوں بھی لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے اور ان مہاجرین میں سے کتنے ہی پاکستان کی پالیسیوں سے اختلاف بھی کرتے تھے۔ کئی افغان مہاجرین بعد ازاں بہت مشکوک سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے لیکن کسی نے ان کو واپس ’دارالحرب‘ کی طرف ویسے نہ دھکیلا جیسے بر صغیر کے مسلمان تحریکِ ہجرت کے دوران دھکیلے گئے تھے۔

خیر تو آج کل ایسا ہے کہ ہمارے دل بھرے ہوئے ہیں کتنی ہی جماعتیں پھر سے روہنگیا مسلمانوں کے لیے چندہ جمع کر رہی ہیں۔ برمی مسلمانوں سے یہ تعلق اور محبت، صرف اسلامی اور انسانی بنیادوں پہ ہے۔ترک اساتذہ بھی پناہ گزین ہیں، مہاجرین ہیں اور تعداد میں بہت ہی کم ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ان پہ پاکستان کی سرزمیں تنگ کی جارہی ہے اور انھیں ایک طرح سے واپس ہی دھکیلا جا رہا ہے جہاں جیلیں اور اذیتیں ان کی منتظر ہیں۔ ترکی اپنے ملک میں جو بھی کرتا ہے وہ اس کا ذاتی معاملہ ہے لیکن اپنے ملک میں موجود پناہ گزینوں کے تحفظ کیا ہمارا فرض نہیں؟

سوچتے سوچتے دماغ ماؤف سا ہو گیا اور انکھوں کے آگے لال سبز دھبے سے نا چنے لگے۔ مجھے لگا کہ روہنگیا بخار ہو گیا۔ ترک اساتذہ نظر آنا بالکل بند ہو گئے۔ نئی نئی بیماری آئی ہے، جب ذرا پرانی ہوجائے گی اور کوئی علاج آجائے گا تو ترک اساتذہ کے ساتھ روہنگیا مسلمان نظر آنا بھی بند ہو جائیں گے۔ مگر فی الحال ہمیں روہنگیا بخار ہے، دور کی چیزیں واضح اور قریب کی چیزیں دھندلی نظر آ رہی ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).