جب وسی بابے کو ڈکیتی کی آفر ہوئی


پری کے پاس لیٹا ہوا اپنا غم سوچ رہا تھا۔ پری کی بک بک جاری تھی۔ ”یار کیا وقت تھا اک میں ہوتا تھا اک میرا کھوتا ہوتا تھا۔ جب میں باغ سے امب امرود یا کینو لے کر منڈی جاتا تو کھوتا جہاز کی طرح جاتا تھا منڈی کی جانب۔ میں ماہئے گاتا رہتا کھوتا اڑتا ہوا جاتا بڑا سیانا تھا“۔ پری چپ کر جا یہ تیری بوتھی پر جو نشان ہے یہ کھوتا گاڑی سے گر کر ہی لگا تھا۔ جب تم تمھارا کھوتا اور تمھارا فروٹ سب خالی نہر میں جا گرے تھے۔ یار نہر بھری ہوئی ہوتی تو مجھے کوئی چوٹ لگنی تھی بھلا۔

پری یار مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ پری بولا لے پنجاب پولیس کے پاس پیسے نہیں ہونے تو کس کے پاس ہونے۔ سارے لے لے آج ہی بارہ سو لیے تھے اک سواری سے۔ تیرا بھائی افسر ہے، لوگوں نے کون سا سفر کرنا چھوڑ دینا۔ تم رکھ لو ہمیں کوئی اور مسافر مل جاوے گا۔ پری اک تو تم افسر نہیں ہو سپاہی ہو دوسرا مجھے بارہ سو روپئے نہیں پانچ لاکھ کی ضرورت ہے۔ اوئے پنج لاکھ کی کرنے؟ ہم دونوں چپ کر گئے۔ پری میری شکل دیکھتا رہا پھر اٹھ کر چلا گیا کہ میں کچھ کرتا ہوں۔

پری بچپن کا دوست ہے پولیس میں سپاہی ہے۔ یاروں کا یار اصلی نسلی جانگلی۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہ اب کیا کرے گا کدھر گیا ہے۔ پریشانی تھی اس وجہ سے پری کی گپیں سننے ڈیرے پر ہی رات سونے کا پروگرام بنایا تھا۔ اب وہ معاملے کو بہت سیریس لے کر سنجیدہ ہو کر کہیں چلا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ تین دانے عملی (چرسی) تھے جو اپنے ہی گھروں سے انڈے مرغیاں چراتے رہتے تھے۔ پری نے انہیں کہا کہ میری بات غور سے سنو، میرے بھائی کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ میری ڈیوٹی سٹیٹ بینک پر لگی ہوئی ہے۔ پندرہ بیس دن بعد وہاں کراچی سے پیسے آتے ہیں ٹرین پر۔ ہائے نئے نوٹوں کی خوشبو کا سواد ہی الگ ہوتا پر چھوڑو۔ ان پیسوں کو کھوتا ریڑھی پر بینک لے کر جاتے ہیں۔ پنجاب پولیس کا ایک افسر (سپاہی) ہر کھوتا ریڑھی پر بیٹھا ہوتا ہے۔ کھوتا ریڑھی الٹانے کا پنجاب پولیس کا افسر تمھارا صاحب پری ماسٹر ہے۔ بس اک چٹکی مرچ لیموں مارکہ ہی کی ضرورت ہوگی۔ ریڑھی الٹ جاوے تو عملیو تم نے ایک بوری نوٹوں کی اٹھا کر بھاگ جانا ہے۔ منٹ مارنا ہے پنڈ پہنچ کر بریک مارنی ہے۔ میں معطل ہو جاؤں گا۔ شاید برطرف ہی کر دیں۔ پہلے جیسے بحال ہوتا رہا ہوں پھر ہو جاؤں گا لیکن ہم نے اپنے بھائی کا کام کرنا ہے۔

او پری فٹے منہ تیرا اب ڈکیتی کا پروگرام بنا لیا ہے۔ کونسا بینک ہے جہاں کھوتا ریڑھی پر پیسے ٹرانسفر ہوتے۔ پری نے بتایا کہ اسی شہر کا بینک ہے جہاں اونٹ ریڑھے پر لاد کر کپڑا ساری دنیا بھیجا جاتا۔ پری گپ نہ مار۔ یہ سن کر پری تپ گیا۔ اس کی شاعری سن کر یقین سا ہو گیا کہ یہ سچ ہی بول رہا ہے۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ دو ہزار دو میں بھی ہم اتنے ترقی یافتہ ہیں۔ پری یار تیری بڑی مہربانی ہمیں ڈکیتی کی ضرورت نہیں ہے۔ زرعی بینک سے قرض مل جاوے تومسئلہ حل ہوتا۔ بینک تو سود لیتا ہے، پری بولا، تمھیں یہ پیسے برے لگ رہے جو واپس ہی نہیں کرنے۔ پری کا اصرار میرا انکار سن کر عملی بولا بینک سے قرض مل سکتا ہے لیکن ابھی جانا ہوگا۔ ہیں اس وقت آدھی رات کو، دماغ ٹھیک ہے تم لوگوں کا؟ پری نے کہا وسی چل کڈھ گڈی (نکال گاڑی)۔ سارے راستے پری گاتا رہا اوئے گڈی جاندی اے چھلانگاں مار دی (اوئے گاڑی چلتی ہے چھلانگیں مارتی)۔

بیس پچیس کلومیٹر دور چھوٹا سا شہر ہے جہاں نیشنل بینک پہنچ کر رات دو بجے ہم نے بریک ماری۔ شہر کا نام رہنے ہی دیں۔ پری بھی عملی بھی بہت ہیں، اب تو کمبخت ہم سب کے ریڈر بھی ہیں۔ عملی نے جا کر بینک کے سامنے ”او گادی اوئے“ گا گا کر خوب دروازہ بجایا۔ جلد ہی اندر سے اک موٹی سی بہترین گالی کے ساتھ جواب آیا ”کون ہے“۔ عملی بولا اوئے کھول بینک تھوڑی دیر میں بینک کھل گیا۔ سٹرانگ روم کے سامنے ڈھائی کلو کا ایک پہلوان منجی ڈالے سو سو کر بینک کی حفاظت کر رہا تھا۔ پری نے بھی گادی کو پہچان لیا اوئے گادی توں ایتھے۔ ڈکیتیاں چھوڑ دیں بینک میں لگ گئے ہو کمال کیتا۔

پھر نہایت تفصیل سے عملی اور پری نے بتایا کہ وہ کیوں یہاں پہنچے ہیں۔ بینک سے قرضہ لینا ہے حالانکہ ہم نے فوری حل بتایا ہے لیکن ہمارا بھائی بالکل راضی نہیں ہے۔ گادی نے کہا بھائی جی میری منو ڈکیتی بہتر اے۔ لیل پور جانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے اسی بینک سے کیش جاتا ہے ہم کھو (چھین) لیں گے۔ کہا کہ یار تم لوگوں کی عقل کام نہیں کرتی تو گادی بولا کہ بھائی جی مت تھاڈی وجی ہوئی اے (عقل تمہاری بھاڑ میں گئی ہوئی ہے)۔ خیر اب آپ ضد ہی کر گئے ہیں تو لون بھی مل جاوے گا۔

فرد لے کر اگلے دن ہماری ڈکیت پارٹی بینک پہنچی۔ گادی نے ہمیں کھرل صاحب کے پاس پہنچا دیا جو ایریا مینیجر تھے۔ انہیں تفصیل بتانی شروع کی کہ زمین پاکپتن میں ہے وہاں زرعی بینک کے قرضے بند ہیں۔ اس لیے یہاں سے اپلائی کرنا ہے کوئی طریقہ سمجھ نہیں آ رہا کہ تیسرے ضلع میں کیسے ہو گا۔ کھرل صاحب بولے بھائی جی آپ کو پیسے چاہیے کتنے۔ انہیں بتایا کہ فرد پانچ لاکھ کی ہی ہے تو اس نے پھر پوچھا کہ چاہیے کتنے۔ اسے بتایا کے چاہیے تو دس لاکھ ہیں۔ مل جائیں گے اسی فرد پر بس واپس کرنے ہوں گے۔ شرمندہ نہیں کرانا بھلے قسطیں ٹائم پر دینا یا اکٹھی وعدہ نبھا دینا۔

دفتری کارروائی اسی رفتار سے ہوئی جس سے پری کا کھوتا منڈی جاتا تھا۔ پیسے ملے تو گادی نے بتایا کہ کھرل صاحب نے انشا اللہ جلدی جیل چلے جانا ہے۔ بندے اچھے ہیں انہوں نے ہی مجھے نیشنل بینک میں گارڈ رکھوایا تھا کہ چھوڑ اب ڈکیتیاں نہیں کرنی اب بینک کے پیسوں کی حفاظت کرنی ہیں۔

بہت کچھ نہیں بتایا، کہانی سچی ہے یا جھوٹی آپ سوچتے رہیں۔ کھرل صاحب جیل پہنچ ہی گئے۔ کافی خوار ہو کر جب لون واپس کر کے پشاور پہنچا تو گادی کا فون آیا۔ اس نے بینک چھوڑ دیا تھا اس لیے ملاقات نہ ہو سکی تھی۔ اس نے کہا کھرل صاحب نے شکریہ بھجوایا ہے جیل سے ساتھ میں کہا ہے وسی کیا ڈکیتی والا آئیڈیا بہتر نہیں تھا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi