میرے لہور تجھے ہوا کیا ہے


چوتھے ہفتے کا آغاز ہوا چاہتا ہے، کہ ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر جاری ہے؛ ایسے میں اداسی میرے ہم راہ چل رہی ہے؛ میرے لیے اس کی ہم راہی کی کوئی وجہ سمجھنا مشکل ہے۔ ان دنوں بقول منیر نیازی احوال یوں ہے، کہ جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا۔ نہ کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے نہ پڑھنے کو۔ یہی سوچتا رہا کہ لاہور پہنچوں گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لاہور زندہ دلان کا شہر ہے۔ دو روز ہوئے لاہور میں پڑاؤ ڈالا، جو میری جنم بھومی ہے۔ میرے محسن لاہور کے مجھ پر بہت احسان ہیں، کیا کیا گنواؤں۔ مہینا محرم کا ہے اور یہاں بھی اداسی کا پہرہ۔ ماضی میں لاہور کے کئی تعزیوں کا عینی شاہد رہا ہوں۔ کربلا گامے شاہ کا منظر ہو، یا نوری بلڈنگ کرشن نگر کے امام باڑے کا جلوس؛ تعزیے غم کی امثال سہی، اداسی کی علامت نہیں رہے۔ اس سے پہلے لاہور میں اداسی سے سنگت ایسی کبھی نہ تھی۔ ”لاہور“ شہر کا نام نہیں ہے؛ یہ محبوبہ ہے؛ یہ غم گسار دوست ہے؛ مسیحا ہے۔ جس جس سے پیار ہوجائے، میں اسے ”لاہور“ کہتا ہوں۔ میرے لیے ”تم میری محبت ہو“، کا متبادل ”تم میرے لاہور ہو“ ہے۔

خیال اور الفاظ کی یک سوئی نہ ہو پائے تو قلم اٹھانے کی ریت اچھی نہیں ہے۔ مجھے محرم پر کچھ لکھنا تھا، نہ محبوب کا ذکر مقصود تھا، لاہور سے شکوہ ہوا تو بے ربط خیالوں کو باندھنے بیٹھا ہوں۔ نصیب کا لکھا کہیے یا کچھ؛ فہرست میں ہر مذہب ہر مسلک پر چلنے والے دوست احباب ہیں، لیکن اہل تشیع سے گاڑھی چھنتی ہے۔ میں بے تکلفی سے انھیں کافر کہتا ہوں اور وہ جواب میں کچھ کہنے سے معذور ہوتے ہیں؛ دوستی میں تو یہی ہوتا ہے صاحب۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ لاہور میں جس دوست کے یہاں ٹھیرتا ہوں، وہ پکا ملحد ہے، خدا سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں، وہ ملحد نہ ہوتا تو لاہور کے اس دورے میں مجھے صرف خدا کا آسرا ہوتا۔ دو چھٹیاں تھیں، تو غیر شیعہ دوست تفریح کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور جو شہر میں ہیں، ان کے لیے محرم کے جلوسوں کی وجہ سے راستوں کی رکاوٹ بھی ایک بہانہ بنا۔ شیعہ دوستوں میں سے ایک کافر بھلوال چلا گیا، ایک کافر جھنگ، ایک ڈیرہ اسماعیل خان تو باقی یہیں امام باڑوں میں ماتم کر رہے ہیں؛ سو دس محرم سے پہلے کسی ایک سے بھی ملاقات ممکن نہیں۔ دل بے سبب اداس نہیں ہے، شہر سائیں سائیں کررہا ہے۔

دل بہلانے کو سوشل میڈیا کا رُخ کرو، تو وہاں بھی ایک سے رویے بیزار سا کرنے لگے ہیں۔ سیاسی مناقشے ہوں یا مذہبی تہوار، جب تک ہم ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ نہ ڈالیں، چین نہیں پڑتا۔ ”یہاں سیاسی اور مذہبی گفت گو کرنا منع ہے“ کی تعلیمات نے ”قوم“ کو وہ ڈھنگ ہی نہیں سکھایا کہ مناسب لہجے میں اختلاف رائے کرنے دیا جائے، مناسب بات کا مناسب جواب دیا جاسکے؛ لطیف بات کثیف بن جاتی ہے۔ خوف کا کالا جادو ہے کہ اچھے بھلوں کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ایک مثال تو گھر سے لیجیے، ”ہم سب“ سیکولرازم کا نمایندہ ہے؛ ”محرم ایڈیشن“ کا اہتمام کرتا ہے۔ ”رمضان ایڈیشن، عید ایڈیشن، دیوالی ایڈیشن، کرسمس ایڈیشن“ ہذا القیاس مجھے ”ہم سب“ کی طرف سے کسی اور ”ایڈیشن“ کا اہتمام نہ کرنا سمجھ نہیں آیا۔ میرا خوف ہی ہے کہ میں یہ نکتہ نہیں اٹھا پاتا، کہیں ”متعصب“ نہ گردانا جاوں؛ بغضی، ناصبی نہ کہلاوں۔

جیسا کہ بیان کرچکا، جس سے انسیت ہوجائے وہ مجھے لاہور کا سا دکھائی دینے لگتا ہے۔ وجاہت مسعود سے بھی انسیت کا ناتا ہے۔ وہ میرے لاہور نہ سہی، میرے لیے لاہور کے سے ہیں۔ کبھی کبھار ”ہم سب“ کے لیے بھجوائے گئے مضامین کی تدوین کردیتا ہوں؛ اس محرم میں کسی نے ایک افسانہ بھیجا، جس میں ”بھائی چارے“ کا پیغام دینے کی کوشش کی گئی تھی؛ دو دوستوں کی کہانی تھی، ان میں سے ایک کردار کا نام عمر تھا؛ مدیر نے مذکور افسانہ رد کر دیا کہ محرم میں عمر کا نام لینا فساد کا باعث ہوسکتا ہے؛ میں سمجھ سکتا ہوں، مدیر بھی خوف کے کالے جادو کا شکار ہیں۔ میں ہوں کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ غم کا علاج نہیں نہ سہی، غم دور ہو جاتا ہے؛ اداسی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ میرے لہور تجھے ہوا کیا ہے؟

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran