نا اہل کی بھلا خاک عزت ہوا کرتی ہے؟


اسلام آباد سے دلچسپ خبر آئی ہے۔ آج صبح جب وفاقی وزرا اپنے محبوب قائد نواز شریف کے دیدار کے لئے احتساب عدالت پہنچے تو ان کو داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ اسلام آباد پولیس کے چاق و چوبند نوجوان پوزیشنیں سنبھالے کھڑے تھے کہ اچانک کہیں سے رینجرز نمودار ہوئے اور پولیس افسران اپنا چاک گریباں تھامے چپ چاپ ایک طرف ہو گئے۔ اس کے بعد جب وفاقی وزرا بشمول سینیٹ کے چیئرمین کے قائد ایوان راجہ ظفر الحق سمیت سب کو روک کر بتایا گیا کہ رینجرز کے پاس موجود فہرست میں ان کا نام نہیں ہے اس لئے چھٹی کریں، تو وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری آگے بڑھے۔ ان کا گمان تھا کہ کیونکہ اسلام آباد کے تمام سیکیورٹی اہلکار وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں تو وہ ادھر اپنی چوہدراہٹ چلا سکتے ہیں۔

وزیر مملکت برائے داخلہ نے رینجرز اہلکاروں سے مسلسل اپیلیں کیں کہ ان کو داخل ہونے دیا جائے لیکن رینجرز نے ان کی ایک نہ سنی۔ وزرا نے جھٹ وفاقی وزیر داخلہ کو بلا لیا کہ وہ ان کا داخلہ ممکن بنا دیں گے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال وہاں اس زعم میں سینہ تانے پہنچے کہ ان کو دیکھتے ہی بند دروازے کھل جائیں گے مگر وائے افسوس، ان کو دیکھتے ہی دروازے پر ایک قفل ڈال دیا گیا۔ احسن اقبال دروازے پر کھڑے صدائیں بلند کرتے رہے مگر سب نے ان سنی کر دی۔

وزیر داخلہ کے جانے کے بعد رینجرز کے کمانڈر برگیڈئیر محمد آصف باہر آئے اور وہاں پر موجود وفاقی وزیر دانیال عزیز کو وضاحتیں دینے لگے کہ کن وجوہات کی بنا پر وفاقی وزرا اور رہنماؤں کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس دوران وہاں پر موجود وکلا نے رینجرز کے خلاف شدید نعرے بازی کی جس کے بعد رینجرز کے کمانڈر واپس جوڈیشل کمپلیکس میں چلے گئے۔

بات تو حق ہے۔ ہمیں خود بھی وفاقی وزرا کے ٹولے میں دہشت گردوں اور گینگسٹر کی موجودگی کا ہونے کا شبہ ہونے لگا ہے کیونکہ عدالت عظمی فیصلہ دے چکی ہے کہ ان کا سابقہ نااہل سردار ایک گاڈ فادر ہے۔ بہرحال احسن اقبال صاحب نے شور و غوغا کیا ہے کہ اگر ذمہ داروں کو سزا نہ دی گئی تو وہ کٹھ پتلی وزیر داخلہ کے طور پر کام نہیں کریں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی ذمہ دار بھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے کہ رینجرز کو اس نے بلایا ہے۔ وزیر داخلہ تو خود فریادی ٹھہرے ہیں۔ اسلام آباد کے چیف کمشنر جو رینجرز کو تعینات کرنے کے مجاز افسر ہیں، وہ بھی رینجرز کو بلانے کا حکم دینے سے انکاری ہیں۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر بھی کہتے ہیں کہ ایسا ان کے حکم پر نہیں ہوا۔

بہرحال یہ بات اتنی زیادہ اہم نہیں ہے کہ کس کے حکم پر جوڈیشل کمپلیکش میں ایسا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر رینجرز کیوں موجود ہیں؟ اسلام آباد شہر میں انہیں کس نے تعینات کیا ہے؟ اسلام آباد میں ایسا کیا ہو گیا تھا کہ رینجرز مستقل طور پر بلانے پڑ گئے؟ اب اگر وہ اسلام آباد میں آ گئے ہیں تو پھر ادھر کی سیاسی حکومت شکوہ کیوں کرتی ہے؟ کیا انہوں نے سندھ کے وزرائے اعلی اور حکومت کا حشر نہیں دیکھا تھا اور ان کی آہ و بکا نہیں سنی تھی؟ جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا۔

مہذب دنیا میں جب ہنگاموں یا آفات کی وجہ سے حالات مکمل طور پر سول انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں تو اس وقت عارضی طور پر ایک نہایت مختصر مدت کے لئے نیم فوجی اور فوجی دستوں کو بلایا جاتا ہے اور حالات بہتر ہوتے ہی ان کو واپس بیرکوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ روزمرہ کا امن و امان پولیس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ اگر نیم فوجی دستے تیس تیس سال ایک شہر میں تعینات رہیں تو پولیس ناکارہ ہو جاتی ہے اور نیم فوجی دستے لوکل پولیس کے لیول پر اتر آتے ہیں۔

یہ سول حکومتوں کی شدید نا اہلی ہے یا کوئی دوسرا مقصد ہے جو وہ تیس سال میں بھی پولیس کو بہتر کرنے سے قاصر رہے ہیں اور اب انہوں نے رفتہ رفتہ اسلام آباد جیسے شہر میں بھِی پولیس کو عضوئے معطل بنا کر اس کی جگہ رینجرز کو تعینات کر دیا ہے۔ پولیس کسی کام کی نہیں ہے تو اسے فارغ کیوں نہیں کر دیا جاتا، کیوں اس پر اتنا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے؟

سیاسی حکمران جب نا اہلی دکھائیں گے تو قیمت تو چکانی پڑے گی۔ وزیر داخلہ ہو کر بھی داخلے سے انکار تو ہو گا ہی۔ نا اہل کی بھلا خاک عزت ہوتی ہے؟

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar