صوفی بابے اور تباہ کن پاک بھارت جنگ کی پیش گوئی


کرسی پر بیٹھا تھا وہ جھولے دینے لگی تو اٹھ کر دوڑ لگا دی۔ زلزلوں سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ اس کے آنے کا پتہ بھی آدھا سیکنڈ پہلے ہی لگ جاتا ہے۔ گھر والے کہتے اس کے آگے سے ہٹ جایا کرو زلزلے سے بچ جاؤ گے، اس سے ٹکرا کر ہڈی ہل جانے کا پورا امکان ہے۔ سانس بحال ہوئی تو رؤف کلاسرا صاحب کو میسج کیا کہ آ گیا زلزلہ آپ کے پروفیسر صاحب کی پیش گوئی پوری ہوئی۔

ان دنوں پروفیسر غنی اک ہولناک زلزلے کی پیش گوئیاں کر کر کے دل دہلا رہے تھے۔ یاد کرایا تو کلاسرا صاحب کو بھی یاد آ گیا کہ ہاں یار یہ تاریخ تو پروفیسر نے بتا رکھی تھی۔ کلاسرا صاحب کے وسی بابے سے دلچسپ لو ہیٹ قسم کے تعلقات ہیں۔ ہماری بات ہوتی ہے ہمارا اختلاف ہے کئی بار کلاسرا صاحب کھانا کھلا چکے ہیں۔ اس دوران نہایت سعادت مندی سے ان کی باتیں سنی ہیں کوئی اعتراض کیے بغیر۔ بھلا ہاتھ لات کی رینج میں بیٹھ کر کوئی اختلاف کرتا ہے کیا۔ رؤف کلاسرا مذہب پر بات نہیں کرتے۔ پیش گوئیوں کا اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ ان پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ سراپا رپوٹر ہیں ان باتوں کو بھی خبر کی نظر سے ہی دیکھتے اور بیان کرتے ہیں۔ آج کل پروفیسر صاحب پھر ہولناک پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ ان کی تفصیل بتائے بغیر رؤف کلاسرا نے انہیں بیان کر دیا ہے۔

حسن عشق محبت حکومت اختیار مستقبل پیسہ شہرت کامیابی اور دشمنی یہ سب انسانی جذبے ہیں، خواہشیں ہیں۔ ہم ان سب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اس جانکاری کی مارکیٹ ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہے کہ ہر وقت سائیں قسم کے اصلی نقلی بابوں اور پروفیسروں کا بازار گرم ہی رہتا ہے۔ یہ بابے اتنے زور آور ہیں کہ ہم زرداری صاحب کو صدر منتخب کر کے بھیجتے ہیں۔ ان کا بابا انہیں کبھی پہاڑ کبھی سمندر کی سیر کو روانہ کر دیتا ہے۔ حکومتوں کو تگنی کی ناچ نچانے والا کپتان بابوں کی باتوں میں آ کر کالی دال مل کے بھوت بنا بیٹھا رہتا تھا۔ لوگوں کو چھوڑیں اس کے اپنے چاہنے والے برگر بچے بھلے اسے اس حال میں دیکھ غش کھا جائیں۔

پیش گوئیاں ممکن ہیں۔ یہ ٹھیک بھی ہوتی ہیں۔ انسانوں نے درست اندازے لگانے کے بہت سے طریقے ڈھونڈ رکھے ہیں۔ آپس کی بات ہے، بڑا بڑا پہنچا ہوا بابا ہم نے بھی دیکھ رکھا ہے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو بغیر پوچھے آپ کے دل میں موجود سوال کا جواب دیتے تھے۔ کوئی دست شناس تھا کوئی ستاروں کی چال دیکھ کر آپ کا زوال بتا دیتا تھا۔ اپنے اک بزرگ کزن کے ساتھ اس کے پیر کے پاس جانا ہوا۔ وہ پیر نما بابا پیش گوئی تو ٹھیک ہی کرتا تھا۔ اپنا دل خوش کرنے کے لیے بندے کو رکوع بل کھڑا کر کے گن کے چار جوتے لگاتا تھا۔ بندہ پھر سدھر ہی جاتا تھا اس کی بتائی ترکیب یا جوتوں کے اثر سے۔ اک بابا دیکھا جو ناکارہ مردوں کو اپنے کشتوں سے گھوڑا بنا دیتا تھا۔ اس بابے کی اصل مہارت عورتوں کی نفسیاتی الجھنوں کے علاج میں تھی۔ وہ واقعی علاج کرتا تھا ٹھرک تو اس کی خود ہی پوری ہو جاتی تھی۔ ایک بار علاج کرتا ہی پکڑ لیا تھا ایک پنڈ والوں نے، خیر۔

الٹی سیدھی آپ نے کافی سن لیں۔ عرض یہ ہے کہ کلاسرا صاحب ہوں یا عامر خاکوانی صاحب بہت ساری پیش گوئیاں یہ خود ایسی کر سکتے ہیں۔ جو حرف بہ حرف ٹھیک ہوں گی۔ انہوں نے اک عمر بتائی اپنا ہنر سیکھتے اپنے کام سے متعلق، جب یہ کچھ لکھیں بولیں گے تو درست نشاندہی کریں گے۔ فرنود عالم کو آپ کسی نامعلوم مولوی کے خطاب کے دو جملے کہیں درمیان سے سنائیں یہ آپ کو بتا دے گا کہ اب یہ اس کے بعد کیا کہے گا، اس کا دینی علم کتنا ہے اور بھی بہت کچھ۔ ہمارا دوست ظفر اللہ کچھ حوالوں سے بڑے درست نشانے لگانے کے قابل ہے۔ ان سب کی مہارت ہے کیا یہ کبھی نہیں بتاؤں گا خود ان کو بھی۔

سوال بس اتنا ہے کہ ہمیں پیش گوئیوں کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے۔ خاتون اپنے خاوند کو سدھارنے کے لیے کم سدھانے کے لیے زیادہ بابوں کو ڈھونڈتی ہے۔ ہم محنت کی بجائے شارٹ کٹ سے پیسہ چاہتے ہیں اس کے لیے بابوں کی مدد چاہتے ہیں۔ پھنستے ہم اپنی حرکتوں سے ہیں اور نکلنا ہم بابوں کی مدد سے چاہتے ہیں۔ نیکی کا ہم نے بس جھانسا ہی دے رکھا ہے، اصل میں ہم اندر سے شیطان ہی ہوتے ہیں۔ اپنی خواہشات اپنی ہوس کے اسیر جنہیں خود پورا کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تو کالے چٹے بابے ڈھونڈتے ہیں۔

پروفیسر غنی سے کوئی ملاقات نہیں ان کے علم پر کوئی شک نہیں ہے نہ ان پر کوئی اعتراض ہے۔ ان کی تازہ پیش گوئیاں پاکستان بھارت کی ایک ہولناک جنگ اس سے ہونے والی تباہی کے متعلق ہیں۔ سمجھنے کی بات ایک ہے کہ یہ جنگ اگر ہونی ہے تو اس کی وجہ پروفیسر صاحب کی پیشگوئیاں نہیں ہیں۔ نہ یہ تقدیر نے ہمارے لیے لکھ رکھی ہے۔ اس کی واحد وجہ ہمارے دونوں ملکوں قوموں کے اپنے اعمال اور کرتوت ہیں۔ کس نے ہمیں باندھ رکھا ہے کہ ہم امن نہ چاہیں۔

رہ گئی بابوں کی بات تو یہ اگر ہزار فیصد درست پیش گوئیاں بھی کرتے ہوں تو وسی بابے کی ان میں ذرا دلچسپی نہیں ہے۔ کلمہ پڑھ رکھا ہے، کبھی کسی نے اس کی تشریح کر دی تھی۔ زندگی ایک چیلنج کا نام ہے یہ نرمی سے محبت سے سامنے آئے اسے ویسے ملیں گے۔ یہ مشکلات کے پہاڑ اٹھا کر لائے اسے تب بھی میدان میں کھڑے ملیں گے۔ جو سیکھا ہے جتنی سمجھ ہے جیسا دل ہے ویسی زندگی ہی جی کر دکھانی ہے۔ جو کریں گے اس کا حساب دینے کو تیار رہیں گے۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حساب دینے کے لیے بھی پہلے کچھ کر دکھانا ہوتا ہے۔ رہ گئی ہولناک جنگ اور تباہی کی پیش گوئیاں تو جنگ اب بس خودکشی کا نام ہے۔ جب ہمارے خطے کی قیادت چاہے گی اجتماعی خودکشی کر لے گی۔ کوئی نہیں روک سکتا۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi