خزانے کی امانت مٹی ہو گئی


ہم نے گورنمنٹ کالج سٹوڈنٹس یونین کے عہدے داروں کی حیثیت سے 18 مارچ 1972ء کوحلف اٹھایا۔ اس کے دو تین دن بعد کی بات ہے، میں کلاس میں تھا۔ اچانک ایک شور کی صورت میں کچھ آوازیں سنائی دیں۔ ”بائی کاٹ، بائی کاٹ۔“ بوئے کوٹ کا یہ اردو ترجمہ ہمارے لئے نیا نہیں تھا، لیکن یہ شور کون کر رہا تھا؟ ایک لمحہ پہلے تک تو تمام کالج پرسکون تھا اور معمول کی پڑھائی جاری تھی۔ آوازیں قریب آگئیں۔ کمرے کا دروازہ کھلا اور چند لڑکے اندر آگئے۔ ان کے پیچھے ایک پرجوش ہجوم تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی صورت آشنا نہیں لگا۔ معلوم ہوا کہ وہ دوسرے کالجوں کے طلبہ تھے جو اپنے کالج بند کرا کے اب ہمیں سڑک پرلانا چاہتے تھے۔ دو لڑکیاں اغوا ہو گئی تھیں اور ان کی فوری بازیابی لئے ایک احتجاجی جلوس نکالا جانا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ بحیثیت سیکرٹری یونین مجھے نہ صرف شرکت بلکہ اپنے کالج کی نمائندگی بھی کرنا تھی۔ سو ہم باہر آگئے، اور ہوتے ہوتے مال روڈ پر۔ جاوید ہاشمی اس مظاہرے کی قیادت کر رہا تھا۔ طلبہ کا یہ ہجوم گورنر ہاﺅس پہنچا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں گورنر غلام مصطفی کھر سے ملوایا جائے۔ تقریریں شروع ہو ئیں اور طلبہ مشتعل ہوتے گئے۔ ایک افواہ یہ بھی گردش کر رہی تھی کہ لڑکیاں گورنر ہاﺅس میں تھیں۔ لڑکے زبردستی گیٹ کھولنے کی کوشش کرنے لگے۔ جب مظاہرین کو بتایا گیا کہ اس وقت بھٹو صاحب بھی وہاں موجود تھے اور برطانوی سیکرٹری خارجہ (ڈگلس ہیوم)کے ساتھ ایک اہم ملاقات میں مصروف تھے تو ان کا مطالبہ شدید تر ہو گیا۔ میں نے اپنے کالج کی ینگ سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر سہیل بٹ کو گیٹ کی سلاخوں پہ چڑھتے دیکھا۔ وہ اگلے سال کے لئے سیکرٹری شپ کا امیدوارتھا اور جمعیت کی حمایت کا طالب، کیونکہ بائیں بازو کی تنظیمیں پروفیسر جیلانی کامران کے بیٹے زاہد کامران کو نامزد کرنے کا سوچ رہی تھیں۔ چنانچہ سہیل کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے اظہار کے لئے ایک سنہری موقع مل رہا تھا۔ ہجوم کے دباﺅ کے سامنے گیٹ جواب دے گیا اور کچھ لڑکے زبردستی اندر داخل ہو گئے۔ سڑک پہ موجود ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے پہلے لاٹھی چارج کیا پھر آنسو گیس کے شیل فائر کئے۔ بیشتر یہ سمجھے کہ گولی چل گئی۔ پھر تو ایسی بھگدڑ مچی کہ جس کے جدھر سینگ سمائے ادھر بھاگا۔ پولیس طلبہ کا پیچھا کر رہی تھی، کچھ پکڑے بھی گئے۔ میں نے اور چند ساتھیوں نے باغ جناح کی پہاڑی پر’پناہ‘ لی۔ ہنگامہ کچھ سرد ہوا تو ہم عقبی گیٹ سے باہر نکلے۔ میں نے رکشا لیا اور سیدھا کالج آ گیا۔

بعد میں آنے والے کچھ لڑکوں نے بتایا کہ اس دن بھٹو صاحب نے عوامی رہنما ہونے کا ثبوت دیا۔ وہ گورنر ہاﺅس کے اندر جانے والے طلبہ سے ملے اور انہیں یقین دلایا کہ وہ لڑکیوں کو جلد از جلد بازیاب کرانے کے احکامات جاری کر رہے تھے۔ جب طلبہ کی کسی طرح تسلی نہ ہوئی تو بھٹوصاحب نے کہا کہ وہ چاہیں تو لڑکیوں کے مل جانے تک وفاقی وزیر ممتاز کاہلوں کو یرغمال کے طور پہ اپنے ساتھ رکھیں۔ اور طلبا نے واقعی کاہلوں صاحب کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ رات کو خبر آئی کہ لڑکیاں بازیاب کرا لی گئیں۔ انہیں ان کے کسی رشتہ دار نے اغوا کر کے صوبہ سرحد میں منتقل کر دیا تھا۔

میں اپنا کالج کا شناختی کارڈ، جو پلاسٹک کے کور میں ہوتا، پتلون کی پچھلی جیب میں رکھتا تھا۔ بین الکلیاتی مباحثوں اور مشاعروں میں شرکت کے لئے دوسرے شہروں میں بھیجی جانے والی ٹیموں کا سفر خرچ اور گذارا الاﺅنس برسر سے منظور کرا کے خزانچی سے وصول کرنا سیکرٹری کے فرائض میں شامل تھا۔ جلوس میں شامل ہونے سے پہلے میں نے کچھ ٹیموں کے لئے جو پیسے نکلوائے تھے وہ اسی بٹوے نما کور میں رکھ لیے تھے۔ کالج آ کے جیب میں ہاتھ ڈالا تو دل اچھل کے حلق میں آگیا۔ بٹوا غائب تھا۔ ظاہر ہے اتنے ہنگامے اور بھاگ دوڑ میں ایسا کچھ تو ہونا ہی تھا۔ ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ دو ڈھائی سو روپے اس وقت بڑی رقم تھی، کلاس ون افسر کی آدھی تنخواہ سے زیادہ۔

میں اسی پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ یونین آفس کا دروازہ تھوڑا سا کھلا۔ شلوار قمیص میں ملبوس، جناح کیپ لیے، ادھیڑ عمر کے ایک صاحب نے داخل ہو نے کی اجازت چاہی۔ میں نے احترام سے انہیں اندر بلایا اور بیٹھنے کو کہا۔ وہ بغیر کسی تمہید کے بولے:”آپ کی کوئی چیزتو نہیں گمی؟ “

”جی بالکل۔“ میں اچھل پڑا۔

”کیا؟“ انہوں نے پوچھا ۔ میں نے تفصیل بتائی۔ انہوں نے اپنی قمیص کی باہر والی جیب سے میرا ’بٹوا‘ نکال کے مجھے دے دیا۔ میں سناٹے میں آ گیا۔

”میں نے کالج کے باہر سے رکشا لیا تو یہ سیٹ پہ پڑا دیکھا۔ آپ کا آئی ڈی کارڈ دیکھا تو کہا کہ یہ تو اپنے سیکرٹری صاحب ہیں۔“

”آپ مجھے کیسے جانتے ہیں؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔

” سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ کی کینٹین میرے بھانجے ظہور کی ہے۔“

سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے باہر لیکن کالج کی عمارت کے اندر واقع ظہور صاحب کی سٹال نما کینٹین سارے کالج میں مقبول تھی۔ ہمیں وہاں کا آملیٹ اور کٹلس سینڈوچ بہت پسند تھے۔

”ان میں سے کچھ آپ کو پیش کر دوں؟“ میں نے جھجکتے ہوئے بٹوے کے نوٹوں کی طرف اشارہ کیا۔

”میں تو سارے ہی رکھ سکتا تھا۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے معذرت کی اور دعائیں دے کے رخصت ہوئے۔

گرمیوں کی تعطیلات قریب تھیں اور یوں ہماری یونین کے سیشن کا اختتام بھی۔ میں نے ایک مباحثے اور مشاعرے میں بھیجی جانے والی ٹیموں کے لئے ایک سو اسی روپے نکلوائے لیکن ابھی شرکا تک پہنچا نہیں پایا تھا کہ ان تقریبات کے منسوخ کئے جانے کا خط موصول ہوگیا۔ طریقہ کار یہ تھا کہ ہر ٹیم میزبان کالج سے تقریب میں شریک ہونے کا سرٹیفکیٹ لیتی اور واپس آ کر جمع کراتی۔ اس طرح تصدیق ہو جاتی کہ انہیں دیا گیا سفر خرچ وغیرہ استعمال ہوا تھا۔ اگر کسی وجہ سے شرکا کو یہ سرٹیفکیٹ نہ مل سکتا تو یونین کا صدر یا سیکرٹری ایک تصدیقی سر ٹیفکیٹ لکھتا کہ اس ٹیم نے تقریب میں شرکت کی تھی۔ اور اگر ٹیم کی روانگی سے قبل ہی تقریب منسوخ ہو جاتی تو وصول کردہ رقم واپس کالج فنڈ میں جمع کرادی جاتی۔ مجھ سے بوجوہ مذکورہ رقم واپس کرنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ جب خیال آیا تو نیت میں فتور بھی در آیا۔ میں نے سوچا کہ مالی سال ختم ہونے کو تھا، پیسے مزید کچھ دن اپنے پاس رکھتا ہوں، اگر برسر نے پوچھا تو جمع کرا دوں گا ورنہ یونین کے عہدے داروں اور اپنے حامیوں کو پارٹی دے دوں گا۔ انہیں پہلے ہی مجھ سے اور صدر اشرف عظیم سے شکایت رہتی تھی کہ ہم نے انہیں کبھی کوئی ٹریٹ نہیں دی تھی ، یہاں تک کہ ہم مجلسِ عاملہ کے اجلاسوں میں چائے اور مشروبات وغیرہ بھی نہیں منگواتے تھے، جس کی اجازت تھی اور یہ یونین کا دستور بھی رہا تھا۔

جون کے پہلے ہفتے میں حکومت نے پانچ اور دس روپے کے کرنسی نوٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ۔ کچھ عرصہ پہلے پچاس روپے کے نوٹ بھی منسوخ کئے گئے تھے۔ یہ اقدام مشرقی پاکستان میں زیر گردش لاکھوں کی مالیت کی کرنسی کو مغربی پاکستان سمگل کر کے استعمال کرنے سے روکنے کی خاطر اٹھائے گئے تھے۔ اس بار منسوخ شدہ نوٹ نئے نوٹوں سے بدلوانے کے لئے صرف چار پانچ دن دیے گئے۔ میں اپنی الماری میں سینت کے رکھے ہوئے نوٹوں کو بھول چکا تھا ۔ شاید میرا لاشعور انہیں خرچ کرنے سے انکاری تھا۔ جب ان کا خیال آیا تو دیر ہو چکی تھی۔ بینک والوں نے کہا کہ وفاقی وزیرِ خزانہ (ڈاکٹر مبشر حسن) کو لکھو، شاید وہ خصوصی اجازت دے دیں۔ میں نے خط لکھا اور کہا کہ یہ طلبا کی یونین کا فنڈ تھا۔ خوشی ہوئی کہ انہوں نے جواب دیا لیکن مایوسی بھی کہ جواب صاف تھا۔

برسرصاحب نے تو مجھ سے نہیں پوچھا لیکن میں نے خود ہی انہیں وہ بیکار نوٹ دکھا کے اعتراف کیا کہ انہیں تبدیل کرانے میں مجھ سے تاخیر ہوئی۔ اصولاً مجھے اس کے مساوی پیسے جمع کرانے تھے لیکن انہوں نے طالب علم ہونے کی رعایت دیتے ہوئے یہ قرض رائٹ آف کر دیا۔ مجھے چاچا عنصر کی بتائی ہوئی اپنے دادا کی نصیحت یاد آئی کہ’ جس مال پہ تمہارا حق نہ ہو، اسے اپنی ذات یا خاندان پہ (اور گویا دوستوں پر بھی) استعمال کرنے کا سوچنا بھی مت۔‘ خیال آیا کہ ناپختہ عمر میں مجھ سے ایک چھوٹی سی ذمہ داری نبھانے میں کوتاہی ہوئی تو پیسہ مٹی ہو گیا، کسی ادارے ، شہر یا ملک کے خزانے کا امین اگر ایسا کرے تو کیا ہو۔ بچپن میں سنی ہوئی ایک کہانی نئے انداز سے سامنے آئی۔

ایک بادشاہ عام لباس میں اپنے مصاحب کے ساتھ شکار کھیل رہا تھا۔ اسے پیاس لگی تو قریب ہی ایک باغ میں پہنچا۔ مالی نے ایک انار توڑا جس کے رس سے گلاس بھر گیا۔ بادشاہ حیران ہوا کہ صرف ایک انار سے پورا گلاس بھر گیا۔ اس نے سوچا کہ یہ باغ تو بہت منافع میں جارہا ہو گا لہذا اس کا لگان بڑھانا چاہئے۔ اسے پیاس کچھ زیادہ ہی لگ رہی تھی، سو اس نے مزید رس کی فرمائش کی۔ مالی نے اسی پودے سے ویسا ہی انار توڑا لیکن اس سے آدھا گلاس بھی نہ بھرا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اس انار میں کیا خرابی تھی؟ مالی نے جواب دیا: اس انار میں کوئی خرابی نہیں تھی، لگتا ہے ملک کے بادشاہ کی نیت میں فتور آ گیا ہے۔

نیت میں فتور آ گیا ہے۔

یہ تو مصرع ہو گیا۔

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے

(زیرِ اشاعت کتاب، ’ایک شاعر کی سیاسی یادیں‘ سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).