”میرے عزیز ہم وطنو“ کا ماحول


”میرے عزیز ہم وطنو….“کئے بغیر اس ملک میں محض عدالتی سرپرستی اور مہربانی کی بدولت متقی، پرہیز گار اور زندگی کے مختلف شعبوں میں معجزے برپا کرنے والے ماہرین پر مشتمل حکومت کا قیام ممکن ہی نہیں۔ مختلف ٹیلی فون نمبروں سے جنہیں میں شناخت کرنے سے قاصر ہوں،لہذا اس حکومت کے بارے میں ”وہ وقت قریب آپہنچا ہے“ والے Whatsappپیغامات بھیجنا بند کردیئے۔

رات گئے جب ایسے پیغامات کی وجہ سے فون Silent Modeپر ہونے کے باوجود بھی شیشے کی میز پر رکھنے کی وجہ سے Vibrateکرتے ہوئے نیند سے جگادیتا ہے تو کئی دنوں سے مستقل آتے اس پیغام کو ایک اور نامعلوم نمبر سے آیا دیکھ کر بہت کوفت ہوتی ہے۔ نیند کی خاطر لی ہوئی گولی فشار خون بڑھ جانے کی وجہ سے ناکارہ ہوجاتی ہے۔ صبح کرنا شام کا واقعتاجوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتا ہے۔

میرے ابتدائیے سے البتہ ہرگز یہ طے نہ کرلیجئے گا کہ میں خدانخواستہ ”چوروں اور لٹیروں“ کو حکومت میں بھیجنے والے اس نظام کا حامی ہوں جسے ”جمہوریت“ کہا جاتا ہے۔ مجھے سکول کے دنوں ہی میں نصاب کی کتابوں کے توسط یہ بتادیا گیا تھا کہ وہ شاعرِ مشرق جنہوں نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا خواب بھی دیکھا تھا،جمہوریت کو ایسا بدخونظام سمجھتے تھے جہاں بندوں کو تولا نہیں گنا کرتے ہیں۔

بندوں کو غالباََ کسی بھی اخلاقی پیمانے پر تولنے سے محروم اس نظام سے میرا بچپن ویسے بھی محفوظ رہا ہے۔ سرخ وسفید رنگت والے طویل القامت ایوب خان ان دنوں ہمارے صدر تھے۔ وہ اکتوبر1958ءمیں انقلاب لاکر اس ملک کے صدربنے۔ ہر سال اس مہینے کی 7یا 8تاریخ ہمارے ہاں قومی تعطیل ہوا کرتی تھی۔

ایوب خان کے لائے انقلاب کی وجہ سے ہمارے ہاں ”جمہوریت“ نہیں ”بنیادی جمہوریت“ متعارف ہوئی۔ بنیادی تعلیم سے محروم جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے عوام کو ہر چوتھے سال صرف ایک بار ووٹ ڈالنے کے لئے طلب کیا جاتا۔ وہ اپنے علاقے یا عملے کے کسی صاف ستھرے اور پڑھے لکھے شخص کو ”بی ڈی ممبر“ منتخب کرنے کے بعد سیاسی ذمہ داریوں اور فکروغم سے آزاد ہوجاتے۔ یہ بی ڈی ممبر،بعدازاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین چنتے۔ اسمبلیوں کا بنیادی فریضہ بھی ان دنوں محض قانون سازی ہوا کرتا تھا۔ کاروبارِ مملکت وحکومت صدر اور گورنر کی براہِ راست نگرانی میں متقی، پرہیز گار اور زندگی کے مختلف شعبوں میں معجزے برپا کرنے والے ماہرین پر مشتمل کابینہ کے ذریعے ہی سرانجام دیا جاتا۔

فیلڈ مارشل ایوب خان کی جمہوریت نہیں بنیادی جمہوریت کی وجہ سے اس ملک میں ”صنعتی انقلاب“ آیا۔ یوریا کھاد،ہائی برڈبیج اور آسان اقساط پر میسر ٹریکٹروں کی بدولت کسان اپنی زمینوں میں سونا اُگانے لگے۔ مردوں کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لئے بغیر دوسری شادی کی گنجائش نہ رہی۔ خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے ”کم بچے خوش حال گھرانہ“ متعارف کروانے کا چلن بھی متعارف ہوا۔

ایوب خان کا سنہری دور مجھے بہت یاد آتا ہے۔ اس کی اہم ترین یادوں میں یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ لاہور کے بینک اسکوائر میں ایک امریکی مرکز اطلاعات ہوا کرتا تھا۔ میں اس میں پہلی بار داخل ہوا تو پتہ چلا کہ عمارتوں کو پنکھا چلائے بغیر ٹھنڈا کیسے رکھا جاتا ہے۔ اس عمارت میں واٹر کولر بھی نہیں تھا۔ اس پر شیشے سے بھری پانی کی ایک بوتل الٹے منہ رکھی ہوئی تھی۔ اس کے نیچے لوہے سے بنے ایک جال نما خانے میں کاغذ کے کپ ڈنڈے کی صورت کھڑے ہوتے۔ میں بوتل کے منہ کے قریب لگے بٹن کو دباکر اپنے کپ کو کئی بارپانی سے بھرتا اور اسے ایک ہی ”ڈِیک“ میں ختم کرکے ربّ کا شکرادا کرتا۔

ان دنوں امریکہ اپنا جگری یارتھا۔ ہمارے ہاں ریل کے کئی ڈبوں پر پاکستانی اور امریکی پرچموں میں لپٹے دوہاتھ گرمجوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے نظرآتے۔ ”بڑھاﺅکھیت کی پیداوار“ والے ”زرعی پروگرام“ دیسی زبانوں میں ریڈیو پاکستان سے متعارف کروانے کا سلسلہ بھی امریکی امداد کی معاونت سے ان ہی دنوں شروع ہوا تھا۔ امریکہ کا ایک صدر کینیڈی نام کا بھی تھا۔ بیوی اس کی تھی جیکولین۔ہمیں سرگوشیوں میں بتایا گیا کہ وہ ہمارے قدآور اورخوبرو صدر کو دل دے بیٹھی ہے۔ شاید اسی وجہ سے جل بھن کر کینیڈی نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کے خود کو ”سامراج دشمن“ اور ”غیر جانبدار“ کہنے والے نہرو سے دوستی گانٹھ لی اور ہم چین کی صورت ایسا یار ڈھونڈنے پر مجبور ہوئے جس پر جاں نثار کرنے کو جی چاہتا ہے۔

چین سے دوستی کے باوجود 1965ءوالی جنگ ہوگئی۔ اس ملک کے بہت پڑھے لکھے لوگ اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ نیک طینت اور خوبرو فیلڈ مارشل ایوب خان کو ا س جنگ کی طرف ذوالفقار علی بھٹو جیسے سازشی سیاست دان نے دھکیلا تھا۔دفترِ خارجہ کے ایک اہم افسر عزیز احمد اس ضمن میں بھٹو کے سہولت کار تھے اور پاک فوج جیسے منظم ادارے سے معاونت جنرل سعید اختر ملک نے فراہم کی تھی۔ ان تینوں نے باہم مل کر نیک طینت اور خوبرو فیلڈ مارشل کو قائل کردیا کہ اگر پاکستان نے ”آپریشن جبرالٹر“ کے ذریعے کشمیر کو گوریلا جنگ کے ذریعے بھارتی قبضے سے آزاد کروانے کی کوشش کی تو عالمی برادری خاموش رہے گی۔ بھارت پاکستان کے خلاف باقاعدہ سرحدوں پر جنگ برپا نہیں کر پائے گا۔ ستمبر 1965والی جنگ مگر ہوگئی۔ ہم اسے جیت رہے تھے کہ نیک طینت فیلڈمارشل سیز فائر پر آمادہ ہوگئے۔بعدازاں موصوف نے تاشقند جاکر بھارت سے صلح کا معاہدہ بھی کرلیا۔

اس جنگ کے دوران اپنوں اور غیروں نے نیک طینت فیلڈمارشل کے اعتماد کو جو ٹھیس لگائی تھی اس کے اظہار کے لئے موصوف نے الطاف گوہر سے ایک کتاب لکھوائی۔ اُردو ترجمے میں اس کتاب کا عنوان ”جس رزق سے آتی ہو….“رکھا گیا۔امریکہ کوواضح پیغام دینے کے لئے اسے “Friends not Masters”ہی کہاگیا۔

جیکی مگر اب امریکہ کی خاتون اوّل نہیں رہی تھی۔ اس کی جگہ جانسن آگیا تھا۔وہ ویت نام میں مصروف ہوگیا اگرچہ اسے کراچی میں اونٹ گاڑی چلانے والا بشیرساربان ضرور یاد تھا۔اس ساربان کو امریکہ بلاکر اس ملک کی سیر کروائی گئی۔ معلوم نہیں اس کی اولاد آج بھی پاکستان کی شہری ہے یا گرین کارڈ لے کر امریکہ منتقل ہوچکی ہے۔
ایک بات بہرحال طے ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کو جمہوریت نہیں بنیادی جمہوریت درکار ہے۔ ہمارا انتخابی نظام”چوروں اور لٹیروں“ کو اسمبلیوں میں بھیجتاہے۔ عمران خان جیسے دیدہ ور اگر اسمبلیوں میں پہنچ بھی جائیں تو راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کی بصیرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرپشن کا خاتمہ یقینی نہیں بناسکتے۔

پانامہ دستاویزات کی وجہ سے داغدار ہوئے نواز شریف کو بالآخر بنی گالہ کی فصیل پر لگائے پش اپس کی بدولت ہی سپریم کورٹ کے روبروپیش ہونے پر مجبور کرناپڑا۔ ”چوروں اور لٹیروں“ پر مشتمل اسمبلی اس ضمن میں کوئی کردار نہ ادا کرپائی۔ سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں نے نواز شریف کو ”گاڈ فادر“ تو کہا مگر موصوف کا اقامہ ڈھونڈنے کے لئے JITکے ”ہیروں“ کی ضرورت پڑی۔ Deliverاس ملک میں بالآخر سپریم کورٹ کی نگرانی میں JITکے ہیروں ہی نے کیا ہے۔ لہذا مزیدانتخابات اور قومی اسمبلی وغیرہ کا بوجھ کیوں برداشت کیا جائے۔

متقی، پرہیز گار اور زندگی کے مختلف شعبوں میں معجزے برپا کرنے والے ماہرین پر مشتمل حکومت کی طلب اور ضرورت لہذا اس وقت بہت شدید ہے۔ اس حکومت کو مگر عدالتی عمل کے ذریعے اس ملک پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔مسلط، غالباََ غیر مناسب لفظ ہے۔ مجھے ”متعارف“ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ بہرحال مجوزہ حکومت کو مسلط یا متعارف کروانے کے لئے اشد ضروری ہے کہ پہلے ”میرے عزیز ہم وطنو….“کیا جائے۔ اس کے بعد یہ حکومت آئے اوراس حکومت کو ”نظریہ ضرورت“ کے تحت 3سال تک اس ملک کو سنوارنے کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ گھوڑے کو گاڑی کے پیچھے نہیں آگے باندھا کرتے ہیں۔ عدالتوں کو مطلوب Horse Powerبھی صرف ”میرے عزیز ہم وطنو“ کے ذریعے ہی فراہم کی جاسکتی ہے، اس کے بغیر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).