بھائی جون


بھائی جون ایلیا کے انتقال کی خبر مجھے دوسری صبح ملی، اخباروں سے۔

سارا دن خاموشی سے گزر گیا۔ سوچتی رہی کہ تمام لوگ جا رہے ہوں گے، مگر مجھے ان کے مکان کا پتہ بالکل یاد نہیں تھا، جاتی بھی تو کہاں، اور کس کے پاس؟

وہ عجب شخص تھے۔ ان سے پہلی ملاقات ایک تقریب میں ہوئی۔ کیا دیکھتی ہوں ایک بالکل مہین منحنی گورا سا شخص بال لہراتا میری ہی طرف چلا آرہا ہے۔

’ تمہی ہو فہمیدہ؟ میں تم سے پہلے بہت نفرت کرتا تھا مگر اب بے حد محبت کرتا ہوں‘۔

یہ سن کر میں خوب ہنسی۔ ان کی شاعری کی تو گرویدہ میں ہمیشہ سے تھی لیکن ملنے کا موقعہ نہیں ملا تھا۔

’ نفرت کیوں کرتے تھے؟‘ میں نے پوچھا۔

’ میں نے سنا تھا تم مہاجروں کو بہت برا بھلا کہتی ہو ‘۔

’ وہ تو میں کہتی ہوں، اور اب محبت کیوں کرنے لگے، بھائی جون؟‘

انہوں نے کہا میں نے تمہاری وہ نظم پڑھی ہے:

دلّی تری چھاوں بڑی گہری
مری پوری کایا گھل رہی
مجھے گلے لگا کر گلی گلی
دھیرے سے کہے تو کون ہے ری

جلا وطنی میں ہندوستان جانے سے پہلے بھی وہ میرے گھر آئے۔ بے چین ، بے قرار، ٹکر ٹکر کبھی در و دیوار کو دیکھتے اور کبھی مجھے۔ انہیں میرے ارادے کا کوئی علم نہیں تھا۔ مگر جب میںں ہندوستان پہنچی اور برس دیڑھ بعد امروہہ جانا ہوا تو کتنے ہی خاندانوں کو اپنا منتظر پایا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بھائی جون کا خط آیا تھا۔

واپس آنے پر جب میں نے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو وہ حیران رہ گئے۔ ان کو ساری باتیں محو ہو چکی تھیں۔رئیس امروہوی مرحوم کا قتل بھی ہو چکا تھا اور بھائی جون سہم کر رہ گئے تھے۔ اکثر حیران ہو کر کہتے: تعجب ہے، میں کہاں ہوں؟ میں کون ہوں؟ اور یہ کیا مقام ہے جہاں میں ہوں؟

ان کے روشن اور بے قرار ذہن سے تمام راستے، سڑکیں اور گلیاں، سب محو ہوئے ایک مدت ہو چکی تھی۔

مشاعرہ خوب مزے میں آ کر پڑھتے ۔ بال جھٹک کر اور زانو پیٹ کر شعر سناتے اور ایک سماں باندھ دیتے۔

بھائی جون کے اصلی وجود کی ایک ٹھوس حقیقت بھی تھی۔ عجیب اٹل حقیقت تھی دھان پان سے اس وجود کی، جو اصلی، سچی اور کھری تھی۔ جس کی جڑیں بہت گہری، گویا صدیوں میں تھیں۔ بہت ان مٹ تہذیبی قدریں ان کے وجود میں رچی ہوئی تھیں۔ اتنی طاقتور کہ وہ اپنے گردوپیش کی ہر اخلاقی گراوٹ سے بلند ہو جاتے تھے۔

وہ اپنی دھن میں پوری طرح مست اور مگن رہتے تھے۔ ایک طرح سے وہ گردوپیش کو معدوم کر دیتے تھے۔

خود بین و خود شناش۔ ان کی شخصیت میں ایک انوکھی شانِ محبوبیت تھی جو صرف انہی پر پھب سکتی تھی۔

بھائی جون طیش کھاتے رہتے تھے۔ علم کی بے قدری پر، انسانی اقدار کی بے حرمتی پر، جہالت کی مکمل حکمرانی پر، ایسی تمام باتوں پر جن پر کئی عشروں سے اب کسی کو غصہ نہیں آتا۔

کسی اندرونی طاقت کے اجالے سے وہ یوں پوری طرح زندہ تھے کہ موت کا تو خیال تک ان کے قریب نہ پھٹکتا تھا۔ ایسا تو انہوں نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ دمہ کے دورہ میں ان کے سانس کی ڈوری ٹوٹے گی تو پھر نہ جڑے گی۔

07/01/2003


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).