مجید خان اچکزئی کار حادثہ یا قتل عمد؟


مجید خان اچکزئی بلوچستان اسمبلی کے رکن اور پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ آج کل ہدہ جیل کوئٹہ میں ایک ٹریفک حادثے کی پاداش میں مقید ہیں۔ جس میں ایک ٹریفک اہلکار کی جان گئی اور مجید خان محفوظ رہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان اور دنیا بھر میں دہشت گردی سے زیادہ اموات ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں آج تک ٹریفک پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور ٹریفک کو منظم کرنے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ جس دن حادثہ پیش آیا۔ اس دن مجید خان کی گاڑی سے جاں بہ حق ہونے والا ٹریفک پولیس اہلکار سڑک کے درمیان اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ گاڑی کا نشانہ بنا۔ دیگر ممالک میں ٹریفک پولیس اہلکار ایک مخصوص کمرہ نما جگہ میں کھڑے کھڑے ٹریفک کی روانی ممکن بناتا ہے۔ یہ کمرہ نما چوک پر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر ممالک کے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں میں بھی ٹریفک لائٹس کا نظام رائج ہے۔ مگر پاکستان میں تاحال ایسے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

حادثے کی فوٹیج دوسرے دن ہی وائرل ہوگئی۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا سب کچھ چھوڑ کر حادثے کی فوٹیج دکھا رہا تھا جس سے جانب داری اور تعصب کی بو آ رہی تھی۔ واضح رہے، ویڈیو فوٹیج میں گاڑی چلانے والے کی صورت ناقابل شناخت تھی۔ جب کہ بعد میں چند تصاویر منظر عام پر آئیں۔ جن میں جائے حادثہ پر مجید خان واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ حادثے کے فورا بعد مجید خان نے اپنی گاڑی کو کنارے لگایا اور زخمی ٹریفک اہلکار کو ہسپتال تک پہنچایا۔ جہاں پر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملا۔ حادثے والے دن مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا۔ لیکن میڈیا کے دباؤ میں آکر پولیس نے مجید خان کو مقدمے میں نامزد کردیا۔ جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔ اس پر ماہر قوانین اور عام عوام منہ میں انگلیاں دبا کر رہ گئے۔

پشتون معاشرے کے اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ جو بغیر حکومتی قوانین کے بہتر نتائج مہیا کرتے ہیں۔ کار حادثے کے معاملے میں بھی ہزاروں سال پرانی کار آمد روایات کو زیر استعمال لاتے ہوئے متاثرہ خاندان کے پاس میڑھ گیا۔ جس کی سربراہی اس وقت کے ڈسٹرکٹ کمشنر زیارت کر رہے تھے۔ انہوں نے متاثرہ خاندان سے تعزیت کی۔ ان سے ہر ممکن تعاون کا اعادہ کیا۔ پشتون معاشرے میں رائج تاوان یا اسلامی قوانین کے تحت دیت دینے کا وعدہ بھی کیا۔ حالانکہ دیت قتل بالرضا میں دی جاتی ہے۔ وہ قتل جو ارادتاً کیا جاتا ہے۔ میڈیا میں قتل بالخطا کو قتل بالرضا کی طرز پر اچھالا گیا۔

جس کی بناء پر میڑھ نے متاثرہ فریق کو دیت دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس کے علاوہ میڑھ نے مقتول کے بیٹے یا بھائی کو سرکاری ملازمت دینے کی پیشکش کی۔ عید قریب تھی تو عیدی کے طور پر دو لاکھ روپے بھی دیے گئے۔ جسے متاثرہ خاندان نے قبول کیا۔ یہ میڑھ معاملات کو قانونی شکل دینے کے لئے واپس کوئٹہ لوٹا ہی تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کے مخصوص گروہ نے دھوکے سے پیشگی راضی نامے کا معاملہ اچھالا۔ دوسری طرف متاثرہ خاندان سے اس قسم کے سوالات بھی پوچھے گئے کہ ’’ کیا آپ اپنے مقتول کے خون کا سودا کریں گے؟ کیا آپ مقتول کو بھول گئے؟ کیا یہ پیسے مقتول کا متبادل ہوسکتے ہیں؟ اس قسم کے سوالات سن سن کر قانونی دستاویز پردستخط کرنے والے متاثرہ فریق کے افراد راضی نامے سے منکر ہوگئے۔

اسی دوران مجید خان نے ٹی وی انٹرویو میں گرفتاری دینے کا اعلان کیا لیکن چادر و دیوار کی پامالی کرتے ہوئے پولیس و دیگر فورسز نے رات گئے مجید خان کو گھر سے گرفتار کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ جس میں سیکیوریٹی اداروں نے پھرتی دکھائی۔ یہاں سے مجید خان جیل گئے۔ عدالت میں پیشی کے لئے آئے تو میڈیا والوں کو کھری کھری سنائیں کہ دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں ہزاروں لوگ مارے گئے ہیں۔ کبھی ان متاثرہ خاندانوں کا حال دریافت کیا ہے؟ کبھی انہیں انصاف دلانے کی کوشش کی ہے؟ عدالت میں مجید خان ایکسیڈنٹ کیس پر فیصلہ دینے کی بہ جائے کئی بار سماعتیں ملتوی کی گئیں۔ اسی طرح اصل کیس کے علاوہ سیاسی بنیادوں پر بنے پرانے کیسز بھی ر ی اوپنکیے گئے اور حادثے کی تحقیقات کی بہ جائے دوسرے کیسز کی سماعتیں کی جاتی ہیں۔ یوں انصاف کے پرخچے اڑائے گئے۔ دریں اثناء جب میں اور ناقرار جیل میں ان سے ملنے کے لئے گئے تو سیکیوریٹی آفیسر نے اہلکاروں کو کہا کہ انہیں ملنے دیا جائے لیکن جاتے جاتے اس نے کہا کہ کس سے ملنا ہے؟ تو میں نے کہا کہ مجید خان سے۔ تو اس نے کہا کہ جاؤ جاؤ اور اہلکاروں کو ہدایت دی کہ انہیں نہ ملنے دیا جائے۔ یہ عید الاضحی سے پہلے کے دن تھے۔ اسمبلی اجلاس کے دوران مجید خان نے کہا کہ مجھے باہر اس لئے نہیں نکالا جا رہا ہے، کیوں کہ میں کر پشن کے خلاف ہوں۔ اربوں کی کرپشن کی تحقیقات چل رہی ہیں۔ تحقیقات کی تکمیل کے بعد بہت سے مگرمچھ پکڑے جائیں گے۔ لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ خالد لانگو سے مجید خان نزدیکی تعلق روا رکھے ہوئے ہے۔ جو بدعنوانی کے کیس میں گرفتار ہیں۔ اس کا جواب خود مجید خان دے سکتے ہیں۔

29 ستمبر کو جیل میں ان سے ملاقات ہوئی۔ جس میں وہ کافی خوش و خرم نظر آرہے تھے، میں نے کہا کہ عدلیہ مرکز میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کے بعد دباؤ میں ہے۔ جب کہ ہمارے صوبے میں آپ کے کیس کے بعد دباؤ میں ہے۔ تو وہ مسکرا دیے۔ دیکھا جائے تو ستر وکلاء کی شہادت کے بعد بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے پہلے جیسے خالص اور انصاف پر مبنی محسوس نہیں ہو رہے۔ اس کا اعتراف خود وکلاء کرتے ہیں۔

مجید خان آج یا کل میں جیل سے رہا ہو جائیں گے لیکن ان قوتوں کا کیا بنے گا جو گزشتہ ستر سالوں سے جمہوری قوتوں کو مختلف ذرائع سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ جو اپنے مخصوص کردہ امور سر انجام دینے کی بہ جائے جمہوریت کو زک پہنچانے سے باز نہیں آتے۔ افسوس ان میڈیا گروپس پر بھی آتا ہے جو ایک حادثے کو قتل بالرضا کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ افسوس اس عدلیہ پر بھی آتا ہے۔ جس کے فیصلے صرف سویلینز کے خلاف ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ہمیں مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایسا نہ کہ کل کو ہم کوئی کردار ادا کرنے کے لائق ہی نہ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).