کیتھرین، طاہرہ اور جاء نماز


انسان کو سماجی طور پر طبقات میں بانٹ دیا گیا ہے ا ونچا طبقہ، متوسط طبقہ، نچلا متوسط طبقہ اور نچلا طبقہ۔ یہ تو وہ طبقات ہیں جن کی بہر حال انسانوں میں ایک پہچان ہے اور یہ کسی نہ کسی طور ایک دوسرے سے بقدرِ ضرورت و خدمت کسی نہ کسی حیثیت میں رابطے میں رہتے ہیں۔ لیکن ایک طبقہ وہ بھی ہے جو حد سے ذیادہ اہم ہو تے ہوئے بھی غیر اہم ہے۔ جس پر کوئی مہر بان تو کیا نا مہر بان نظر بھی نہیں ڈالتا۔ لوگ ان سے گھن کھا تے ہیں۔ ایک بار ہم ایک دانش ور خاتون کے ساتھ آرٹس کونسل جا رہے تھے راستے میں ایک بلڈنگ آئی تو وہ خاتون کہنے لگی یہاں ایک مشاعرہ ہوا تھا۔ فلاں نے مجھے بلایا تھا بصد اصرار، میری صدارت میں تھا۔ اس لیے جانا پڑا، عفّت یقین کرو وہاں سارے بھنگی آئے ہو ئے تھے۔ میرا تو سانس لینا مشکل ہو گیا تھا۔

میں نے پوچھا تم کیسے کہہ سکتی ہو۔ کہنے لگی ان کی شکلوں سے لگ رہا تھا۔ ویسے بھی ان میں زیادہ تر بھنگی ہی تو ہوتے ہیں۔ میں نے دل میں سوچا ایک روز جب سرلا کماری نے یہ پوسٹ لگائی تھی کہ انڈیا میں زیادہ تر کوٹھے مسلمان عورتوں سے آباد ہیں تب تو آپ نے بہت برا مانا تھا۔

کوئی پانچ سال پہلے کا ذکر ہے۔ جب ہم کسی دوسرے محلے میں رہتے تھے وہاں ایک بھنگن کیتھرین نے ایک غریب مسلمان مطیع اللہ سے شادی کر لی۔ مطیع غریب کو اسلام کے بارے میں اتنی نالج تو ضرور تھی کہ اہلِ کتاب لڑکی سے مسلمان مرد شادی کر سکتا ہے، لیکن اس کے علاوہ اسے کچھ علم نہیں تھا۔ اس کی وجہ اس کی ڈیوٹی تھی۔ وہ حاجی فضل اللہ کے گھر چوکیدار تھا۔ دن بھر اسے آنے جانے والوں پر نگاہ رکھنا پڑتی تھی۔ نماز کی ادائیگی اس کے پیشہ ورانہ فرائض سے غفلت ہوتی البتہ رات کو ڈیوٹی بدلنے پر وہ اللہ سے معافی بھی مانگ کر سوجاتا اب تو اسے کئی آیات بھول بھی چکی تھیں۔

عید کے روز بھی اسے مسجد جانا نصیب نا ہوتا تھا پر اسے مسجد جانے کی خواہش بڑی تھی۔ مطیع نے کیتھرین کو اسلام قبول کرنے کو تو نہ کہا البتہ اس نے اس سے یہ کا م چھوڑنے کو کہا۔ کیتھرین نے خوشی خوشی کام چھوڑ دیا مگر غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے گھروں میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ حاجی فضل اللہ کے ہاں ایک کام والی کی ضرورت کے پیشِ نظر مطیع نے اپنی بیوی کے لیے بات کی۔ وہ خوشی خوشی راضی ہو گئے، لیکن جب وہاں کیتھرین نے اپنا نام بتا یا تو گھر والوں نے مطیع کو خوب لتاڑا کہ تم نے اسے مسلمان کیوں نہیں کیا۔ کیتھرین مطیع کے عشق میں پاگل تھی۔ اسے اسلام قبول کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔ اب اس کا نام طاہرہ رکھا گیا۔ حاجی فضل اللہ کا گھرانہ اس نیک کام پر بہت خوش تھا۔ پہلے روز انہوں نے طاہرہ سے کوئی کام نہ کروایا۔ بلکہ طاہرہ کی فرمائش پر چھوٹی بہو نے اسے اپنے ساتھ نما ز کے لیے کھڑا بھی کیا اور ایک دو آیات بھی رٹائیں۔

طاہرہ حاجی فضل اللہ کے گھرانے کے اخلاق سے بہت متاثر تھی رات بھر وہ مطیع کو ان کے اخلاق کے قصے سناتی رہی۔ طاہرہ کو وہاں کام کرتے تین ہی روز ہو ئے تھے کہ گھر والوں کو معلوم ہو گیا کہ وہ پہلے بھنگن تھی۔ گھر والوں کو الٹیاں لگ گئیں انہوں نے ان سارے نجس برتنوں کو جن میں طاہرہ نے ہاتھ لگا یا تھا اٹھا کر باہر پھینک دیے اور مطیع کو بھی خوب سنائیں اور اسے بھی گھر سے نکال دیا جاتے جاتے وہ جاء نماز بھی مطیع کو گفٹ کر دی جس پر اس بھنگن نے نماز پڑھی تھی۔

مطیع نے اپنا سارا غصہ طاہرہ پر نکالا کہ اس کی وجہ سے وہ اتنے اچھے گھرانے سے نکا لا گیا۔ روزانہ کی چخ چخ اور مار کٹائی سے تنگ آکر طاہرہ نے مطیع کو چھوڑ دیا۔
اب طاہرہ دوبارہ کیتھرین ہے اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ صفائی کر کے لوگوں کا آدھا ایمان مکمل کرتی ہے۔ اور مطیع، فضل اللہ کی بخشی ہوئی جاء نماز پر اپنی قضا نمازیں ادا کرتا ہے اور شام کو ایک مسجد کے باہر بھیک مانگتا ہے۔

مگر ایسی کیا مشکل ہے ہاتھ پھیلانے میں ایسی کیا قباحت ہے۔ کیتھرین اور اس کے بہن بھا ئی اگر مسجد کے باہر کھڑے ہو جائیں تو کون ان سے پوچھے گا پہلے کیا کرتے تھے۔ اور پھر اگر یہ ساری بھنگی بھکاری بن گئے تو ہو سکتا ہے معاملہ الٹ جائے اور وہ ایک دن اونچے پائینچوں والی ٹانگوں کو پا ئینچے مزید اونچا کیے گٹر صاف کرتے دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).