کیا نئے ملک بنیں گے؟


پہلے سکاٹ لینڈ میں علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم ہوا مگر ناکامی ہوئی۔ حال ہی میں دنیا کے دو مختلف مقامات پر اسی معاملے بارے ریفرنڈم ہوئے۔ ایک کردستان کی آزادی سے متعلق عراقی کردستان میں۔ یاد رہے کردوں کی زیادہ آبادی والےعلاقے ترکی، ایران اور شام میں بھی ہیں، جغرافیائی طور پر ملحق مگر سیاسی لحاظ سے علیحدہ۔ عراقی کردستان میں ہوئے ریفرنڈم میں تقریباً 87 فیصد آبادی نے آزاد ریاست کے قیام کے حق میں رائے دی۔ عراقی حکومت نے اس ریفرنڈم کو تسلیم نہیں کیا۔ امریکہ نے بھی اس کی حمایت نہیں کی۔ صرف فرانس کے نو منتخب صدر نے کہا کہ کردستان کے لوگوں کو ان کا جائز حق دیا جائے۔ ماضی میں کردستان نام کا کوئی ملک نقشے پر کبھی موجود نہیں رہا۔

سب سے حالیہ ریفرنڈم قتلانیہ (کاتالونیا) میں ہوا ہے جو سپین کا شمال مشرقی حصہ ہے۔ جغرافیائی طور پر اس خطے کا کچھ حصہ جنوبی فرانس میں بھی واقع ہے۔ پندرھویں صدی میں وسیع تر ہسپانوی بادشاہت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اس خطے کے شہزادے نے یہاں کا پرچم، فوج وغیرہ برقرار رکھے تھے مگر بادشاہت کے استقرار کی خاطر اپنے حصے کی مالی امداد بادشاہت کو بھی فراہم کیا کرتا تھا۔ آج بھی کاتالونیا کو خاصی خودمختاری حاصل ہے۔ مگر ریفرنڈم کے دوران وفاقی حکومت نے جس طرح اس عمل کو روکنے کے لیے جابرانہ اقدام لیے وہ موجودہ یورپ کے انسانی حقوق کے چہرے پر سرعام طمانچہ رسید کیے جانے کے مترادف ہے۔ ان متشددانہ کارروائیوں کی یورپ بھر کے حکام نے مذمت کی ہے۔

مقصد سکاٹ لینڈ، کردستان اور کاتالونیہ کی تاریخ جغرافیہ دہرانا نہیں اگرچہ یہ دونوں اہم ہوتے ہیں بلکہ مقصد یہ اندازہ لگانا ہے کہ کیا نئے ملک دنیا کے نقشے پر ابھر سکتے ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ آزادی کے لیے جنگیں لڑنے کا دور لد چکا ہے؟ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیسے، جواب بہت سادہ ہے کہ اب دنیا دو کیمپوں میں نہیں بٹی ہوئی۔ جب امریکہ کے مقابلے میں سوویت یونین تھا اور نیٹو کے مقابلے میں معاہدہ وارسا تب آزادی خواہ جنگجووں اور آزادی سے انکار کرنے والی حکومتوں دونوں کا ہی کوئی نہ کوئی حلیف ہوا کرتا تھا۔ آج نہ تو دو متوازی معاشی سیاسی بلاک موجود ہیں اور نہ ہی دو فوجی کیمپ۔ اب ہے تو صرف نظام سرمایہ داری اور نیٹو نام کا واحد عسکری بلاک۔ اگر امریکہ یورپ چاہیں تو وہ نیٹو کی مدد سے کہیں بھی کچھ کروا سکتے ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، یمن اور شام اس کی مثالیں ہیں۔ اس سے پہلے گذشتہ دو اڑھائی دہائیوں کے دوران یوگوسلاویہ کے ٹکڑے کیے جانے، پھر سربیا سے کوسووو کو علیحدہ کروائے جانے، انڈونیشیا کے جزیرے تیمر میں مشرقی تیمر نام کی ریاست بنائے جانے اور سوڈان کے ایک حصے کو علیحدہ عیسائی ریاست بنوائے جانے کے اعمال بھی کوئی اتنے زیادہ پرانے قصے نہیں ہیں۔ ان سب علیحدگیوں اور آزادیوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ یورپ اور کہیں نیٹو کی بھی حمایت حاصل رہی۔

آزادی خواہی کی خاطر مسلح جدوجہد کو اب دہشت گردی اور کئی جگہ بین الاقوامی دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے مگر خانہ جنگی کروانے اور کسی حکومت کا تختہ الٹے جانے کی غرض سے اپنے طور پر پیدا کردہ حزب مخالف یا علیحدگی و آزادی خواہ گروہوں کو خفی یا عیاں طور پر اسلحے اور وسائل کی صورت میں امداد بھی فراہم کی جاتی ہے۔ چاہے اس سے انکار کیا جاتا رہے لیکن اس کے دستاویزی شواہد موجود ہیں۔

اب تو خبر کا میدان بھی مستند نہیں رہا۔ بدنام تو صرف گوئبلز ہے مگر اب غلط اطلاعات فراہم کیا جانا باقاعدہ ایک علیحدہ شعبہ بن چکا ہے۔ غلط اطلاعات فراہم کیے جانے سے سب انکار کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے کا بھانڈا بھی پھوڑے جاتے ہیں یا کم از کم بدنام کیے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا غلط اطلاعات پھیلائے جانے کا سب سے بڑا ذریعہ قرار پایا ہے۔ سوشل میڈیا کے موثر ہو جانے کے سبب بیشتر اوقات موقر خبر رساں ایجنسیاں بھی غلط خبروں کو درست خیال کرکے یا غلط جانتے ہوئے بھی خاص مقصد کے تحت لوگوں تک پہنچانے میں ممد ہوتی ہیں۔ یہ بھی غلط نہیں کہ درست خبریں پہنچانے کا بھی سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہی ہے مگر اس میں تجربہ کار صحافیوں خاص طور پر رپورٹروں کا شدید فقدان ہے۔

مذکورہ ریفرنڈموں سے متعلق اطلاعات، ان کے نتائج اور ان کے دوران ہوئے واقعات سے متعلق خبریں مین سٹریم میڈیا سے پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچیں۔ تاہم اب عوام کا پلہ جتنا بھی بھاری کیوں نہ ہو، متعلقہ ملکوں کے طاقت سے وابستہ اداروں کے عمال اور ملک کے حکام کا پلہ پھر بھی بھاری رہتا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح حکومتوں کو ننگا ضرور کیا جا سکتا ہے جیسے عراق کے حکام اور ہسپانیہ کے حکام کے نام نہاد جمہوری رویوں کا پول کھولا گیا ہے۔

آزادی خواہی کی وجوہ میں کسی حکومت کا ایک خاص خطے کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جانا، خطے کے وسائل کو لوٹا جانا، وہاں کے وسائل تک مقامی لوگوں کی دسترس کو روکا یا کم کیا جانا، کسی خطے کے بیشتر مالی وسائل سے ناجائز طور پر فائڈہ اٹھایا جانا یا کھلے بندوں اینٹھنا یا اس خطے کے مسائل سے پہلوتہی کیا جانا یا خطے کا کم و بیش نظر انداز کیا جانا شامل ہوتی ہیں۔ اگر کسی خطے کے لوگ ان جائز وجوہات کا تدارک نہ کیے جانے کی بنیاد پر علیحدہ ہونا چاہیں تو انسانی حوالوں سے یہ ان کا حق ہے البتہ منسلک ملکی تزویری وجوہ کے سبب حکومتوں کا علیحدگی کو روکنے کا عمل تب جائز کہلا سکتا ہے جب وہ وہاں کے لوگوں کی عمومی شکایات کا عملی طور پر ازالہ کرتی دکھائی دیں بصورت دیگر وہ اپنے معاندانہ رویے کا جواز پیش نہیں کر سکتیں۔

یوں لگتا ہے کہ کردستان اگر ایک علیحدہ ملک بن بھی جائے تو بھی اس کی راہ میں بہت رکاوٹیں ہوں گی اور اگر ایسا نہ ہو سکے تب بھی مسائل کا جلد ازالہ ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ کاتالونیا کا معاملہ مختلف ہے۔ وہاں کے لوگوں نے آزادی حاصل کرنے کی غرض سے خالصتاً جمہوری انداز اپنایا ہے مگر وفاقی حکومت مستقبل قریب میں ایسا کرنے نہیں دے گی اور نہ ہی متحدہ یورپ کسی ایسے عمل کی حمایت کر سکتا ہے کیونکہ اس طرح ہر طرف علیحدہ ہونے کی رو چل پڑے گی۔ قومیت یا بہتر معیشت یا بدتر حالت کی بنیاد پر یورپ کے ہر ملک میں اختلافات کو شدید کرنے کی راہ کھل جائے گی چنانچہ لگتا نہیں ہے کہ اب نئے ملک بن پائیں۔

کردستان کا ریفرنڈم عراق سمیت متعلقہ چاروں ملکوں کو دھمکی ہے جبکہ کاتالونیہ کا ریفرنڈم ”پنڈورا باکس“ کھل جانے کا خطرہ ثابت ہوا ہے۔ لگتا ہے سپین کی حکومت غیر مستحکم ہونے کو ہے۔ ماریانو راہوئے کی حکومت جا سکتی ہے اگرچہ انہوں نے ایک عرصہ یورپی یونین کے ڈھانچے کا حصہ رہنے کی بنا پرسخت رویہ روا رکھنے سے متعلق یورپ کے متعلقہ حکام کی آراء ضرور لی ہوں گی لیکن عمال نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونا دکھانے کی غرض سے کچھ زیادہ ہی سختی کر دکھائی جس کا خمیازہ سپین کے وزیر اعظم کو بھگتنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).