طوطے والی سرکار


تصّدق سہیل کے انتقال کی خبر سن کر مجھے ان کے چہرے کی معصومیت اور بچّوں کی طرح کھلکھلا کر ہنس پڑنے کی عادت سب سے پہلے یاد آرہی ہے۔ ’’میں مرنے والا نہیں ہوں۔‘‘ وہ اپنی موت کے بارے میں اسی اطمینان کے ساتھ بات کرتے۔ ’’یہ سب لوگ اس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ میں کب مرجائوں۔ مگر میں پہلے ان کو قبروں میں اتار کر جائوں گا۔‘‘ وہ ان لوگوں کے بارے میں کہتے جن کو اپنا دشمن تصوّر کر لیا تھا۔ وہ لندن میں رہتے تھے تو رات کے وقت باہر نکل کر جنگلی لومڑیوں کے لیے گوشت ڈالا کرتے تھے۔ اس اولڈ ہوم کے چند ایک مکینوں نے اعتراض کیا تو تصدّق سہیل نے ان کو دشمن بنا لیا۔ ان کو دیکھ کر بڑبڑاتے اور منھ ہی مُنھ میں جانے کیا کیا کہتے۔ پھر یہ ہوا کہ وہ بوڑھے مرنے لگے۔ تصدق صاحب نے لومڑیوں کو گوشت کھلانے کا کام اسی طرح جاری رکھا۔

مجھے نہیں اندازہ کہ ان کی بددعا میں کتنا اثر تھا۔ بس وہ اتنا ہی جادو جانتے تھے جو ان کے رنگوں میں تھا اور جس کی پرواز ان کے تخیّل میں تھی۔ وہ زندگی کی تخلیقی سرشاری کے امین تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کو لوگوں سے شکایت بہت جلدی ہو جاتی تھی۔ مختلف آرٹ ڈیلرز کے بارے میں کہتے کہ یہ میرے مرنے کا انتظار کررہے ہیں اس لیے تاکہ میری تصویریں کی قیمتیں بڑھا دیں۔ تصویروں کی قیمتیں ویسے بھی کم تو نہ تھیں اور ان میں سے کئی آرٹ ڈیلرز ان ہی کی بدولت اس مقام تک پہنچے تھے۔ ’’ان کو میں نے ڈیلر بنا دیا ورنہ یہ تو معمولی فریم والے تھے۔۔۔‘‘ وہ خود ہی ان کا بھانڈا پھوڑ دیتے تھے۔

یہ ناراضی تھوڑی دیر رہتی۔ ان کی غیرموجودگی میں ان کو بُرا بھلا کہنے کے بعد تصدّق سہیل اور باتوں میں لگ جاتے۔ پھر تھوڑی دیر میں بھول جاتے کہ وہ کس سے ناراض ہیں اور کس وجہ سے۔ ان کو باتیں کرنے کا شوق تھا اور جن لوگوں کے بارے میں دل چسپ واقعات سنایا کرتے، ان میں سرفہرست وہ خود تھے، اپنی کہانیوں کے ہیرو۔ ایسا ہیرو جس کے کارنامے اور فتوحات کسی طرح کم نہ ہوتے۔ کم ہوتے بھی تو کیسے، اصل میں تو وہ داستان کے ہیرو تھے۔

یوں تو وہ ایسی کسی زمانی تفریق سے ماورا تھے لیکن اگر پرانے زمانوں میں ہوتے تو داستان گو ہوتے۔ ان کو کہانی سے ایک فطری مناسبت سی تھے۔ وہ بتایا کرتے تھے__ کہانی کے انداز میں__ کہ کم عمری میں کراچی آگئے تھے اور اسلامیہ کالج میں پڑھا کرتے تھے جہاں ان کے استاد محمد حسن عسکری تھے۔ وہ ٹی ہائوس اور مختلف جگہوں پر گھومتے رہتے اور ساری چیزیں لاکر عسکری صاحب کو سنایا کرتے۔ عسکری صاحب نے ان سے کہا، تم قصّہ گو ہو۔ وہ ترقی پسندوں کے بارے میں خبریں جمع کرکے عسکری صاحب کو سنایا کرتے تھے۔ ویسے خود بھی ان کی دوستی ترقی پسندوں سے تھی۔ لندن میں ممتاز حسین سے ملاقاتوں کا حال سنایا کرتے۔ ممتاز حسین کا ایک پورٹریٹ بھی بنایا تھا لیکن شاید خود ممتاز صاحب یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ان کا چہرہ اس طرح کا ہونا چاہیے۔ تو اس میں مصّور کا بھلا کیا قصور؟

پھر تصدّق سہیل افسانے لکھنے لگے۔ کراچی کے نیم ادبی پرچوں میں شائع بھی ہوئے لیکن وہ رسالے گم ہو گئے۔ ان کا کوئی رکارڈ محفوظ نہیں رہا۔ ’’فنون‘‘ کے ایک شمارے میں ان کی کہانی شائع ہوئی تھی۔ اس کی عکسی نقل میں نے لے جا کر دی تو بہت خوش ہوئے۔ جو افسانے بچ رہے تھے یا بعد میں لکھے گئے ان کا ایک مجموعہ بھی شائع کر دیا۔ چند کہانیاں چھوٹی چھوٹی کتابوں کی شکل میں چھپوا دیں جن کے سرورق خود ڈیزائن کیے تھے اس لیے بہت اچھے تھے۔

ان کی افسانہ نگاری کے اصل جوہر تو ان کی تصویروں میں کھلے۔ وہ تصویر بھی بناتے تھے تو افسانہ لکھتے تھے۔ ہر تصویر میں ایک کہانی نہیں بلکہ وہ تو ایسی تصویریں بناتے تھے جن کے مختلف ٹکڑے ہوتے اور ہر ٹکڑے میں زندگی کا عمل جاری ہوتا۔ ایک کہانی میں بہت سی کہانیاں۔ ان کا ایک مخصوص انداز ان تصویروں میں نظر آتا ہے جن کو الگ الگ ٹکڑوں کے ایک سلسلے کے طور پر بنایا۔ ان میں سے ہر ٹکڑا اپنی جگہ الگ تصویر تھا، اپنے رنگوں کا حامل۔ ’’آپ کی یہ تصویریں افسانوں کے پورے پورے مجموعے ہیں۔‘‘ میں ان سے کہنا تو وہ جواب میں ہنس پڑتے۔ ایسی باتوں کا ان کے پاس ایک یہی جواب تھا۔

تصویریں بنانا انھوں نے لندن میں شروع کیا۔ افسانے لکھتے لکھتے لندن جا پہنچے اور لڑکیوں سے دوستی کرنے کی غرض سے مصوّری باقاعدہ شروع کر دی۔ مہ رُخوں کے واسطے مصوّری سیکھنے پر غالب کا شعر پڑھا کرتے تھے کہ یہ ترکیب غالب سے سیکھی۔ مہ رُخوں کے واسطے کا نام انھوں نے اپنی خود نوشت سوانح عمری کے لیے منتخب کیا۔ اس کتاب کا کچھ حصہ لکھ ڈالا پھر مکمل نہیں کیا اور جو لکھا اس میں واقعات کا انداز کچھ ایسا تھا کہ کتاب مکمل ہو بھی جاتی تو شاید چھپنا مشکل ہوتا۔ یا پھر کاسانووا کے واقعات کی طرح چھپ چھپا کر ہاتھوں ہاتھ تقسیم ہوتی۔ ایک بار تصویروں میں رواں ہوگئے تو پھر تصویروں کی کمی رہی نہ لڑکیوں کی۔ پھر یہ سلسلے دراز ہوتے گئے اور تصویروں کے رنگ اور خطوط بہت پُختہ ہوگئے۔

لندن سے جی اُکتایا تو وہ کراچی آجاتے، علی امام کی گیلری میں نمائش لگاتے اور وہیں قیام کرتے۔ 1980ء کی دہائی میں اسی گیلری میں ان سے بارہا ملاقات ہوئی اور دونوں جانب سے کم آمیزی کے باوجود میری ان سے دوستی ہوگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں وہ علی امام صاحب سے بھی ناراض ہو گئے تھے۔ معاملہ وہی تصویروں کی فروخت کا تھا۔ مگر وہ ایک عرصے تک علی امام کی گیلری میں نمائش لگاتے رہے اور یہ گیلری کراچی میں ان کا مُستقر بنی رہی۔ پھر ایک آدھ بار لندن میں ملاقات رہی۔ وہاں میں نے ان کی تصویریں تو نہیں دیکھیں مگر اس خاتون یا خواتین کی برائی سنی جہاں وہ رہتے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ تصویریں وہاں چھوڑ کر اور داستانیں اپنے ساتھ لے کر وہ کراچی آگئے۔

تصدّق سہیل سے میری گپ شپ اس دور میں سب سے زیادہ رہی ہے جب وہ توحید کمرشل ایریا کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ اس کے نیچے ایک مشہور ریستوراں تھا جس کی شہرت کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ملنے کی جگہ تھی۔ یہی بات تصدّق سہیل اپنا پتہ سمجھاتے وقت بتایا کرتے تھے۔ مختصر سا فلیٹ جس میں طوطے، بلّیاں زیادہ تھے، ایک کونے میں ذرا مُختصر سے تصدق سہیل اور ایزل پر لگی تصویریں جن کے رنگ دیکھتے ہی دیکھتے بدل جاتے۔

اس فلیٹ کا دروازہ مشکل سے کُھلتا اور اس کے لیے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا یا ہر بار کوئی حربہ اختیار کرنا پڑتا۔ ’’آ رہا ہوں!‘‘ تصدق صاحب کو میرے آنے کی خبر ہوتی تو وہ گھنٹی کی آواز پر بڑے زور سے آواز لگاتے۔ دروازہ کُھلتے ہی وہ مخصوص بو جو کسی ہند جگہ بہت سے جانوروں کی وجہ سے آنے لگتی ہے۔ ان کے کمرے میں ہر جگہ تصویریں رکھی رہتی تھیں جو تکمیل کے مختلف مراحل میں تھیں۔ ’’ان کو ہٹا کر بیٹھ جائیے۔‘‘ وہ تصویروں کی طرف اشارہ کر دیتے۔ ایک اور کمرے میں خالی ایزل حجم کے حساب سے ترتیب وار رکھے ہوئے تھے۔ خالی اور سپاٹ‘ اپنے رنگوں کے انتظارمیں۔

تصدق کا زیادہ تر وقت وہیں گزرتا۔ کھانا بھی وہیں منگوا لیتے تھے۔ زندگی کا انداز بوہیمین کے بعد درویشانہ ہوگیا تھا۔ جاگنے کا زیادہ وقت وہ تصویریں بنانے میں گزارتے یا پھر اپنے معمولات میں جن کی حیرت انگیز تفصیل وہ دل چسپ انداز میں سنایا کرتے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ صبح کے تین چار بجے اٹھ کر چیلوں کو گوشت کھلایا کرتے۔ ان کے لیے وہ قصائی سے کلیجی، گردے اور دل خرید لایا کرتے اور اس میں سے ہڈیاں نکال لیتے تاکہ چیلوں کو کھانے میں آسانی ہو۔ باقی گوشت وہ سڑک کی بلیّوں کو ڈال دیتے اور پھر واپس آکر تصویر بنانے میں جُٹ جاتے۔ ’’یہ وقت witching hour کہلاتا ہے۔‘‘ وہ مجھے بتایا کرتے تھے۔ چڑیلیں اور جادوگریناں اسی وقت نکلا کرتی ہیں۔

بھوکی چیلوں کے علاوہ ان کو دل چسپی لڑکیوں سے تھی۔ ’’آپ لولیتا کے صفحات سے نکل کر بھاگے ہیں!‘‘ میں ان سے کہتا۔ مگر وہ اس میدان میں کسی نابوکوف سے کیا کم تھے۔ ایک ناول کیا، ان کے لیے کئی ناول کم پڑتے۔ اور پھر بھی کوئی ان واقعات پر یقین نہیں کرتا۔ کالج کے زمانے کا میرا ایک ساتھی اس محلّے میں پریکٹس کرتا ہے اور تصدّق صاحب کبھی کبھار اس کے پاس چیک اپ کرانے جاتے۔ ’’یہ سب کیسے کر لیتے ہیں؟‘‘ اس نے ایک دفعہ مجھ سے بڑے تعجّب کے ساتھ پوچھا۔ لیکن ایسے سوالوں کا جواب خود تصدّق صاحب ہی دے سکتے تھے۔

اور وہ بتانے سے باز بھی نہیں آتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ ادیب کو ان سے ملوانے کے لیے لے کر گیا تو تصدق صاحب نے چھوٹتے ہی ویاگرا کے فائدے گنوانے شروع کر دیے اور اس کے استعمال کا مشورہ دے ڈالا۔ بزرگ ادیب نے میری طرف دیکھا اور کہا، بھئی چلو دیر ہو رہی ہے۔

اپنے تجربات کے علاوہ وہ قصّے کہانیوں کی خوب باتیں کرتے۔ انھوں نے ایک دفعہ سے زیادہ کہا، وہ چاہتے تھے کہ آرائش محفل اور طوطے کی کہانیوں کے عمدہ ایڈیشن تیار ہوں اور وہ ان کو السٹریٹ کریں۔ ایک مرتبہ یہ پروگرام بنایا کہ طلسم ہوش ربا کے حُجرہ ہائے ہفت بلا کو میں آسان زبان میں لکھ ڈالوں اور وہ ان کو مصّور کریں۔ کچھ اسی زمانے میں انھوں نے میڈوسا کی تصویر بنائی جس کے بال سانپوں کی طرح پھنکارتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں انھوں نے کچھ شباہت ایک خاتون سے بھی رکھ دی جن سے اپنی پرانی ناراضگی انھیں یاد آ گئی تھی۔

انتظار حسین سے ان کی پرانی دوستی تھی۔ ان کے مجموعوں کے سرورق بھی بنائے مگر یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھا۔ میں نے بھی دو ایک کتابوں کے سرورق فرمائش کرکے بنوائے مگر جو نتیجہ برآمد ہوا وہ کتاب سے زیادہ مصوّر کے اپنے مزاج سے قریب تھا۔

جس سے خوش ہو جاتے ان کے کہنے پر تصویریں بنا دیا کرتے۔ کراچی کے ایک مال دار شخص نے ان کو باقاعدہ کمیشن کر کے ایسی خاص تصویریں بنوائیں جو لاطینی قصّے سیٹائریکون یا اجنتا کے غاروں میں بھی رکھی جا سکتی تھیں۔ ایک اور صاحب کے کہنے پر ہرن کی کھال پر ایسی تصویر بنائی جس میں ہرن سے زیادہ تنو مند اعضاء اس شبیہہ کے تھے جو کھال پر ابھرآئی تھی۔ اسی دوران انھوں نے گھر کے سامنے والے تندور میں کام کرنے والے اس لڑکے کے کہنے پر اس کی تصویر بنا ڈالی جو ان کے لیے گرم روٹیاں لے کر آتا تھا۔ لڑکے نے جلد ہی وہ تصویر فروخت کر ڈالی ورنہ تندور پر تصویر کا کیا کام تھا۔ اسی طرح ایک آرٹ ڈیلر سے خوش ہوئے تو اس کے چھوٹے سے بچّے کو طوطے کی ایسی تصویر بنا دی جو بس دیکھتے رہ جائیے۔ میں نے اس تصویر میں دل چسپی دکھائی تو انھوں نے مجھے روک دیا۔ ’’ان سے ایک اور طوطا بنوا لیں۔‘‘ میری بیگم نے فرمائش کی تو انھوں نے طوطے کے ساتھ دو عدد مینائیں بھی بٹھا دیں۔ طوطا دب گیا، وہ پہلے والے طوطے کی بات نہ آسکی۔ پھر یہ تصویر ایک رسالے میں شائع ہوئی تو اس کا نسخہ انھوں نے سنبھال کر رکھ لیا اور مجھ سے کہا، اس سے پہلے کہ طوطا اُڑ جائے اسے لے جائو۔

ان کے گھر تک صدیق مجھے لے جایا کرتا تھا مگر وہ ان کا نام سمجھنے میں غلطی کردیتا تھا۔ ’’یہ آپ کے دوست صرف تصویریں بناتے ہیں، اور کچھ نہیں کرتے؟‘‘ وہ بار بار یہی ایک بات پوچھتا۔ ’’اس تصویر کا مطلب کیا ہے؟‘‘ اس نے طوطے کی تصویر والا رسالہ دیکھ کر پوچھا اور جب میرا جواب اس کے پلّے نہیں پڑا تو اس نے ’’طوطے والی سرکار‘‘کہنا شروع کر دیا۔ یہ نام سُن کر تصدّق صاحب نے اپنی پسندیدگی کا یہ صرف اعلان کر ڈالا بلکہ اس کی تصویر بنانے کی پیشکش بھی کر دی۔ مگر صدیق طوطا نہ بن سکا۔

چند دوستوں کے علاوہ وہ زیادہ ملنے ملانے کے قائل نہیں تھے اور الگ تھلگ زندگی گزارتے رہے۔ لیکن کراچی میں وہ ایک طویل عرصے تک خوش رہے اور تخلیقی طور پر فعّال۔ اس شہر میں ان کو جابجا جل پریاں نظر آتی تھیں اور کبھی کبھار پچھل پیری بھی دکھائی دی۔ پچھل پیری کی ضرورت پوری کرنا ان کو معلوم تھا مگر جل پری دیکھ کر بے تاب ہو جاتے تھے۔ 2008ء میں ان کی ایک نمائش کے بعد باتصویر کیٹلاگ شائع ہوا تو انھوں نے میرے لیے دستخط کرتے ہوئے لکھا: ’’آصف فرّخی کے لیے جو مجھ سے جل پریوں کی کہانیاں سُنتے رہتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ کہتے تھے اس شہر میں ہر طرف جل پریاں گھومتی رہتی ہیں۔ اسی زمانے میں انھوں نے میرا پورٹریٹ بنایا، پورٹریٹ کیا ایک چہرے میں کئی چہرے۔ انھوں نے میرے افسانوں میں میرے اصل خدوخال پڑھ لیے تھے اور تصویر کے اندر بہت سے چہرے اور ہر چہرہ بوڑھا۔ انھوں نے مجھے پہچان لیا تھا۔ اب مجھے اپنی باقی ماندہ عمر میں اس تصویر کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ تصدّق سہیل کی تصویر کے بعد اب میرا کام بس اتنا رہ گیا ہے کہ اس کے مطابق بن جائوں۔

تصدّق سہیل حُسن کی روایتی نزاکت کے قائل نہیں تھے، ان کی تصویروں میں رنگ بولتے تھے۔ ہر رنگ کو کتنے ہی لہجے عطا کر دیتے تھے۔ ان تصویروں کی دلکشی اپنی جگہ مگر مجھے ان کی وہ تصویریں خاص طور پر مسحور کرتی تھیں جہاں خوف اور ہیبت کے عناصر ان شبیہوں میں شامل ہو جاتے تھے۔ ان کی یہ تصویریں بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے تھے۔ چند ایک تصویریں میں نے حاصل کر لیں تو وہ مجھے خاص طور پر اطلاع دیا کرتے تھے کہ تصویر تیار ہو رہی ہے، آپ کے مطلب کی ہے۔ میں نے ایک بار سوچا کہ ان تصویروں کے بارے میں تفصیل سے لکھا جائے۔ تصدّق صاحب کو یہ خیال بہت پسند آیا اور انھوں نے ارادہ کر لیا کہ اس طرح کی تصویریں اور بھی بنائیں گے۔ لیکن ان کے اسلوب کے اس پہلو پر قلم اٹھانے کے لیے امبرتو ایچو کا سا قلم چاہیے۔ وہ کہاں سے آئے گا؟

امریکا میں مقیم ایک ماہر فن، تجزیہ نگار کی توجہ میں نے اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی۔ وہ پاکستان آئے تو ہم تصدق صاحب سے ملنے گئے۔ وہ حسب عادت مل کر بہت خوش ہوئے اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ لیکن انھوں نے یہ کہہ کر میرے تجزیہ نگار دوست کو چت کر دیا کہ انھوں نے نہ اپنی تصویروں کی فہرست کبھی بنائی نہ کوئی رکارڈ رکھا۔ انھیں تو ان تصویروں کی صحیح تعداد کا اندازہ بھی نہیں۔ وہ تصویریں بنانے میں اتنے مشغول رہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کام کی ضرورت سمجھی نہ فرصت فراہم ہوئی۔ ان کو غرض تھا تو بس تصویر سے۔

دین دھرم ہو یا کوئی اور معاملہ، تصدّق سہیل کا مسلک یہ تھا کہ وہ بلا کے ہٹ دھرم تھے۔ مگر بعض دفعہ بچّوں کی طرح مان جایا کرتے تھے۔ آنکھوں کی تکلیف حد سے بڑھنے لگی تو ڈاکٹر کا نام تجویز کیا، مان کے نہ دیے۔ جب رنگ ملانے میں مشکل بڑھ گئی تو ایک دن حجّت کیے بغیر میرے ساتھ چلے گئے۔ معائنے کے بعد ڈاکٹر نے ان کو آئندہ علاج کے لیے سمجھانا شروع کیا تو ڈاکٹر کو سمجھانے لگے آپ کے کلینک میں گُل جی کی جو تصاویر لگی ہوئی ہیں، وہ معمولی نوعیت کی ہیں۔ ان کو ہٹوا دیجیے۔ اسی طرح ایک مرتبہ ’’ڈان‘‘ اخبار کے نام پر پکڑے گئے اور میرے ساتھ گفتگو کے لیے تیار ہوگئے۔فہیم صدیقی جیسا ماہر فوٹو گرافر تصویر کھینچنے آیا تو تصدق سہیل جیسے خود تصویر بن گئے۔ تصویریں کھینچتی رہیں اور ان کا دل نہ بھرا۔ پھر ایزل کے سامنے کھڑے ہو کر تصویر کھنچوائی اور اپنی مخصوص جگہ آکر ٹک گئے۔ میرے بہت کہنے سننے پر تیار ہوگئے کہ آرٹس کونسل جائیں جہاں انھیں اعزازی تاحیات رکنیت کی پیش کش کی جارہی تھی۔ میں نے citation تیار کیا تو بچوں کی طرح خوش ہو گئے اور اسٹیج پر جا کر چپ چاپ بیٹھ گئے۔ وہ بولتے خوب تھے مگر ان کو چپ چاپ بھی رہنا آتا تھا۔ یہ بھی ان کے فن کا حصّہ تھا۔ وہ تمام غیرضروری چیزوں کو زندگی سے منہا کرکے دیکھ سکتے تھے۔

اس دوران شہر کی سڑکوں پر جل پریوں کے علاوہ ٹھگ بھی گھوم رہے تھے۔ تصدق سہیل پہلے ہی سے ان نام نہاد آرٹ ڈیلرز کے ہاتھوں تنگ تھے جو ان کی ادھوری تصویریں بھی اٹھا کر لے جاتے تھے اور ان کو اتنے پیسے بھی نہیں دیتے تھے کہ چیلوں کے گوشت کا خرچ نکل سکے۔ کچھ لوگوں نے ٹیلی فون پر دھمکیاں دیں اور گھر میں گھسنے کی کوشش کی۔ چناں چہ تصدّق صاحب دروازہ کھولتے تھے نہ فون اٹھاتے تھے۔ دوستوں سے رابطے کٹ گئے۔ ایک نیم مذہبی نیم سیاسی شخصیت کے زیرہدایت کام کرنے والے گروہ نے ان کے فلیٹ میں گھس کر قبضہ کر لیا۔ تصدّق صاحب کو عافیت اسی میں نظر آئی کہ ایک مداح کے ایماء پر تھائی لینڈ چلے جائیں۔ طویل قیام کے بعد واپس آئے تو انھوں نے مجھے اطلاع دی کہ ’’دنیا ہی میں جنّت دیکھ لی۔ جو چیز درکار تھی وہ بہت افراط سے تھی۔‘‘ وہ دیر تک خوش ہوتے رہے۔ پھر اس کے بعد انھوں نے طے کر لیا کہ اسلام آباد چلے جائیں گے اور وہاں نئے سرے سے رابطے قائم کریں گے، نیا کام کریں گے۔ وہ نیا کام تو کرتے رہے مگر ان سے ملنے اور گپ شپ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ آخری بار کراچی آئے تو اس طرح کے بے ہوشی کی حالت میں ایئرایمبولینس میں لائے گئے اور سیدھے اسپتال کے انتہائی نگہداشت شعبے میں پہنچا دیے گئے۔ شاید انھوں نے اپنی آخری منزل اور تدفین کے لیے بھی اسی شہر کا انتخاب کرلیا تھا۔

اس عالم میں ہوش ہو یا نہ ہو، وہ جل پریوں سے دور کیسے رہتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).