پاکستان کی بقا کا راستہ اوکاڑہ سے نکلتا ہے


میں نے پچھلے دنوں دو کالم پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے بارے میں لکھے اور اُن کے ساتھ متصبانہ سلوک بیان کیا۔ وہ کالم لکھتے وقت میں سوچ رہی تھی کہ 27-28 سال پہلے جب میں پاکستان میں رہتی تھی تو حالات ایسے نہیں تھے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہتے تھے۔یہ درست ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اُن کے معاش کے حوالے سے غلط ناموں سے پکارتے ہیں مگر یہ ایک گروپ کیلئے نہیں ۔ ہم دوسروں کو نائی، ڈھوم، مراثی، لوہار، تھرکان (ترکھان) کہہ کر نیچا دکھاتے ہیں۔ شاید دوسروں کی ’’اوقات‘‘ بتانے میں ہماری کسی خاص حس کی تسکین ہوتی ہے۔ میرے کچھ دوستوں نے میرے کالم پڑھ کر کمنٹس دئیے کہ وہ تو اب بھی اپنے گائوں میں کرسچن کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔

اس حوالے سے ایک  دوست شعیب اکبر نے فاروق طارق کی وڈیو شیئر کی۔ فاروق طارق کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ اس وڈیو میں ایک جرنلسٹ افتخار جگا نامی شخص کا انٹرویو لے رہا ہے۔ یہ انٹرویو 2 نومبر 2015 کو لیا گیا۔ انٹرویو لینے والا افتخار جگا سے پوچھتا ہے ’’افتخار صاحب! آپ اوکاڑہ یونین کونسل نمبر38سے ابھی ابھی چیئرمین منتخب ہوئے ہیں ایک ایسی یونین کونسل سے جہاں 20فیصد کرسچن اور 80فیصد مسلم ہیں تو کیسے ہو گیا کہ ایک بڑی تعداد جہاں مسلمانوں کی تھی اُنہوں نے کرسچن کو اپنا ایک چیئرمین مقرر کر لیا ‘‘۔

افتخار جگا نے جواب دیا کہ جس علاقے میں وہ رہتے ہیں وہاں لوگ پیار محبت سے رہتے ہیں۔ اُن کے ایک دوسرے سے فیملی تعلقات ہیں۔ الیکشن کے دوران اُنہیں برابر کا پیار ملا اور اُنہیں ووٹ دے کر کامیاب کیا گیا۔ افتخار جگا نے اپنی کمیونٹی کو باقی پاکستان کیلئے رول ماڈل قرار دیا اور کہا کہ سب کو اُن کی طرح مل جل کر، پیارمحبت سے رہنا چاہیے۔

افتخار جگا نے بتایا کہ اُنہیں انجمنِ مزارعین پنجاب نے نامزد کیا ہے۔ جس کے لیڈر مہر عبدالستار ہیں جو کہ 15 سال سے اُن لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ انٹرویو لینے والا مہر عبدالستار سے پوچھتا ہے کہ یہ اَن ہونی بات کیسے ہوگئی۔ عبدالستار نے کہا کہ اس تنظیم کو بنانے میں دونوں مذاہب کے لوگوں نے حصہ لیا ہے اور قیادت کی ہے۔ دونوں نے جان و مال کی قربانی دی ہے، جبرو تشدد سہا ہے۔ ماضی میں اس کمیونٹی کو مذہبی تفریق پر تقسیم کرنے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کو مذہبی تفریق کی بنیاد پر نہیں دیکھتے۔ یہ انٹرویو دیکھ کر میرا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ افتخار جگا اور مہر عبدالستار ہماری قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں اور روشن اور روادار پاکستان کا مستقبل ہیں۔ مجھے البتہ یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ان کو مرکزی میڈیا نے پروموٹ کیوں نہیں کیا۔ میں نے سوچا کہ پاکستانی ریاست کو اس کمیونٹی کی زریں مثال پوری دنیا کے سامنے پیش کرنی چاہیے تاکہ پاکستان اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی وجہ سے دنیا میں ہونے والی بدنامی کا ازالہ کر سکے۔

مجھے یہ انٹرویو اتنا اچھا لگا کہ میں نے اسے محفوظ کر لیا۔ میں نے کچھ دن کے بعد اسے دوبارہ دیکھا تو مجھے عبدالستار کی شکل جانی پہچانی لگی۔ میں نے زیادہ غور کیا تو مجھے یاد آیا کہ یہ تصویر میں نے محمد حنیف کے 26اگست کے کالم ’مہر ستار اور نواز شریف ‘‘میں دیکھی ہے۔ اس کالم میں بتایا گیا ہے کہ مہر عبدالستار کو پوری دنیا میں ایک روشن مثال کے طور پر پیش کرنے کی بجائے اُس کو دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ اپریل 2016 سے جیل میں ہے جہاں اُس کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر رکھا گیا ہے۔ اُس کی بیڑیاں حال ہی میں اتاری گئی ہیں۔ وہ جیل کے حالات اور تشدد کی وجہ سے اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ اُس کے ساتھ دوسرے مزارع رہنما ندیم اشرف، نور نبی اور ملک سلیم جھکڑ کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ عبدالستار کو پچھلے سولہ سالوں میں چھتیس مقدموں میں پھنسایا گیا ہے۔ وہ ایک مقدمے سے بری ہوتا ہے تو اگلے مقدمے میں دھر لیا جاتا ہے۔ اس بار انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی مشہور وکیل عاصمہ جہانگیر اُس کی وکالت کریں گی۔

میں نے پھر مہر عبدالستار کی ان باتوں پر غور کیا کہ انجمن مزارعین نے قربانیاں دی ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ 2004 میں امریکہ میں ہمارے بہت سارے دوستوں نے مل کر اوکاڑہ کے مزارعین پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ چونکہ اُنہوں نے ان زمینوں کو آباد کیا ہے لہٰذا ان زمینوں پر ان کا حق ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت ہیومن رائٹس واچ کی 24جولائی 2004 کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ اوکاڑہ کے مزارعین پر بہت تشدد کیا جا رہا ہے۔ اُن کے بچوں اور عورتوں پر بھی تشدد کیا جاتا ہے۔ اُن کے گائوں کا باقاعدہ محاصرہ کر کے لوگوں کو دوائیاں اور خوراک کی سپلائی کے حصول سے روکا جاتا ہے۔ یہاں پر سات افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ ایک اور ذرائع کے مطابق 11 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے گائوں کے 30 بچوں سے انٹرویو لے کر بچوں پر ہونے والے تشدد کی تصدیق کی ہے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا ہے کہ اوکاڑہ کے اس گائوں کے مزارعین وہاں کی زمینوں پر اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی تفصیلی رپورٹ آن لائن موجود ہے۔ ان مزارعین کے اوپر تشدد ابھی جاری ہے۔ تین دن پہلے 29 ستمبر 2017ء کو دو مزارعین عدنان اور حاجی سرور کے مکئی کے کھیتوں پر جیپیں چلا کر اُنہیں تباہ کر دیا گیا کیونکہ یہ دونوں مہر عبدالستار کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ محنت سے تیار کردہ ان فصلوں کی تباہی سے دونوں خاندانوں کو فاقہ کشی کا سامنا ہے۔

مہر ستار جیل جانے سے پہلے اور بعد

ان غریب ہم وطنوں پر تشدد کیوں ہو رہا ہے؟ یہ صرف اوکاڑہ کے ایک گائوں میں نہیں ہو رہا، سندھ بلوچستان کے بارڈر کے قریب مبارک نامی ایک گائوں میں غریب مچھیروں کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک ہوا۔ ان کو پہلے اُن کے گائوں میں آزادانہ پھرنے سے روکا گیا پھر اُن کو وہاں گھر بنانے سے منع کیا گیا اور پھر اُن کو وہاں سے نکا ل دیا گیا۔ چونکہ وہ بہت غریب تھے اس لیے عدالت نہ جا سکے۔ کراچی کے قریب یونس آباد گاوں کی زمین جہاں گاوں والوں نے اپنے بیماروں کو کشتی میں ہسپتال لے جانے کے لیے جیٹی بنائی ہوئی تھی کو بھی قبضے میں لے لیا گیا۔ بہاول پور کی تحصیل نواز آباد میں سینکڑوں بے زمین مزارعوں کو نکال دیا گیا۔ اُن کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر اُنہوں نے عدالت کا رخ کیا تو اُن کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ اس گائوں کی ایک عورت نے رو رو کر کہا کہ اُن کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے تو حکومت اُن کو ٹرک پر بٹھا کر انڈیا چھوڑ آئے۔ ان حالات میں صرف اوکاڑہ کے مزارعین نے اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔

پاکستان کے مطالبے میں مسلمانوں کی کمزور معاشی حالت کارفرما تھی۔ مسلم لیگ کو خدشہ تھا کہ مسلمان ہندو اکثریت میں رہ کر اپنی معاشی حالت درست نہ کر پائیں گے۔ انگریزوں کے زمانے میں انگریز حکومت اپنے وفادار فوجیوں اور دوسرے لوگوں میں زمینیں تقسیم کرتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد یہ زمینیں مزارعوں میں تقسیم نہیں کی گئیں۔ اس وجہ سے ہاریوں اور مزارعوں کی معاشی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اُن کا اُسی طرح استحصال ہو رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ سرکاری زمینیں ابھی بھی انگریزوں کے رواج کے مطابق اداروں میں ہی تقسیم ہو رہی ہیں۔ اس میں شہری اور زرعی زمینیں بھی شامل ہیں۔ ایک آدھ مکان کم قیمت پر یا ٹیکس کی سہولت کے ساتھ دینے کی تو سمجھ آتی ہے مگر زرعی زمینوں کی ایکڑوں اور مربوں کے حساب سے ایک ادارے کے آفیسرز میں تقسیم کا نہ صرف کوئی جواز نہیں بنتا بلکہ یہ اُن ہاریوں اور مزارعوں کے ساتھ انتہا درجے کی ناانصافی ہے جو نسل در نسل ان زمینوں پر کام کر کے ملک کو خوراک مہیا کر رہے ہیں۔ 2004 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ بے زمین مزارعے ہیں۔ مگر کچھ اداروں کے پاس 12 ملین ایکڑ زمین ہے۔ (گزشتہ برسوں میں اس اراضی میں مزید اضافہ ہوا ہے)۔ اس زمین پر پلازے، گالف کورسز، کمرشل پلاٹ اور ہائوسنگ سکیمیں بنتی ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کی زرعی زمینوں کی تعداد میں کمی آ گئی ہے۔ غالباً جلد ہی پاکستان اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث غذائی قلت کا شکار ہو جائے گا۔

کھاریاں، جہلم، لاہور، پنڈی، کوئٹہ اور کراچی سمیت ہر شہر میں شہری سرکاری زمینیں صرف ایک یا دو اداروں میں تقسیم ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے غریب جھگیوں میں رہتے ہیں۔ کیا اس پاکستان پر ان کا حق نہیں ہے؟

پاکستان کے سیاست دانوں کو مزارعین سے ناانصافی کا اچھی طرح علم ہے اسی لیے آصف علی زرداری اور نواز شریف سمیت سب نے اوکاڑہ کے مزارعین کو وہ زمینیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ مگر یہ معاملہ ان کے اختیار میں نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ جب اوکاڑہ میں مزارعین کے گائوں کا محاصرہ ہو رہا تھا اور اُن کی عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا جا رہا تھا تو وہ لوگ کدھر تھے جو دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر تشدد ہونے کے واقعہ پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اُن کی غیرت اپنے ہم وطنوں پر ہونے والے مظالم پر کیوں نہیں جاگتی۔

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ زرعی زمینیں مزارعوں اور ہاریوں میں تقسیم کی جائیں۔ پہلے سے تقسیم شدہ زرعی زمینوں کو واپس لیا جائے۔ مزارعوں کو پانی کی سہولت اور آسان قسطوں پر زرعی آلات مہیا کیے جائیں۔ شہری سرکاری زمینوں پر بنائے جانے والے پلازوں،ہائوسنگ سکیموں اور گالف کورسز سے ہونے والے منافع کو جھگیوں والوں کی حالت بہتر بنانے میں لگایا جائے۔ اس کے علاوہ اس کو تعلیم، صحت، فیملی پلانگ کے بجٹ میں استعمال کیا جائے۔ کسی ادارے کو سرکاری زمینیں بخشنے کی روایت ختم کی جائے۔ اس ضمن میں قانون سازی ہونی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اس بِل کو پوری قوم کی حمایت حاصل ہو گی۔

مہر عبدالستار اور دوسرے مزارعین رہنمائوں کو فوراً رہا کیا جائے اور اُن پر بنائے جھوٹے مقدمات کو ختم کیا جائے۔ عدنان اور حاجی سرور کے کھیتوں کو تباہ کرنے والوں کو سزا دی جائے اور اُن سے اُن کھیتوں کا پور ا معاوضہ لے کر عدنان اور حاجی سرور کو دیا جائے۔ مہر عبدالستار اور افتخار جگا کی اور ان کے سارے گاوں کی مذہبی رواداری کی مثال کو پوری دنیا میں پیش کیا جائے کہ یہ دراصل پاکستان کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُس اکثریت کی جس کو یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی اور سر پر چھت مہیا کریں۔ وہ لڑائی جھگڑوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے کرسچن، ہندو، سکھ،شعیہ، سنی،وہابی، بریلوی ہمسائے کے ساتھ مل جل کر امن وامان سے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

میں محمد حنیف کے کالم سے مکمل اتفاق کرتی ہوں کہ مہر عبدالستار اور نواز شریف کے کیسز میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ مہرعبدالستار کو 36 مقدموں میں الجھایا گیا اور نواز شریف کو دھرنوں اور دیگر مقدمات میں الجھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے گھرانوں کو مقدمات میں پھنسا کر دبائو میں اضافہ کیا گیا ہے۔ میری نواز شریف سے درخواست ہے کہ وہ اوکاڑہ، بہاول پور کی تحصیل نواز آباد اور مبارک گائوں کے مزارعین، ہاریوں اور مچھیروں اور جھگیوں والوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں۔ اگر وہ پاکستان کیلئے لڑنا چاہتے ہیں تو پاکستان کے پسے ہوئے، استحصال زدہ نچلے طبقے کے لوگوں کیلئے لڑنے سے اس جدوجہد کا آغاز کریں۔ کہ پاکستان کی بقا کا راستہ اسلام آباد سے نہیں، اوکاڑہ کے گائوں سے نکلتا ہے۔

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi