حافظ سعید کا بوجھ


زبان پہلے بے ادب ہوئی تھی اب گستاخ ہونے لگی ہے۔ جس دن ڈان اخبار نے یہ رپورٹ کیا کہ سویلین سیاستدانوں نے جنرلوں سے دبے لفظوں میں پوچھا کہ حافظ سعید کا کیا کرنا ہے۔ اسی دن حکمران جماعت کے ایک ایم این اے نے کہا کہ حافظ سعید ہمارے لیے کون سے انڈے دیتے ہیں کہ ہم پوری دنیا کو جواب دیتے پھریں۔

یہ تو اچھا ہوا کہ ہمارا میڈیا اور ہمارے مقتدر ادارے اس گستاخی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، استعفے ہوئے، کمیشن بنے، کوئی مودی کا یار ٹہرا تو کوئی خاندانی غدار۔
اور اب ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پوری دنیا کے سامنے، کیمرے پر آ کر کہا کہ حافظ سعید پاکستان پر بوجھ ہیں۔ انہوں نے کچھ دوسرے گروہوں کے نام بھی لیے لیکن واللہ کل تک تو ہم ان گروہوں کے وجود سے انکاری تھے۔

لیکن حافظ سعید تو ہمارے ساتھ کی جم پل ہیں۔ اس دھرتی کے سپوت ہیں اور پوری دنیا میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ جب ہمسایہ ملک انہیں دہشتگرد کہتا ہے تو ہمارے دلوں سے نعرہ تکبیر کی صدا بلند ہوتی ہے۔ جب ہمارا سابق اتحادی ان کے سر پر 10 ملین کا انعام رکھتا ہے تو ہم اسے سینے کا تمغہ سمجھتے ہیں اور پوری قوم ان کے گرد سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ہم ایک روایتی اور سفاک معاشرہ ہیں جہاں بیواؤں، معذوروں اور گھر کے بزرگوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ آخری مرتبہ ہم نے حافظ سعید کی تصویر دیکھی تو وہ مریدکے میں گھوڑے پر سوار تھے اور یقیناً کشمیر یا فلسطین یا چیچنیا کو آزاد کروانے کے لیے عازم سفر تھے۔ پاکستان کا مجاہد اول اس قوم کے لیے بوجھ کیسے ہو گیا۔
یہ تو حافظ سعید کی شریف النفسی ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ قوم پر بوجھ نہیں ہیں بلکہ یہ قوم ان پر بوجھ ہے۔ آخر انہوں نے کب سے اس قوم کی دفاعی پالیسی کا آدھا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔

یہ حافظ سعید کی شرافت ہے کہ انہوں نے یہ سب کہنے کے بجائے خواجہ صاحب پر دس کروڑ کا ہتک عزت کا دعوی کیا ہے۔ اس پر بھی قوم پوچھتی ہے کہ صرف دس کروڑ؟ اس سے دس گنا رقم کی تو امریکہ آپ کے سر کی سلامی پیش کرنے کو تیار ہے۔

خواجہ آصف جو حافظ سعید کو بوجھ ثابت کرنے پر تلے ہیں وزیر خارجہ بننے سے پہلے وزیر دفاع ہوا کرتے تھے۔ ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ اصل میں وزیر دفاع اس وقت تک تقریباً اہل وزیراعظم نواز شریف ہوتے تھے۔ سپریم کورٹ نے مسنگ پرسنز کے کیس میں حکم جاری کیا کیونکہ دفاعی اداروں کے اہلکار عدالت میں پیش ہونے سے انکاری ہیں تو وزیر دفاع خود پیش ہوں۔ نواز شریف کو زعم تھا کہ وزیراعظم عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا (چلیں ہنسی آ رہی ہے تو ہنس لیجیے) انہوں نے خواجہ آصف کو وزیر دفاع بنایا جو فوراً عدالت عظمٰی میں پیش ہوئے اور ڈانٹ کھانے کے بعد مسنگ پرسنز یا انہیں مسنگ بنانے والے اہلکاوں کو ڈھونڈنے کے بجائے سیدھے کراچی پریس کلب پہنچے جہاں بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین نے احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔ انہیں پیشکش کی کہ وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں اور وہ ٹرین کا کرایہ خود دینے کو تیار ہیں۔

لگتا ہے کہ اب وزیر خارجہ بن کر بھی خواجہ آصف کی جیب میں صرف ٹرین کا کرایہ ہے لیکن انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ٹرین سٹیشن سے کب کی نکل چکی۔
حافظ سعید کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر چلنے والے اور ان کو بوجھ قرار دینے والے سب اس بات پر متفق ہیں کہ حافظ سعید اور ان کے مجاہدین نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا، نہ کبھی ہماری مسجد پر حملہ کیا، نہ ہمارے سکولوں میں گھس کر ہمارے بچوں کو شہید کیا، نہ کبھی جی ایچ کیو پر وار کیا بلکہ اگر کبھی اس طرف گئے بھی ہوں گے تو ایک معزز لیکن با ادب مہمان کے طور پر۔
دشمن ملک کہتا ہے کہ انہوں نے مُمبئی میں کچھ کیا تو ہم یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اول تو کچھ کیا ہی نہیں اور اگر کیا تو تمھارے پاس ثبوت کیا ہے؟

معترضین یہ ضرور کہیں گے اور انہیں یہ کہنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھنا چاہیے کہ جناب آپ نے اگر نہ ملک کے اندر جہاد کیا نہ ملک کے باہر جہاد کیا تو پھر آپ کرتے کیا ہیں۔ کیا آپ کا واحد مشن مسلم امہ میں گھڑ سواری کے ذوق کو بیدار کرنا ہے؟
یہ جہلا کبھی نہیں مانیں گے کہ حافظ سعید نے اس قوم کو جو درس دیا وہ یہ ہے کہ جہاد کرنا اور پھر جہاد کر کے مکر جانا ہی سب سے بڑا جہاد ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا یہی ہماری قومی دفاعی پالیسی نہیں ہے۔

اتنی خدمات کے باوجود اپنوں کے ہاتھوں ہتک اور اس پر دعویٰ بھی صرف دس کروڑ کا؟ اتنے میں تو ڈیفنس میں دو چھوٹے پلاٹ بھی نہیں آتے۔
اس غبی قوم کو حساب کتاب کی کم سمجھ ہے۔ اس نے بڑی گنتی بھی صرف دشمن ملک کی فلمیں دیکھ کر سیکھی ہے جس میں ہر سودا، ہر فراڈ، ہر رشوت ہزاروں کروڑوں میں ہوتی ہے۔
حافظ سعید کو چاہیے تھا کم از کم دس کروڑ ارب کھرب کا دعویٰ کرتے تو دشمن ملک پر بھی دھاک بیٹھتی اور خواجہ آصف کو بھی پتہ چلتا کہ ان کی دفتر خارجہ کی ٹرین اصل میں کون چلا رہا ہے۔
Oct 3, 2017 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).