خاندانی حاکمیت یا جمہوریت کی فتح


سابق وزیر اعظم نواز شریف کو آج مسلم لیگ (ن) کی پارٹی جنرل کونسل کے پر جوش اجلاس میں ایک بار پھر متفقہ طور پر صدر منتخب کرلیا گیا۔ اس موقع پر اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں کئی سو مسلم لیگی کارکن جمع تھے اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت مسلم لیگ (ن) کی تمام اعلیٰ قیادت موجود تھی۔ ایک بار پھر صدر بننے کے بعد نواز شریف نے اعلان کیا کہ ’مجھے بار بار باہر نکالا جاتا ہے لیکن آپ لوگ مجھے پھر واپس لے آتے ہیں۔ ‘ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ آج اس کالے قانون کا خاتمہ ہوگیا ہے جو سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے انہیں سیاست سے باہر نکالنے کے لئے نافذ کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں اپنی واضح اکثریت کی بنیاد پر اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود کل انتخابی اصلاحات بل 2017 منظور کرلیا تھا جس پر رات کو ہی صدر ممنون حسین نے دستخظ کرکے اسے قانون کی شکل دے دی تھی۔ اس طرح قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل ہونے کے باوجودنواز شریف ایک بار پھر اپنی ہی پارٹی کے دوبارہ صدر بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس عمل نے مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی سیاست اور مستقبل میں ان کے رول کے بارے میں متعدد سوالوں کو جنم دیا ہے۔ حکمران جماعت اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کررہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس طرح جمہوریت کے استحکام کے لئے ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے۔ تاہم سیاسی مخالفین اسے ایک بد عنوان سیاست دان اور اس کے زیر اثر پارٹی کی زور ذبردستی قرار دیتے ہوئے انتخابی اصلاحات بل کی منظوری اور نواز شریف کی سیاست میں واپسی کو ملک میں جمہوریت کے لئے بری خبر قرار دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے 28 جولائی کو نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا تھا جس کے نتیجہ میں انہیں وزارت عظمیٰ اور پارٹی کی صدارت کو چھوڑنا پڑا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے لیڈر کو واپس پارٹی کا قائد بنانے کے لئے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کروایا ہے جس میں سے وہ شق نکال دی گئی ہے جس کے تحت کوئی نااہل شخص کسی پارٹی کا صدر نہیں بن سکتا۔ اسی لئے اپوزیشن اس قانون کو ایک شخص کو سیاست میں واپس لانے کی سازش قرار دے رہی ہے۔ مبصرین یہ تجزیے کررہے ہیں کہ اس طرح پارٹی پر ایک خاندان کی بالادستی قائم رکھنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اپوزیشن کے پاس سینیٹ میں اس بل کو مسترد کرنے کا موقع موجود تھا کیوں کہ مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے تاہم اپوزیشن کے بیشتر ارکان اس موقع پر موجود نہیں تھے جس کی بنا پر یہ بل صرف ایک ووٹ کی برتری سے منظور کروالیا گیا۔ یہ بات واضح ہونے کے بعد کہ انتخابی اصلاحات کے زیر نظر قانون کی وجہ سے نواز شریف دوبارہ پارٹی کی قیادت سنبھال سکیں گے، اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں اس بل کے خلاف ہنگامہ کھڑا کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن مسلم لیگ (ن) اکثریت کی بنیاد پر آسانی سے یہ قانون منظور کروانے میں کامیاب ہوگئی۔ اب سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف پیٹیشن دائر کردی گئی ہے اور استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کو آئن سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کردے ۔ درخواست گزار کا کہنا کہ سپریم کورٹ نے ہی نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے کیوں کہ اس کے مطابق وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ اس لئے ایک ایسے شخص کو سیاسی عہدہ پر فائز کرنے والا قانون آئن سے متصادم ہے۔

نواز شریف نے اپنی پارٹی کا دوبارہ صدر بننے کے بعد واضح کیا ہے کہ وہ سیاست کو خیر آباد کہنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اس طرح تجزیہ نگاروں کے خیال میں انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنی ہزیمت کا کسی حد تک بدلہ لے لیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم ہونے والے مقدمات میں نواز شریف کے علاوہ ان کے سارے بچے ملوث ہیں اور انہیں ایک طویل قانونی جنگ کا سامنا کرنا ہے۔ یہ قیاس کیا جاتا رہا ہے کہ نواز شریف کو ایک غیر متعلقہ معاملہ یعنی متحدہ عرب امارات کا اقامہ لینے کے لئے اپنے ہی بیٹے کی کمپنی میں عہدہ قبول کرنے اور اس کی تنخواہ وصول نہ کرنے کے جرم میں نااہل قرار دیا گیا تھا، اس لئے اس فیصلہ کو ملک کی طاقور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ فوج اور عدلیہ کے اس ’گٹھ جوڑ ‘ کے بارے میں شبہات عام ہونے کی وجہ سے اس معاملہ میں نواز شریف کو ملک میں جمہوریت کی جنگ میں مزاحمت کرنے والے کا کردار سونپا جارہا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے اپنی اہلیہ کی عیادت کے لئے لندن چلے جانے کے باوجود پاکستان واپس آکر اور احتساب عدالت میں پیش ہو کر یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اگرچہ ان مقدمات کو اپنے خلاف انتقامی کارروائی سمجھتے ہیں لیکن قانون کی بالادستی کے لئے وہ عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔

یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر نواز شریف دوبارہ طویل عرصہ کے لئے بیرون ملک روانہ نہ ہو ئے اور انہوں نے ملک میں رہ کر پارٹی کو منظم کیا اور سیاسی جد و جہد جاری رکھی تو شدید مشکلات اور اہم ترین اداروں کی مخالفت کے باوجود وہ سیاسی طور پر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوگا کہ وہ اپنی پارٹی کو کس حد تک متحد رکھ سکتے ہیں اور آئیندہ انتخابات تک بلکہ اس سے بھی پہلے سینیٹ کے انتخابات تک اگر مسلم (ن) میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں اور نواز شریف 2018 کے انتخابات میں قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے تو ان کی سیاسی حیثیت بھی کم ہو جائے گی اور وقت کے ساتھ وہ ملکی معاملات میں بھی غیر متعلق ہو جائیں گے۔ اس خیال کو سامنے لانے والوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اکثر اراکین اسمبلی اسٹیبلشمنٹ کی تائد و حمایت کی بنیاد پر ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں یا سیاسی وابستگی اختیار کرتے ہیں۔ اس لئے آخری داؤ کھیلنے کا موقع اب بھی ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے ہی پاس ہے۔ وہ جب چاہے گی مسلم لیگ (ن) میں توڑ پھوڑ کے ذریعے کسی بھی پسندیدہ پارٹی کو آگے لانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔ یہی تاثر اس وقت نواز شریف کے لئے ملک کے جمہوریت نواز حلقوں کی تائد و حمایت کا سبب بھی بنا ہؤا ہے۔

مسلم لیگ کے زعما کی بلند بانگ باتوں اور نواز شریف کی طرف سے اس اعلان کے باوجود کہ نااہل کرنے کا فیصلہ صرف عوام ہی کرسکتے ہیں اور وہ 2018 کے انتخابات میں ہی ہوگا، ملک کے سیاسی پنڈت انتخابی قانون میں ترمیم اور اس کے ذریعے پارٹی کی قیادت پھر سے سنبھالنے کے عمل کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔ تاہم یہ وہ عناصر ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ ملک کے اہم سیاسی فیصلے فوج ہی کرتی ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کسی انتخاب میں کسی سیاسی پارٹی کے لئے واضح اکثریت حاصل کرنا اور حکومت قائم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو لوگ یہ سمجھتے ہیں یا امید کرتے ہیں کہ ملک کے عوام میں سیاسی شعور بیدار ہو رہا ہے اور بدلتے ہوئے قومی اور عالمی حالات میں عوامی فیصلوں کی اہمیت میں اضافہ ہؤا ہے ، انہیں امید ہے کہ نواز شریف کی مقبولیت ملک میں جمہوری روایت کو مضبوط کرنے کا سبب بنے گی اور اسٹیبلشمنٹ کو اب اپنے پرانے ہتھکنڈے ترک کرنے پڑیں گے۔

نواز شریف کے دوبارہ مسلم لیگ (ن) کا صدر بننے کے بعد یہ اعتراض بھی سامنے آرہا ہے کہ اس طرح ایک بار پھر ملک کی ایک اہم سیاسی پارٹی میں ایک شخص اور خاندان کو اہمیت دی گئی ہے۔ نواز شریف کو سنگین الزامات کا سامنا ہے اور سپریم کورٹ ان کے بارے میں شدید شبہات کا اظہار کرچکی ہے۔ اس لئے احتساب عدالتوں سے بری ہوئے بغیر انہیں پارٹی کی قیادت کا کام دوسرے لوگوں کو سونپ دینا چاہئے تھا۔ اس حوالے سے یہ اعتراض بھی موجود ہے کہ کرپشن کے الزامات کو سیاسی معاملہ بنانے سے نہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہوگی اور نہ ہی عوام کی بہبود کا راستہ ہموار ہو سکے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی پاکستانی سیاست کا سچ ہے کہ یہاں بیشتر سیاسی پارٹیاں شخصیت ہی کی بنیاد پر کام کرتی ہیں۔ ووٹر بھی کسی حلقے کے امید وار کی صلاحیت یا پارٹی منشور کی بجائے اس پارٹی کے لیڈر سے اپنی وابستگی اور چاہت ہی کی وجہ سے اسے ووٹ دیتے ہیں اور کامیاب کرواتے ہیں۔ اس جمہوری کلچر میں نواز شریف کو عوام کے ایک بڑے طبقہ کی حمایت حاصل ہے۔ اس بات کا اعتراف تو نواز شریف کے دشمن بھی کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی کامیابی اور مقبولیت کا سہرا نواز شریف کے سر ہی باندھا جا سکتا ہے۔ اسی لئے ابھی تک انہیں اپنے سیاسی ساتھیوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لئے سیاسی لیڈروں کے کردار کا شفاف ہونا اہم ہے۔ پاکستان میں ابھی تک کوئی ایسا نظام استوار نہیں ہو سکا ہے جس میں سیاست دان اپنے سیاسی فیصلوں اور ذاتی کردار کے لئے جوابدہ قرار دیئے جا سکیں۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ سیاست میں فوج کی مداخلت بھی ہے۔ جمہوریت کے حامیوں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ وہ عوامی انتخاب کے عمل میں سامنے آنے والے مشکوک کردار کے لوگوں کی حمایت کریں یا ایسے اداروں اور عناصر کی من مانی کو قبول کریں جنہیں ملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں ہے۔ ملک میں فوج نے چار بار سیاست دانوں کا احتساب کرنے کے نام پر حکومت سنبھالی لیکن ہر فوجی دور میں انہی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر اپنی حکومت کو طول دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ فوج اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے احتساب کا کوئی شفاف اور قابل قبول نظام بھی سامنے نہیں آسکا ہے۔ اس لئے یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ احتساب کا طوق صرف سیاست دانوں کے گلے میں ہی کیوں ڈالا جاتا ہے۔

ایسی صورت میں موجودہ ناقص جمہوری نظام کو بہتر بنانے کے لئے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ غیر سیاسی عناصر کو سیاست میں مداخلت کا حق نہ دیاجائے۔ ملک میں ایک بار یہ اصول مروج ہو گیا تو بدعنوان سیاست دانوں اور سیاست میں خاندانی تسلط کے خلاف کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ تاہم اگر فوج اور عدالتیں اپنی رائے مسلط کرنے کے لئے ملک کے معاملات چلانے کا حق جمہوری لیڈروں چھینتی رہیں تو معاشی اور جمہوری اصلاح کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا ۔ ملک میں جمہوریت کے بارے میں تو شبہات میں اضافہ ہوگا لیکن اب تک بادشاہ گری میں ملوث ادارے بھی بے توقیر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali