برصغیر میں مسلمانوں کا محسن۔ سرسید احمد خان


برصغیر اور بعد از تقسیم برصغیر پاکستان میں اردو ادب کی روایت شاہانہ ماضی کی حامل رہی ہے، اور شاعری، مرثیہ نویسی، افسانہ و ناول نگاری، ڈرامے کی صنف، آزاد نظم، سفرنامے، انشائیہ، مزاح، ہر جہت سے اردو ادب کا ماضی تخلیقی ذہانت اور علمی عرق ریزی کا حیرت انگیز مجموعہ ہے۔

آج کی نسل سمیت ہم سب اِدھر پاکستان میں منٹو، احمد ندیم قاسمی، فیض، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، مشتاق یوسفی، مختلف جہتوں کے ان تخلیق کاروں سے لے کر انتظار حسین، مجید امجد، عطاء الحق قاسمی سمیت بیسیوں ایسی ادبی شخصیات سے آگاہ ہیں جن سے اردو ادب کا دامن بجا طور پر اور فخریہ حد تک تخلیق و علم کے حیرت انگیز، خیرہ کن موتیوں سے بھرا ہوا ہے۔

ادبی جرائد کے خاص نمبروں کی روایت بھی اردو ادب کے ایسے ہی تاریخی اثاثے کی نمائندہ ہے، ابھی انہی گزشتہ سات آٹھ دہائیوں میں ہم محمد طفیل کے نقوش کے شاہکار خصوصی ادبی نمبروں کو کیسے بھول سکتے ہیں، سرکار دربار کے حوالے سے البتہ ایسے واقعات کا وجود منفرد واقعہ اور یاد کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں جیسا ہمارے ہاں، حکومت پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کے جریدے ’’ماہِ نو‘‘ کی زندہ مثال سامنے لائی جا سکتی اور موجود ہے۔

’’ماہ نو‘‘ نے وفاقی محکمہ اطلاعات کے ممتاز دانشور بیورو کریٹ جناب محمد سلیم (اب پی آئی او وفاقی محکمہ اطلاعات) نے اپنی ادارت اور نگرانی میں گزشتہ دو تین برسوں میں ’’ماہ نو‘‘ کے احمد ندیم قاسمی، جوش اور تیس سالہ انتخاب کے تین ایسے نادر و نایاب نمبروں کی تاریخی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ 2017میں ماہِ نو کے سرسید نمبر کی اشاعت سے قومی خدمت کا ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے، سرسید نمبر کو، ’’سرسید احمد خان مسلمانان برصغیر پاک دھند کے محسن اعظم کے بینر تلے مزین کیا گیا ہے!

یہ خاص نمبر برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ اور رویوں سے ہی نہیں ملت اسلامیہ کی نظریاتی اور عملی ساخت کے ایسے خلائوں کی نشاندہیوں پر بھی مشتمل ہے جس سے امت مسلمہ کےباہمی بکھرائو اور ذہنی خلجان سے پیدا شدہ ابتلائوں کے حقیقی اسباب کا مکمل ادراک ہو جاتا ہے۔

سرسید نمبر کے ابتدایئے ہی میں مسلمانوں کے تناظر میں سرسید کی ایک تحریر سے اس المیے کی نشاندہی کی گئی کہ جس میں سرسید نے کہا تھا، ’’آج ہماری قوم میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے، مذہبی تعلیمات ماہِ اکالہ کی طرح قوم کو تباہ کر رہے ہیں، ہر فرقہ دوسرے فرقہ کی جان کا، مال کا، عزت و آبرو کا دشمن ہے، پولیس ہمارے مذہبی جھگڑوں کی تحقیقات کرتے کرتے اور حاکم سزائیں دیتے دیتے تھک گئے ہیں مگر ہم لڑنے جھگڑنے کے لئے اس طرح تازہ دم ہیں، تمام قوم ہزاروں بیہودہ رسموں کی پابندی میں گرفتار ہے، اسراف و فضول خرچی ہماری قومی خصلت بن گئی ہے، صد ہا خاندان انہی فضولیات کے باعث بگڑ گئے ہیں اور بگڑتے چلے جاتے ہیں۔

کروڑ ہا روپے کی جائیداد قرضے کی ڈگریوں اور عدالت کے جھگڑوں میں غیر قوموں کے پاس منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ تعلیم کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو ہم نے الف ب پ شروع کی ہے، عورتوں کی تعلیم میں جو قومی ترقی کی جڑ ہے، ہم اب تک بالکل صفر ہیں قیادت میں گویا ہمارا کچھ حصہ ہی نہیں، دولت کو ہمارے ساتھ وہ نسبت ہے جو پانی کو چھلنی کے ساتھ ہے، لاکھوں مسلمان شہر شہر اور گائوں گائوں بھیک مانگتے پھرتے ہیں مگر ہم اس کا کچھ تدارک نہیں کرتے، ہزاروں اشراف خاندانوں کے لاوارث اور مفلس بچے آوارہ اور مطلق العنان پھرتے ہیں مگر ہم سے ان کی پرورش اور تعلیم کا کچھ انتظام نہیں ہو سکتا۔

ہماری حالت پر فی الواقع یہ مثل صادق آتی ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی؟‘‘ اور مسلمانان برصغیر پاک و ہند کے اس مصلح اعظم سرسید کی گفتگو کے اختتام پر جناب سلیم نے وہ سوال اٹھایا جس کا ’’ہاں‘‘ کے سوا کوئی جواب بنتا ہی نہیں، بن سکتا بھی نہیں، انہوں نے استفسار کیا۔ ’’آپ خدا لگتی کہیے، پاکستان کو ماشاء اللہ آج 70واں برس ہونے کو ہے، جو کچھ سرسید نے ان دنوں ہمارے حوالے سے کہا اور جو کچھ ہمارے معاشرے اور قومی حالات کا انتشار و افتراق ہے، سرسید کی اپروچ سے کتنے فیصد مختلف ہیں، شاید دس فیصد بھی نہیں، اسی لئے وہ برصغیر کی دھرتی پر مسلمانوں کے لئے ایک استثناء تھے، غالباً ان کا یہ مقام زمانے کی لوح سے شاید کبھی نہ مٹایا جا سکے؟

سرسید کی شخصیت اور افکار پر مشتمل ’’ماہ نو‘‘ کا یہ خصوصی تاریخی نمبر تقریباً ان تمام موضوعات پر محیط ہے جن سے سرسید کی شخصیت کا ابلاغ رہا یا جن سنگلاخ وادیوں میں سرسید کو جدوجہد کی آبلہ پائی کا جان لیوا سفر کرنا پڑا، مثلاً، ’’افکار سرسید کی معنویت اور عصر حاضر‘‘، ’’سرسید احمد خاں، قدامت سے جدیدیت تک کا سفر‘‘، ’’سرسید احمد خان، قدم و جدید کے دوراہے پر گامزن مسافر‘‘ ’’سرسید اور ہماری قومی شناخت‘‘، سرسید اور ’’تعلیم نسواں‘‘، ’’سرسید اور موجودہ چیلنج‘‘، ’’سرسید کی سائنٹیفک سوسائٹی، ’’برصغیر میں مسلمانوں کا نگہبان اور محافظ‘‘، ’’سرسید، ایک فکری تحریک‘‘، ’’معروضی لسانی نظریہ اور سرسید کی گروہی نفسیات‘‘، ’’مصلح اعظم‘‘، ’’محسن پاکستان‘‘، ’’سرسید، تحریک آزادی کے نامور سپاہی‘‘، ’’صحافت کی دنیا میں سرسید کا مقام‘‘، ’’سرسید، صحافت اور تہذیب الاخلاق‘‘، ’’سرسید احمد خان اور اردو صحافت‘‘، ’’سرسید کے ادبی افکار‘‘، ’’سرسید احمد خاں۔ قرۃ العین حیدر کی تحریروں کے آئینے میں‘‘، ’’سرسید کا اندازِ نظر اور ترسیل فکر کا اہتمام‘‘، ’’مکاتیب سرسید کا عمومی جائزہ‘‘، ’’محبت رسولﷺ اور سرسید احمد خاں‘‘، ’’سرسید کے مذہبی اعتقادات، اعتراضات و جوابات‘‘، ’’سفر نامہ پنجاب‘‘، ’’اسباب بغاوتِ ہند‘‘، ’’مسافرانِ لندن‘‘، ’’افسوس مسلمانوں کے حال پر‘‘، ’’تہذیب الخلاف اور اس کے اغراض و مقاصد‘‘، ’’غلاموں کی آزادی‘‘، ’’مرزا اسد اللہ خاں غالب اور سرسید‘‘، ان تحریروں میں شامل ہیں۔ ان عنوانات پر قلم اٹھانے والوں میں ڈاکٹر سید عبداللہ، محمد حمید شاہد، سعادت سعید، تنویر قیصر شاہد، فتح محمد مالک، راشد اللہ خان، مولوی عبدالحق، صغریٰ صدف، ضمیر آفاقی، امجد عقیل، حسن عسکری کاظمی جیسے ناموں کی موجودگی مرتبین کی فکری محنت و مشقت کا بہرحال ایک ثبوت ہے۔

سرسید نے مسلمانوں کے رجعت پسند، فطری قوانین سے لا علم، مذہبی شدت پسندوں، جذباتی طیش بازوں، ابن الوقت، سماجی بازیگروں اور سائنسی ارتقا کے جاہل دشمنوں کے خلاف بڑی ہی خون ریز جنگ لڑی، آدمی اس جنگ کی تفصیلات کے مطالعے سے حیرت زدہ رہ جاتا ہے، اللہ کی ہستی یہ اس کا ایمان مجسم ہو جاتا ہے، وہ سوچتا ہے، یہ مرتبہ رب عظیم کی منظوری اور اعانت کے بغیر کسی کو مل ہی نہیں سکتا، مولانا حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ کے نام سے سرسید کی ضخیم سوانح حیات لکھی ہے، ’’ماہ نو‘‘ کی اس خاص اشاعت میں ایک جگہ دیا گیا اس کا ایک پیرا گراف ملاحظہ فرمایئے:۔ ’’ہم کو اس کتاب میں اس شخص کا حال لکھنا ہے جس نے چالیس برس برابر تعصب اور جہالت کا مقابلہ کیا ہے۔ تقلید کی جڑ کاٹی ہے، بڑے علماء، مفسرین کو لتاڑا ہے۔ اماموں اور مجتہدوں سے اختلاف کیا ہے۔ قوم کے پکے پھوڑوں کو چھیڑا ہے اور ان کو کڑوی دوائیں پلائی ہیں، جس کو مذہب کے لحاظ سے ایک گروہ نے صدیق کہا ہے تو دوسرے نے زندیق کا خطاب دیا ہے اور جس کو پالیٹکس کے لحاظ سے کسی نے ٹائم سرور سمجھا ہے تو کسی نے راست باز لبرل جانا ہے‘‘۔

مولانا الطاف حسین حالیؔ کا یہ انداز نظر سرسید احمد خان کی اس نظریاتی اور عملی کشمکش کی مکمل تصویر ہے جسے ہم نے ’’سائنسی ارتقا‘‘ کے جاہل دشمنوں کیخلاف بڑی ہی خونریز جنگ کا نام دیا ہے۔ بقول شخصے:’’ لغو و لایعنی باتیںاور بے ہودہ اعتقادات کے خلاف انہوں نے پوری شدت کے ساتھ قلمی جہاد کیا اور آخری وقت تک کرتے رہے، انہوں نے ’’مذہبی دکانداری‘‘ کو کبھی جائز سمجھا اور نہ ہی کبھی ٹھیک جانا بلکہ جو کچھ کہا جو کچھ لکھا منافقت اور ریا کاری سے مبرا ہو کر لکھا، وہی کچھ جس کی گواہی ان کے ضمیر نے دی، نہ کفر کے فتوئوں کے خوف سے اس خیال کو چھپایا نہ کسی کی خوشامد کے خیال سے حق بات کا اظہار کیا، اگرچہ ان کے بعض مخصوص مذہبی اعتقادات سے بے شک اختلاف کی گنجائش موجود رہی لیکن محض اس وجہ سے ان کے خلوص اور ان کے قومی ہمدردی کے بے پناہ جذبے سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی بعض باتوں میں اختلاف کے باعث ان کو دین سے برگشتہ اور اسلام سے منحرف قرار دیا جا سکتا ہے، حضور اکرم ﷺ کی جیسی عظمت ان کے دل میں تھی شاید بڑے سے بڑے علمائے کرام کے دلوں میں بھی اتنی نہ ہو‘‘۔

سرسید نے برصغیر میں صرف مسلمانوں ہی کے لئے نہیں بلکہ افکار تازہ کے پس منظر میں مکمل حق گوئی کی جس راہ شہادت پر قدم دھرے اور پھر کبھی اس سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹے، افسوس پاکستان کے ترقی پسند اور اعتدال پسند اسلامی دانشوروں نے ان خطوط پر ایسی کوئی تحریکی اور عوامی پلیٹ فارم نہ بنایا جس کے ذریعہ پاکستان میں ہر قسم کے مذہبی یا غیر مذہبی شدت پسندوں کی سرکوبی کے لئے پاکستانیوں کو ذہناً اور عملاً شعوری غذا دی جا سکتی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).