دنیا اندھی نہیں ہے


ایوب خان بلکہ ہر آمر ہوتا ایسا ہے کہ جو سودا اس کے دماغ میں سما جائے اس کو بروئے کار لانے کے لئے ہر اقدام کر گزرتا ہے۔ چاہے جتنا مرضی تماشہ لگے۔ ایوب خان جب مطلق العنان حکمران بن بیٹھے تو انہوں نے یہ ٹھان لی کہ آمر وقت کہلانے کی بجائے اپنے آپ کو منتخب جمہوری رہنما ثابت کیا جائے۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے ایک آئینی کمیشن تشکیل دیا۔ حالانکہ سب جانتے تھے کہ اب آئین وہ ہوگا جو ایوب خان چاہے گا۔ بہرحال اس آئینی کمیشن نے ایک سوال نامہ انگریزی زبان میں جاری کیا اور بعد میں عوامی دباؤ پر اس سوالنامے کے تراجم اردو اور بنگلہ زبان میں بھی جاری کر دیے گئے کہ آئین کی بنیاد کن خطوط پر ہونی چاہیے۔

ایوب خان مطلق العنان صدارتی نظام کے خواہشمند تھے لہٰذا سرکاری سرپرستی میں پارلیمانی نظام حکومت اور سیاست دانوں کی کردار کشی کے لئے ہر حربہ اختیار کیا جا رہا تھا۔ سب جانتے تھے کہ سوالنامہ جاری کرنا ایک ڈرامے کے علاوہ کچھ نہیں اور آئین بس ایوب خان ہوں گے۔ اس موقع پر آئینی کمیشن کے سربراہ کا سوالنامہ جاری کرنے سے ایک دن پہلے بیان آیا کہ آئینی مسودہ پہلے سے تیار نہیں ہو ا۔ اس وقت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کیانی نے اپنے مخصوص طنزیہ انداز سے کمیشن کے سربراہ کا خوب مذا ق اڑایا اور پھر بعد میں وہ کھلے عام اس پر تنقید کرنے لگے۔ ایوب خان پر اس انداز میں تنقید کرنے والے وہ پہلے شخص تھے۔

جب سوال نامہ آگیا تو اس کے جواب دینے والوں میں سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی بھی شامل ہو گئے۔ ان کے جواب کا پورا متن کمیشن کو موصول ہونے سے قبل ایک انگریزی اخبار میں چھپ گیا اور سرکاری اخبار ہونے کی وجہ سے ایڈیٹرکو برطرف کیا گیا۔ چوہدری محمد علی نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ گمراہ کن دعویٰ ہے کہ ملک میں پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آئین کو منسوخ کرنے کے ذمہ دار وہی ا سکندر مرزا تھے جنہوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھایا تھا۔ ا سکندر مرزا نے یہ اقدام اس لئے کیا تھا کہ انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ مختلف سیاسی عناصر کے ساتھ جتنا جوڑ توڑ چاہے کر لیں عام انتخابات کے ذریعے ان کا دوبارہ صدر منتخب ہونا ناممکن تھا؟

اس وقت ماضی کے دریچوں کو کھولنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر جمہوری دور میں آمریت مسلط کرنے کے لئے اس جمہوری دور میں پارلیمانی نظام اور سیاسی قیادت کی کردار کشی کےلئے ہر ہتھیار استعمال کیا گیا۔ مگر اس سب کے باوجود جسٹس کیانی ہو کہ دیگر افراد وہ یکے بعد دیگرے سامنے آتے رہے اور آئین پر عمل نہ ہونے کے ذمہ دار وہی قرار پاتے رہے جنہوں نے اس کے تحفظ کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ اور آئین پر عملدرآمد نہ ہونے دینے کی وجہ بھی صرف ایک ہی سامنے آئی جو اسکندر مرزا کی تھی کہ اب سہرا ہمارے سر نہیں رہے گا۔ ٹرمپ کی تقریر، برکس اعلامیہ، سوئٹزرلینڈ میں لگے پاکستان مخالف فلیکسز اور بھارت کو جاری کردہ دعوت نامہ، ان سنگین خطرات کی جانب واضح مگر غیر مبہم اشارہ ہے کہ وطن عزیز کو مستقبل قریب میں غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان حالات میں طاقت یا سازش کے زور سے جمہوری عمل کو کمزور کرنے یا جیسے بعض سفارت کار یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی کوئی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے، پاکستان کو مزید کمزور کر دے گی۔ مرضی کے سیاسی حالات اور انتخابی نتائج کو حسب منشا تبدیل کرنے کی کوشش کامیاب ہو یا نہ ہو عالمی طاقتوں کو پاکستان کے حوالے سے تذبذب کا شکار ضرور کر دے گی۔ خاص طور پر اگر انتخابات ان حالات میں ہوئے جو NA۔ 120 میں پولنگ اسٹیشنوں کے اندر کیا جا رہا تھا۔ حالانکہ من پسند نتیجہ پھر بھی سامنے نہیں آیا۔ ایسے انتخابی عمل کو نہ ملک میں عوامی پذیرائی حاصل ہو گی اور نہ ہی دنیا کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک بین الاقوامی کانفرنس چین میں منعقد کرائی گئی۔ میں بھی اس کانفرنس میں بطور مقرر موجود تھا۔ وہاں جب گفتگو چینی کانگریس کے افراد یا دیگر مقتدر افراد سے ہوئی تو ایک معاملہ واضح طور پر محسوس ہوا کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی پر چین میں بہت تشویش پائی جاتی ہے۔ اور صرف تشویش ہی نہیں پائی جاتی بلکہ عسکریت پسندی کے خاتمے کے حوالے سے وہ پاکستان سے توقع کر رہے ہیں کہ پاکستان مزید مثبت اقدامات اٹھائے گا۔ اور اسی شش و پنج کی وجہ سے کہ حقیقتاً کیا ہو رہا ہے۔ برکس اعلامیہ بھی سامنے آیا کہ تھوڑے کو بہت سمجھا جائے۔ 28 جولائی کی سیاسی تبدیلی کو سی پیک پر اثر پڑنے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ ا س فرد کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا ہے جو سی پیک کے حوالے سے سب سے توانا آواز ہے اور ان لوگوں کی پشت پناہی کے آثار بالکل واضح ہیںجنہوں نے سفارتی آداب کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے میڈیا اور عوامی اجتماعات میں سی پیک میں کیڑے نکالے اور چینی صدر کی آمد کے حوالے سے غیر مناسب بیانات دیے۔

ایسی کیفیت کو صرف سی پیک ہی نہیں مجموعی طور پر پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانے کی جانب ایک سوچی سمجھی سازش تصور کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں تمام مؤثر افراد اور اداروں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ کیونکہ اگر برکس نوعیت کے اور معاملات بھی آگے بڑھنے لگے تو پاکستان شدید تنہائی کا شکار ہو جائے گا۔ جس سے غیر معمولی نتائج سے سابقہ پڑیگا۔ ضروری ہے کہ سیاسی قیادت اور دیگر اہم شخصیات کے مابین اختلافات کی خلیج کو پاٹنے کے لئے اقداماتکیے جائیں لیکن یہ اقدامات صرف اسی صورت میں ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں کہ عالمی برادری اور اپنے دوست ممالک کے تحفظات کو رفع کیا جائےاور یہ اسی صورت ممکن ہے جب عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).