ایسی حماقتیں ہوتی رہیں گی


ایک ہوتی ہے سازش اور ایک ہوتی ہے حماقت۔ ریاستی نظام میں جب طوائف الملوکی والی کیفیات حاوی ہوتی نظر آئیں تو یہ اکثر حماقتوں کی وجہ سے ہوتا ہے، سازشوں کی بدولت نہیں۔

کسی ٹھوس اطلاع کے بغیر نجانے کیوں میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ پیر کے روز وفاقی وزیر داخلہ کو ”ریاست کے اندر ریاست“ کے خلاف دہائی مچانا پڑی تو بنیادی وجہ اس کی وہ ہیجان اور آپادھاپی ہے جس نے ہماری ریاست کے مختلف اداروں کے مابین اختیارات کی حدود کو دھندلارکھا ہے۔ میں یہ بات تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں کہ ہماری نام نہاد Deep State میں کوئی طاقت ور شخص حکومتی وزراءاور صحافتی نمائندوں کو جان بوجھ کر احتساب عدالت کے باہر ذلیل ورسوا ہوتا دیکھنا چاہ رہا تھا۔

ٹی وی کیمروں کے اس دور میں جب رپورٹروں اور لیڈی ڈیانا کو موت کے منہ میں دھکیلنے والے پاپارازیز کے مابین فرق تیزی سے ختم ہورہا ہے، پاکستان کے تین بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوئے نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی ایک بڑا واقعہ تھا۔ 24/7چینلوں کو اس حوالے سے Exclusive درکار تھے۔ نواز شریف سے وفاداری کے اظہار کے لئے وزراءکے ایک گروہ کی موجودگی بھی احاطہ عدالت میں بہت ضروری تھی۔

ہماری انتظامیہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ اس سارے واقعہ کو Tackle کیسے کرنا ہے۔گھبراہٹ میں کسی نے ”ان“ ہی سے مدد مانگ لی ہوگی جنہیں No-Nonsenseنظم کے اظہار کے لئے اکثر طلب کیا جاتا ہے۔ ”وہ“ آتے ہیں تو معاملات کو اپنے SOPsکے تحت چلاتے ہیں۔ ”ان“ کے ہاں Confusion of Command ایک مجرمانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور امریکہ کی ایک بہت ہی مشہور یونیورسٹی کے ذہین طالب علم احسن اقبال کو ملکی سیاست میں تین دہائیاں گزارنے کے بعد اب تو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ “Civillies”چین آف کمانڈ کا حصہ تصور نہیں کئے جاتے۔

ہمارے وزیر داخلہ کے ساتھ Liveکیمروں کے روبرو جو ہوا وہ یقینا بہت بُرا ہوا۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی اشد ضروری کہ “Didn’t he ask for it”۔ 1985میں پورے نو سال تک وطن عزیز کو ایک سخت گیر مارشل لاءکے ذریعے سدھارنے کے بعد جنرل ضیاءنے جب غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرواتے ہوئے ایک وزیر اعظم کو نامزد کیا تو صاف الفاظ میں واضح کردیا کہ وہ منتخب لوگوں کو اقتدار منتقل نہیں کررہا۔ چند ریاستی معاملات میں صرف انہیں شراکت داری عنائت کی جارہی ہے۔

جونیجومرحوم انتقال اقتدار اور شراکت کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ افغان مسئلے کے حل کے لئے جنیوا معاہدہ کربیٹھے۔ اوجڑی کیمپ میں ہوئے دھماکے کی تحقیقات پر اصرار کیا اور جرنیلوں کو سوزوکی گاڑیوں میں بٹھانے کا خواب دیکھا۔ 12مئی 1988ءکو لہٰذا گھر بھیج دیئے گئے۔

جنرل ضیاءکی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد بھی جو انتخاب ہوئے تو اس کے نتیجے میں کئی برسوں سے جمہوری نظام کے لئے جدوجہد کرنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں ”ساجھے دار“ بنانے سے پہلے واضح الفاظ میں بتادیا گیا کہ وہ سول اور ملٹری اشرافیہ کی ستون جیسی علامت غلام اسحاق خان کو حکومتیں برطرف کرنے کی طاقت رکھنے والا صدر چنیں گی۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان خارجہ امور کے نگہبان ہوں گے اور معیشت کو ورلڈ بینک اور IMF کی معاونت سے چلانے کے لئے وسیم احمد جعفری جیسے بیوروکریٹ کو حتمی اختیارات حاصل ہوں گے۔ محترمہ نے کافی دیانت داری سے ان سب کے ساتھ چلنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر….
نوازشریف کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ موصوف کو اقتدار میں ”ساجھے داری“ کا تصور کبھی سمجھ ہی نہیں آیا۔ غلام اسحاق خان نے انہیں بھی محترمہ کی طرح 1993ءمیں برطرف کردیا تو 1997ءمیں ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ساتھ وزیر اعظم ہاﺅس میں لوٹ آئے۔

12اکتوبر1999ءکی فوجی مداخلت بھی انہیں سعودی عرب میں مقیم ”عدی امین“ جیسا گمنام شخص نہ بنا پائی۔ 2013ءمیں تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ ایسے ”خوش نصیب“ کو لگام ڈالنا کافی مشکل ہوجاتا ہے۔ محض دھرنے کام نہیں آتے۔

دھرنے کام نہ آئے تو اس ملک میں عدلیہ کی اہمیت اجاگر ہوگئی۔پانامہ کیس سنتے ہوئے عدلیہ ہماری ریاست کا محض ایک ستون نہیں رہی۔ بذاتہی طاقت کا ایک مظہر بھی بن چکی ہے۔ اس کے حکم پر مختلف ریاستی اداروں سے ”ہیرے“ چنے جاتے ہیں۔ یہ ”ہیرے“ اقامہ ڈھونڈلاتے ہیں اور نواز شریف نااہل ہو جاتا ہے۔

JITکے ”ہیروں“ نے جو مواد ڈھونڈا ہے اب اسی کی بنیاد پر نواز شریف کو احتساب عدالتوں کے ذریعے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ ”گاڈفادر“ اور ان کے خاندان کو ”سسیلین مافیا“ ثابت کرنا ہے۔ غالب نے کہا تھا کہ ”واقعہ سخت ہے اور جان عزیز“ اور ان دنوں وطنِ عزیز میں بہت ساری جانیں میاں محمد والے ”شکنجے“ میں پھنسی نظر آرہی ہیں۔ اپنے بچاﺅ کے لئے وہ سازشوں نہیں حماقتوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔

ایسی حماقتوں سے نجات پانے کے لئے ہمارے ہاں ”میرے عزیز ہم وطنو….“ کی صورت ایک صدری نسخہ موجود رہا ہے۔ میں دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ شاید اسے ایک بار پھر آزمالینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ مصیبت مگر یہ ہے کہ وطنِ عزیز ایران کی طرح تیل کی دولت سے مالا مال نہیں۔ شمالی کوریا کی طرح اس کی اشرافیہ امریکی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے تصور پر لعنت بھیجنے کو تیار نہیں۔ فاسٹ فوڈ اور سمارٹ فونز کی عادی ہے۔ دوبئی ، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک میں بچوں کو اپنے ہاں کی گرمی اور افراتفری سے بچانے کے لئے گھر خریدنے کی لگن میں مبتلا رہتی ہے۔ ATMاور Debit Cards اس کے Harrodsجیسی دُکانوں پر فی الفور Accept ہونا چاہیے۔ اس سب کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ آپ سے راضی رہے۔ ورلڈ بینک اور IMFآپ کے بارے میں ”خیر“ کی خبردیتے رہیں۔

جنرل ایوب، ضیاءاور مشرف اپنے ادوار میں جلوے دکھاتے رہے تو وجہ اس کی بنیادی یہ تھی کہ امریکہ کو ہم پر اعتبار تھا۔ ضیاءاور مشرف نے افغانستان کے سیزن لگائے۔ ستمبر2007ءکے بعد سے ہر امریکی حکومت مگر بضد ہے کہ افغانستان کے حوالے سے ان کے ساتھ Double Game ہوئی۔ وہ Do Moreکہتے رہے۔ ٹرمپ جیسا دیوانہ وائٹ ہاﺅس پہنچ کر یہ تقاضہ کرنے کو بھی آمادہ نہیں۔ اسے ہمارے ہاں سے مبینہSafe Havensکا صفایا درکار ہے جبکہ ہم اپنے ”اثاثوں“ کو Deradicalize کرکے Mainstream کرنے میں مصروف ہیں۔

ہمارے ملک میں قوت واختیار کا ”حتمی ڈاک خانہ“ ایک ہی ادارہ بنا ہوا نظر آیا تو دباﺅ بڑھ جائے گا۔ ہماری درآمدات کی مالیت برآمدات کے مقابلے میں تقریباََ دگنا ہوچکی ہے۔ اس تفاوت کی وجہ سے ہر ماہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سے ہر ماہ کم از کم ایک ارب ڈالر کی کمی ہورہی ہے۔ چین جو اپنا یار ہے اور جس پر جان بھی نثار ہے، اس ضمن میں Deferred Payments جیسے Instruments کے ذریعے ہماری مدد کو تیار نہیں۔ ویسے بھی غیر ملکی قرضوں کے سود اور اقساط کی ادائیگیاں ہمیں ڈالر میں کرنا ہے اور چین کے پاس ہمیں دینے کو ڈالر موجود نہیں ہیں۔

پاکستان میں قوت و اختیار کے حوالے سے صرف ایک ادارے کو ”حتمی ڈاک خانہ“ بنالینا لہٰذا گھاٹے کا سودا ثابت ہوسکتا ہے۔ قوت واختیار وطنِ عزیز میں نام نہاد منتخب حکومت،عسکری قیادت اور عدلیہ کے مابین بٹے ہی نظر آتے رہیں گے۔ ریاستی قوت پاکستان میں کسی ایک مقام پر مرکوز ہونے کی بجائے اس ریاست کے ستونوں میں بٹ کر Diffuseہوچکی ہے۔ آنے والے کئی دنوں تک لہٰذا ایسی حماقتیں ہوتی رہیں گی جیسی پیر کے دن احتساب عدالت کے باہر ہوتی نظر آئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).