بہت بھوک لگ رہی ہے


بڑی بھوک کے دن ہیں۔ پھر بھوک بھی کمال کی لگتی ہے۔ کمال تو اس وقت بھی ہوتا ہے جب پیٹ میں بلیاں اچھلیں یا چوہے کتھک رقص کریں تو ہاتھ خود بخود اوزار تھام لیتا ہے۔ اور تخلیق کار دیوانہ ہو جاتا ہے۔ دیوانگی چھلکتی ہے اور کینوس پر اُترتی ہے تو کہیں راگ کے سر کانوں میں اپنا رس گھولتے ہیں۔ کہیں جسم تباہی کا منظر نامہ پیش کرتا ہے تو کہیں قلم سے ہیرے موتی جھڑتے ہیں۔ اور کہیں آواز اپنا جادو جگاتی ہے۔ اڈیلا ایسے ہی جنون کی ایک مثال ہے۔ اسی جنون کی ایک مثال ایڈیسن بھی ہے جس نے دنیا کو روشنی دی۔ رات کی تاریکی میں آنکھ سامنے کی خوبصورتی دیکھنے کی قابل ہوئی تو کہیں نہ کہیں اندر کی خوبصورتی دیکھنے کی قابلیت بھی رکھنے لگی ہے۔ سوال کرنے کا حوصلہ بھی بڑھا ہے۔ کبھی سوال بھی ڈر کر کیا جاتا تھا۔ خیراتنے برسوں میں کچھ تو تبدیلی آنی تھی۔ سنا ہے ایک صدی بعد تو زبان کے رنگ بدل جایا کرتے ہیں۔

بھوک آخر کسے نہیں لگتی۔ کچھ لوگ کھانے کے شوقین ہوتے ہیں تو کچھ بڑے ظالم۔ لیکن بھوک تو ظالموں کو بھی لگتی ہے۔ بھوک کی بہت سی قسمیں ہیں۔ ایک بھوک غریب کی ہے۔ غریب کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ اسے اپنے بچوں کا بہتر مستقبل چاہئے۔ وہ اس لئے پیسے کی ایک حد تک بھوک رکھتا ہے۔ نیز اس کے کفن دفن کا انتظام ہو سکے۔ غریب اس سے زیادہ کچھ چاہ بھی نہیں سکتا نہ وہ اس سے آگے کا سوچتا ہے۔ 1000 میں سے کوئی ایک ضروریات سے آگے نکل کر سوچتا ہے۔ اور آگے کی سوچنے والوں میں سے 100 میں سے دو یا تین لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں۔ کامیاب…. بھوک پھر بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ اور وہ ہمیشہ رہنے والی ہے۔

دوسری بھوک پیسے کی نہیں، صرف کھانے کی بھوک ہے۔ وہ ماشاءاللہ سبھی کی پوری نہیں ہو پا رہی۔ معذرت کے ساتھ اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ کیونکہ ہم خود جہالت کا شکار ہیں۔ سامنے روشنی ہے اور ایسی بھی روشنی نہیں کہ جس سے آنکھیں چندھیا جائیں۔ مگر ہم روایات کے گھن چکر میں آگے بڑھنے سے گھبراتے ہیں۔ نتیجہ…. بھوک۔خیر بھوک تو کچھ کاہلوں کو بھی لگتی ہے۔ میری ایک جاننے والی ہیں۔ ماشاءاللہ اچھا کماتی ہیں۔ فار ایکس ٹرید میں ہیں۔ ماہانہ ایک لاکھ سے زیادہ کمائی ہے۔ مگر اس ایک لاکھ نے کبھی انہیں تازہ اور صحت مند روٹی عطا نہیں کی۔ وجہ یہ نہیں کہ وقت نہیں ہے۔ وجہ کمال کی کاہلی ہے۔ اب کون روٹی باہر سے لائے یا کون پکا کر کھائے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اپنی آمدن تو یوں بتلائی جاتی ہے جیسے ان سے زیادہ محنتی کوئی نہیں اور اپنی ہی روٹی کے لئے ایسا غریب بننا کہ دنیا بھر کے غریب ان کے سامنے پانی بھریں۔ لیکن بھوک آخر بھوک ہے۔ جب لگتی ہے تو غریب بننے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک دن میں نے انتہائی عزت و محبت سے عرض کی کے بہن ایک بٹلر ہی رکھ لیجئے۔ آپ کی کاہلی کو بھی کسی طور نقصان نہیں پہنچے گا اور آپ کے تمام مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ جواب دیتی ہیں کہ میں اپنے لئے کماتی ہوں نوکروں کے لئے نہیں۔ کیا جواب تھا۔ واہ واہ۔ میرے جیسا بندہ تو کنفیوز ہی ہو جائے گا کہ اب کیا اور کن الفاظ میں کہا جائے۔ خیر یہ ہمارا دردسر نہیں ہے۔

ایک بھوک صرف کام کی بھی ہوتی ہے۔ایسے لوگوں پر صرف کام کرنے کا خبط سوار ہوتا ہے۔اور اکثر یہ لوگ بھوک سے کلبلاتے ملتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ بھوک لگتی ہے ایسے لوگ اچھی طرح رُل کر اچھی طرح خون پسینہ ایک کر کے دو پیسے بنا پاتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ایسے دو پیسے بھی اس وقت ملتے ہیں جب بیچارے یا تو لجنڈ قرار پاتے ہیں یا خاک ہو جاتے ہیں تو کئی برسوں بعدغلطی سے کوئی نام لیوا پیدا ہو جائے۔پس یہی خبطی لوگ بھوک کے صحیح مطلب جانتے ہیں۔ بھوک تو آخر بھوک ہے۔ سبھی کو لگتی ہے۔ اور انسان ہیں۔ بھوک تو ہر زی روح کا حق ہے۔ بھوک کو ختم کرنا یا مخصوص عرصے کے لئے بھوک کو سلانا زی روح کا فرض ہے۔

پاکستان میں بھوک ایک حد تک ہے۔ مگر ہے تو سہی ۔ جھگی مکیں کب جھگی میں رہنا چاہتے ہیں۔ وہ بھی پختہ گھر چاہتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم چاہتے ہیں۔دوستوں کے ساتھ اکثر جھگی مکینوں کو لے کر بات چیت چلتی رہتی ہے۔ ایک عزیز ہیں۔ ماشاءاللہ اچھا بولتے ہیں۔ بقول ان کے ہمارے ہاں استحصال کا راستہ کھولنے والے بھی جھگی مکین ہیں اور راستہ بند کرنے والے بھی یہی جھگی مکین۔ وجہ ان کی شناخت کا نہ ہونا ہے۔ ایسا کہیں ہو بھی سکتا ہے۔ مگر میری ذاتی رائے میں استحصال کا راستہ کھولنے والے یہ بھوکے ننگے جھگی مکین نہیں ہیں۔ استحصال کا راستہ کھولنے والی وہ بھوک ہے جو ایوان زیریں اور ایوان بالا میں بیٹھی ہءاور قوم کی جڑین کھودتی ہے۔ یہ لوگ اپنے فرائض میں بیشتر کوتاہی اس لئے کرتے ہیں کہ اپنااور اپنے بچوں کا مستقبل سنوار سکیں اور وہ ایسا کرتے بھی ہیں۔ ان کے لئے ظاہری بناؤ سنگھار ہی سب کچھ ہے۔ یہ اپنے ایسے معاملات کو اپنے فرائض سے خارج سمجھتے ہیں جو ایسے لوگوں کے متعلق ہو جن کے بارے میں ان کی چھٹی حس کہے کہ یہ لوگ مشکلات کا شکار ہیں اور مشکلات کھڑی کرنے والے ہیں۔ اتنے مشکل اور گھومے پھرے جملے کو آسان سی مثال کے ذریعے واضح کرتی ہوں۔

ہمارے ہاں ایک مینیجر حال ہی میں تعینات ہوئے ہیں اور ہمارے ہاسٹل کے آدھے سے زیادہ مسائل مکمل حل ہو چکے ہیں۔ خصوصاً ہماری بزرگ خواتین کے وہ مسائل جو بظاہر بہت چھوٹے ہیں اور ان کو حل کرنا ایڈمن کی ذمہ داری بھی ہے۔ پچھلی ایڈمن ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وجہ تلاش کی جائے تو ان مسائل کے حل نہ کرنے کے پیچھے سوائے حسد اور ضد کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ چونکہ نیا منیجر ہے، نیوٹرل رہ کر کام کر رہا ہے۔ تو مسائل کا حل ہونا تو بنتا ہے۔ چاہتی تو نئی منیجر اپنا وقت پورا کر کے بھی گھر جا سکتی ہے۔ مگر وہ ڈیوٹی جو اسے لکھ کر بتائی گئی ہے۔ پوری ہو رہی ہے۔یہ ایک استثنائی کیس ہے۔اور ہمارے ہاں ایسی استثنائی مثالیں خال خال ہیں۔ایسا ہر جگہ نہیں ہو رہا۔ کہیں فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہو رہی ہے اور کہیں نہیں ہوتی۔ مگر کون اپنی بھوک کو بھول کرایسے معاملات میں وقت ضائع کرے۔

کئی لوگوں کی بھوک بہت خبطی ہے۔ انہیں جب کچھ کرنا ہے تو کر گزرنا ہے۔اور جب کچھ گزرنے کی بات آئے تو ایسے ایسے مضحکہ خیر قصے سننے کو ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ارے ابھی تو بات شروع ہوئی ہے۔ اور آپ کو بھوک لگ گئی۔ ایک اعلیٰ مگر عوامی ادارے میں فل سکیورٹی کے ساتھ پہنچ گئے۔ چلئے آپ اپنا کام کیجئے۔ اور ہم اپنے حیلے سے لگتے ہیں۔ واپس اپنے خول میں جانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ اور تھوڑا سا آپ پر ہنستے ہیں۔ کیا ہے کہ ہنسنا اچھی صحت کی ضمانت بھی ہے اور بھوک چمکانے میں اپنا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ دوران خون بھی بڑھتا ہے۔ ہنسی تروتازگی بھی بخشتی ہے۔ ہم تو بھئی تازہ دم ہو لئے۔ اب آپ جانیں اور آپ کی مہمل دنیا جانے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).