شیروں کا انصاف تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے


کچھ کہانیاں خواہ مخواہ ہی آفاقی ہو جاتی ہیں، لاکھ کوئی انکار کرے، پرکہانی کے کئی کردار، حالات اور واقعات ہمارے گردو پیش کا ہی عکس ہوا کرتے ہیں۔ جیسے شیر کے انصاف کی کہانی۔ سنا ہے کسی زمانے میں ایک شیر ہوا کرتا تھا، ایک روزشکار کو نکلا۔ اُس کے تین دوست گیدڑ، لومڑ اور بھیڑیا بھی اُس کے ساتھ ہوئے۔ تما م دن کی بھاگ دوڑ کے بعد آخرکار وہ ایک بارہ سنگھے کو مار گرانے کے قابل ہوئے۔ اب مرحلہ شکار کی تقسیم کا تھا کہ کس کو کتنا حصہ دیا جائے۔ تبھی شیرمنصف بن کر کھڑا ہوا اور بولا:

’’ دوستو یہ شکار ہم سب نے مل کر کیا ہے۔ جیسے گیدڑ نے شور مچا کر بارہ سنگھے کو ہراساں کیا، لومڑ نے چالاکی سے اُسے پھنسایا، اور بھیڑئیے نے غرّا کر اُس کو ڈرایا، میں نے بھی تھوڑا سا ہاتھ بٹایا کہ سینگ پکڑ کر اُس کی گردن توڑ دی۔ اب تم لوگ چاہو تو شکار کا چوتھا حصہ مجھے دے سکتے ہو۔ ‘‘

شیر کے اس انکسار پر تمام جانور عش عش کر اُٹھے۔ انھوں نے خوشی خوشی بارہ سنگھے کی کھال ادھیڑی اور گوشت کے بڑے بڑے پارچے بنا کر انھیں چار حصوں میں تقسیم کیا۔ اور سب سے اچھا حصہ شیر کی خدمت میں پیش کر دیا۔ شیر نے تالیوں کی گونج میں اپنا حصہ وصول کیا اور گرج کر بولا:
’’حضرات! اس شکار کا دوسرا حصہ بھی میرا ہے، کیوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں۔ تو تمہیں بادشاہ کو تو اُس کا حصہ دینا پڑے گا۔ ‘‘

بھوکے جانوروں نے آنکھیں پھاڑ کر اُسے دیکھا، ابھی وہ اس صدمے کو جھیل ہی رہے تھے کہ شیر نے ایک اور اعلان کیا:
’’اس شکار کا تیسر ا حصہ اس لیے میرا ہے کہ میں تم لوگوں سے انصاف کر رہا ہوں اور جو تم سے انصاف کی بات کرے تو اسے اُس کا معاوضہ ضرور دو۔ ‘‘

اب تمام جانور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے لیکن شیر نے اپنی تقریر جاری رکھی:
’’ البتہ یہ چوتھا حصہ آپ لوگوں کا ہے، اِسے میں اپنے آگے رکھ دیتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر شیر ایک لمحے کو رُکا اور اِ س زور سے دھاڑا کہ جی ٹی روڈ کے آس پاس کے جنگل بھی لرز اُٹھے، پھر شیر نے للکار کر کہا : ’’جس میں جرأت ہو وہ یہ چوتھا حصہ میرے آگے سے اُٹھا لے جائے۔ ‘‘
جانوروں کے منہ پر ہوائیاں سی اُڑنے لگیں اور وہ جان کی امان پاتے ہوئے دُم دبا کر بھاگ لیے۔

یہ علامتی کہانی جنگل کے ایسے منصف کی کہانی ہے، جو طاقت کے بل بوتے پر اپنا خراج وصول کرنا خوب جانتاہے۔ اب چونکہ وطنِ عزیز میں انصاف کا بول بہت بالا ہے، ریاستی ادارے ضرورت سے زیادہ فعال ہیں اور مظلوم کی داد رسی آہ نکلنے سے قبل ہی کر دی جاتی ہے، لہٰذا اس کہانی سے کسی قسم کی مماثلت تراشنے کی کوشش ہر گز نہ کی جائے۔

رہی بات انصاف کی تو طاقتور کے انصاف کا یہی دستور ہوا کرتا ہے۔ احکامات اُس کی منشاء کے مطابق ہی صادر کیے جاتے ہیں۔ رعایا عجز و انکساری سے حکم قبول کرے تو ٹھیک نہیں تو اپنی نافرمانی کی ذمہ دار خود ٹھہرتی ہے۔ بڑی عجیب سی بات ہے کہ پچھلے ستر سالوں سے ہم جمہوری، نیم جمہوری اور عسکری حکومتوں کے درمیان ڈولتے اقتدار اور عدل و انصاف کے جن اصولوں کے نعرے لگاتے آئے ہیں ان کی پائمالی اور عدم استحکام کی بنیادی وجوہات کا ڈھنگ سے تعین ہی نہیں کر پائے اور جنھوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر سچ کو بے نقاب کیا، انھیں ہم نے غدار کے لقب سے ملقب کیا۔

اگرچہ اب یہ دیکھنا، سننا اور سمجھنا بہت ہی عام سی بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ ہماری ذاتی رنجشیں اور باہمی کدورتیں ہی تھیں جنھوں نے ملک کو نہ صرف جمہوری بنیادوں پر ٹھیک سے استوار نہ ہونے دیا بلکہ آمریت کے لیے راستہ استوار کیا اور اُسے تقویت بھی دی۔ ہم نے طاقتور کو مزید طاقتور ہونے دیا اور کمزور کو اس کے اختیارکی جگہ بار ہا اوقات یاد دلائی اورمذہبی، سیاسی اور لسانی بنیادوں پر باہمی منافرت کے وہ گھاؤ پیدا کیے جنھوں نے پرانے زخموں کو ناسور بنا ڈالا۔ گذشتہ دہائیوں سے فروغ پانے والے ہمارے متشدد اور جارحیت بھرے رویے، مذہب اور سیاست کے نام پر کتنی معصوم اور بے گناہ جانوں کو چاٹ گئے۔ مشعال خان کا بیدردی سے قتل اور تا حال انصاف تک عدم رسائی ان غیر انسانی رویوں کی ادنیٰ سی مثال ہے جس میں قاتلوں کی گردن میں پایا جانے والاسریا اُسی طاقت اور غرور سے تشکیل پاتاہے جوانصاف کے ایوانوں میں گونج کر اپنی سفاک نخوت کا اعلان یوں جاری کرتا ہے کہ ’جس میں جرأت ہے وہ آئے اور انصاف لے جائے۔ ‘

(نوٹ: یہ کہانی سلیم ملک کی مرتب کردہ آفاقی کہانیوں ’’قصے انصاف کے‘‘سے لی گئی ہے جو حال ہی میں پیلہوں 19 میں شائع ہوئیں۔ )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).