چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں


ایسا کبھی نہیں ہوا، یہ ہی سچ ہے۔ اس ملک میں یاتو آمریت رہی ہے یا پھر منتخب جمہوریت۔ آئین پاکستان پارلیمانی نظام حکومت کی بات کرتا ہے، یہ بات الگ ہے ستر کی دھائی کے بعد اس ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں خیرات میں ملی کنٹرولڈ ڈیموکریسی رہی ہے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چہرہ جمہوریت کا ہولیکن اس جمہوریت کے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں ہو۔ سیاست کرنا سیاستدانوں کا کام ہے لیکن اس ملک میں سیاست کوئی اور کرتا چلا آیا ہے، حکومت کرنا منتخب نمائندوں کا کام ہے لیکن حکمرانی کہیں اور سے ہو رہی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پارلیمنٹ کو اس طرح بے وقعت اور حکومت کو اسی طرح بے بس، بے اختیار، لاچار اور بے توقیر کردیا جائے۔

وزیر داخلہ کا معاملہ تو ایک دن پہلے کا ہے لیکن حکومت کا اختیار تو عمران خان اور طاھر القادری کے دھرنے کے وقت ہی ختم ہو چکا تھا، پھر جب جے آئی ٹی بنی تب بھی یہ سوالات اٹھ رہے تھے کہ وطن عزیز میں حکومت کسی ہے؟ اسٹبلشمنٹ کی ہے، سپریم کورٹ کی ہے، جے آئی ٹی کی ہے یا کسی اور مخلوق کی ہے جو نظر نہیں آ رہی۔ منتخب حکومت کی رٹ تو ان دنوں زمین دوز کردی گئی تھی۔ کبھی ایسا ہوا کہ ایک وزیر کا ماتحت ملازم اس کے ہدایات نہ لے، بلانے پر نہ آئے، فرض کر لیتے ہیں کہ اگر یہ کام کوئی سویلین فورس کا افسر کرتا تو؟ یہ بھی معلوم ہے کہ اب تک کیا ہو چکا ہوتا اور اب بھی خدشہ ہے کہ اس تمام کارگزاری کا نزلہ کسی پولیس افسر پر ہی گرے گا، کیوں کہ وزارت داخلہ کے پاس کسی طاقتور پر ہاتھ ڈالنے کا قطعی اختیار نہیں، ان کے پاس اختیارات ہیں تو عام پبلک کو پولیس ناکوں پر کھڑا کرکے ان کی جیبوں کی تلاشی لینا، نوجوان جوڑوں سے نکاح نامے طلب کرنا، رات کو گزرتے لوگوں کے منہ سونگھنا، کسی معمر، ضعیف یا جوان کی گاڑی پر فائرنگ کرکے اسے قتل کرنے کا اختیار ہے بس۔

احمد فراز نے کہا کہ ’’میں آج ضد پے اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو، چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘‘۔ بات کل کے واقعہ یا نواز شریف کے عدالتی مقدمات کی نہیں، ان کی نا اہلی کی بھی نہیں لیکن یہ جو کشمکش ہے، یہ جو تضاد ہے اس میں سیاسی جماعتوں کے اونٹوں کے کروٹیں بدلنے کا معاملہ ہے۔

احمد فراز صاحب نے پتا نہیں کس کیفیت میں شعر لکھ دیا، لیکن آج کے سیاسی کشیدہ ماحول میں یہ شعر ان سیاسی ٹھیکیداروں کے لیے ایک سبق یا پیغام ہے جو نواز شریف کی نا اہلی، سویلین بالادستی کی زمین دوزی، آئین کو قانون کی خلاف ورزی، پارلیمنٹ کی بے توقیری پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ سیاستدانوں کے لیے نا اہلی، قیدو بند، جبر، جلاوطنی اور پھانسیاں جہیز کی طرح ہیں، انہیں پتا ہے کہ طاقتور طبقہ انہیں یہ ہی صلہ دےگا، لیکن یہاں مسئلہ پارلیمنٹ کی حیثت تسیلم کرنے کا بھی ہے اور عوام کی حق حکمرانی کا بھی ہے، نواز شریف کا طرز حکمرانی غلط ہے ہم مان لیتے ہیں، لیکن ایک ہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی کہ وہ اب پارلیمنٹری نظام حکومت پر یقین رکھتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو بائی پاس بھی کردیا کرتے تھے لیکن وہ ایسا کب تک کرتے۔ بھتر جمہوریت کے لیے اور جمہوریت والا ہی فارمولہ ہے بس۔

نواز شریف پر لاکھ تنقید ان میں سو خرابیاں، لیکن کون انکار کرے گا کہ انہوں نے سب کے سیاسی مینڈٹ کا احترام کیا، محترم آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ اگر وہ چاہتے تو 2008 کے بعد پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت نہیں بن سکتی تھی، لیکن مشرف کو ایوان صدر سے نکالنے کے لیے ایسا کرنا پڑا۔ بلکل اسی طرح اگر میاں نواز شریف بھی چاہتے تو خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے روک کر سکتے تھے، چھانگامانگا فارمولہ ہو یا کوئی اور طریقہ اگر ان میں سیاسی مینڈیٹ تسلیم کرنے کی یہ خوبی نہ ہوتی تو وہ گٹھ جوڑ سے نمبر پورے کرکے اپنی حکومت بنا لیتے، ایسے ہی بلوچستان میں نیشل پارٹی کو ڈھائی برس دینے کے بجاء وہ پانچ سال نواز لیگ کی حکومت بنا سکتے تھے۔ یہ سب سیاسی اچھائیاں ہیں جو پارلیمانی نظام کی بدولت ملیں، یہ سیاسی نظام کی خوبیاں پروان چڑہ رہی ہی، لیکن کچھ قوتیں اس نظام پر وار کرنے کے لیے گھات لگا کر بیٹھی ہیں، کچھ سیاسی اکابرین ان کے محرے بنے ہوئے ہیں، کچھ ان کو اکسا رہے ہیں۔

پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے سینئر قوم پرست سیاستدان محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کو محمود احمد قصوری کے قتل کا رنگ دیا گیا لیکن انہیں شھید اس لیے کیا گیا کہ وہ ملک میں پارلیمنٹ کی حکمرانی چاہتے تھے، وہ عوام کا حق حکمرانی مانگ رہے تھے، اسے پیشکش کی گئی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ملک سے بھاگ انہوں نے بات نہیں مانی تو انہیں پھانسی لگا دی گئی۔ بھٹو کے بعد بھی جس نے حق حکمرانی منتخب پارلیمنٹ کے سپرد کرنے کی بات کی اس سے کچھ اچھا نہیں ہوا، ماضی کی تاریخ ہمارے آگے ہے، اس بار نواز شریف بھگت رہا ہے، اگلی باری کسی اور کی ہوگی۔

اس ملک کا سیاسی چکر سمجھ سے بالاتر نہیں، ایک سندھی لفظ ہے جنڈا پٹ ( بال نوچنا)، اس وقت ملک میں وہی سیاسی جنڈا پٹ چل رہی ہے۔ سیاسی سودے بازیوں کی دکانیں ایسی چمک دمک رہی ہیں کہ کسی پر اعتبار نہیں رہا۔ ملک کیسے چلنا چاہیے، اس پر گریٹ ڈبیٹ، مفاھمت یا میثاق کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں ہیں کہ نظام لپیٹنے والوں کے اشارے کی منتظر لگ رہی ہیں۔ ہر ایک سیاسی لیڈر گھات لگائے بیٹھا ہے کہ اپنے مخالف پر وار کس طرح وار کرنا ہے۔ عارضی کرسی کی لالچ میں برے طریقے سے استعمال ہونے کو اب عیب نہیں سمجھا جاتا۔ مجھے میاں نواز شریف کے طرز حکمرانی پر اعتراضات ہیں، اسی طرح آصف علی زرداری کا آدھا سندھ لوٹ لینے والا قصہ بھی من گھڑت نہیں۔ لیکن ان سیاستدانوں کی سیاست زمین دور کرنے کا اختیار کسی اور کو نہیں عوام کو ہی ہونا چاہیے، سیاسی نظام سے لے کر انتخابات میں مداخلت کا کام کسی بھی ادارے کا نہیں ہونا چاہیے، لیکن کیوں کہ ووٹ کی پرچی پر ان مقتدر قوتوں کا کبھی بھی یقین ہی نہیں رہا، سیاستدانوں کے خلاف آج آزمائے جانے والے طریقے برسوں سے چلے آ رہے ہیں۔ اس ملک کے بانی کی بہن کے ساتھ کیا ہوا، باقی تو سب گاجر مولی ہیں۔

مجھے اس وقت ان خوش گمان سیاستدانوں پر رحم آتا ہے جو سیاسی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا ہوتا دیکھ کر بھی بھنگڑے ڈال رہے ہیں، خوشیاں منا رہے ہیں یا تماشہ دیکھ رہے ہیں، سیاسی مخالفت ان کا بنیادی حق ہی سھی لیکن سوال یہ ہے کہ وہ مقدمہ کن کا لڑ رہے ہیں؟ شیخ رشید جس کے آگے نہ پیچھے، نہ جماعت نہ ووٹر، وہ اگر پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہ کہے کہ اب پارلیمنٹ داء پر لگ چکی، جمہوریت کے دن گنے جاچکے، حکومت ہمارا کام آسان کر رہی ہے، ان سے یہ ہی امید کی جاسکتی ہے کیوں کہ وہ تو ہمیشہ سے کسی چڑھائی برگیڈ کے کے منتظر ہی رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سیاست، سیاسی نظام، جمہوریت، پارلیمنٹ سب کچھ تیل لینے جائے، لیکن اگر یہ ہی بات کسی اور انداز میں تحریک انصاف کا سربراہ بھی کریں تو وہ المیہ اس لیے ہے، وہ سیاست کرتے ہوئے بھی سیاسی نظام کے ساتھ نہیں چلنا چاہ رہے ہیں، وہ حقائق جان کر آنکھیں بند کر رہے ہیں۔ ان کو تو وزیر داخلہ سے پیش آنے والے واقعہ میں بھی حکومت کی سازش نظر آ رہی ہے، ان کا قصور بھی نہیں وہ خود کئی سازشوں میں شریک اور استعمال ہونے کے عادی جو بن چکے ہیں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر آج وزیرداخلہ رینجرز کے ناکے پر روکا گیا ہے تو کل وہ یا ان کا وزیراعظم بھی اس ناکے سے نہیں گزر سکے گا۔ نواز شریف کو صبرو تحمل کا مشورہ ضرور دینا چاہیے، لیکن ان پجاریوں، اقتدار کے بھکاریوں، امپائر کے آسرے اور انتظار میں بیٹھے سیاستدانوں کو کم از کم یہ سوچنا چاہیے کہ ان کو بھی کل ان مسندوں پر بیٹھنا ہے، کل اگر ان پر ایسا کڑا وقت آیا تو ان کے لیے کون کھڑا ہوگا؟ ڈمی اور کٹھ پتلی بن کر سر جھکائے حکومت کتنی دیر تک چلائی جا سکتی ہے؟ کچھ عرصہ تو ایسے کام چلے گا لیکن آگے چل کر جائز اختیارات مانگے، پالیسی سازی کا کام خود کرنے کی جرعت کی تو پھر چراغ آپ کا بھی نہیں جل سکے گا۔ ایک دن اسے بھی بھج ہی جانا ہے، کیوں کہ یہ ہوا کسی کی نہیں۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar