میں بھی کت جا کے مر گئی؟


 کل رات ژوب کے ایک پرانے دوست سے نشست رہی۔ کہنے لگے، سادہ آدمی ہوں، دو سادہ سوال ہیں۔ سادہ جوابات درکار ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ آپ لوگ جو خود کو جمہوریت پسند کہتے ہیں، نواز شریف جیسے بدعنوان سیاست دانوں کی حمایت کیوں کرتے ہیں ؟اور دوسرا یہ کہ یہ کشمکش نواز شریف کے جانے کے بعد جاری کیوں ہے؟

عرض کیا، پہلی گزارش یہ ہے کہ یہ کسی شخص یا کسی جماعت کی حمایت کا سوال نہیں ہے۔ یہ سول بالادستی، عوام کے حق حکمرانی اور شہری آزادی کی حمایت کا معاملہ ہے۔ حالات کی ستم ظریفی نے ہمیں یہاں لاکھڑا کیا کہ ضیاءالحق مرحو م سے رسم و راہ رکھنے اور نو ستاروں کا علم کا بلند کرنے والے محمد نواز شریف اس وقت ملک میں سول بالادستی کی علامت کے طور ابھرے ہیں۔ اس پر بھی اتفاق ممکن ہے کہ سول بالادستی کے قیام میں نواز شریف صاحب کے ذاتی مفادات ہوں گے۔ جاننا مگر یہ چاہیے کہ جمہوریت کو آدرش ماننے والے نواز شریف صاحب حمایت نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسے منصب کی حمایت ہے جو ملک میں عوام کے حق حکمرانی اور سول بالادستی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس منصب پر نواز شریف کی جگہ آصف علی زرداری ہوتے، عمران خان ہوتے، مولانا فضل الرحمن ہوتے یا سراج الحق ہوتے، تب بھی حمایت کی صورت یہی ہونی تھی۔ (تری آواز مکے اور مدینے۔ خدا ہمیں اس موقف پر استقامت بخشے – و – مسعود)

دوسری بات یہ ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں کی بڑی سیاسی جماعتیں مقتدر قوتوں کی مزاحمت کرتی رہی ہیں۔ خیبر پختونخوا میں باچا خان اور مفتی محمود سے لے کر اسفندیار ولی تک، سندھ میں بھٹو اور جی ایم سید سے لے کر ایاز لطیف پلیجو، قادر مگسی اور رسول بخش پلیجو تک، بلوچستان میں غوث بخش بزنجو سے لے کر عطااللہ مینگل، گل خان نصیر، خیر بخش مری، عبدالصمد اچکزئی، اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی تک یہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست جاری رہی (ان کی سیاسی آراء سے اختلاف کیا جا سکتا ہے) مگر اسٹیبلشمنٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت کے حصول کے کھیل میں یہ تینوں صوبے غیر متعلق تھے اور ہیں۔ تینوں صوبے مل کر بھی نہ پہلے مرکز میں حکومت بنانے پر قادر تھے اور نہ آج ہیں۔ آج بھی قومی اسمبلی میں براہ راست منتخب ہونے والی نشستوں میں سندھ کی کل نشستیں 61، خیبر پختونخوا کی 35، بلوچستان کی14 نشستیں ہیں۔ اس میں اگر فاٹا کی 12 نشستیں بھی شامل کر لی جائیں تو ان کی کل تعداد 122 بنتی ہے۔ 272 کے براہ راست منتخب ہونے والے ایوان میں سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لئے 137 نشستیں درکار ہیں جو کہ یہ تینوں صوبے بشمول فاٹا مل کر نہیں بنا سکتے۔ دوسری طرف صرف پنجاب میں قومی اسمبلی کی 148 نشستیں ہیں۔ گویا آپ صرف پنجاب جیتیں تو حکومت بنا لیں۔ اور یہ حکومت نواز شریف صاحب تین بار بنا چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اس میں استثنیٰ حاصل رہاہے مگر اس راہ میں گڑھی خدا بخش کے قبرستان کی آبادی، بے نظیر کا سیکورٹی رسک بننا اور پنجاب سے وزرائے اعظم لانے کے کئی پڑاﺅ آتے ہیں۔ اس کو پھر کسی نشست پر اٹھا رکھتے ہیں۔

 نواز شریف صاحب پہلی مرتبہ حکومت میں آئے تو انہیں احساس ہوا کہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی مکمل اختیار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ پھر ایک طویل داستان ہے۔ بلاغبار دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے تعلقات مقتدر حلقوں سے کبھی مثالی نہیں رہے۔ کوئی شخص اسے محمد نواز شریف کی ذاتی انا اور ضد کہے، کوئی اسے ان کے ذاتی مفاد سے جوڑے، یہ موضوعی معاملات ہیں اور ان پر بحث ممکن ہے۔ تاہم اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ یہ کشمکش در اصل مقتدر حلقوں اورعوامی نمائندوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاملہ تھا۔ 6 نومبر 1990 کے پہلے وزارت عظمی کے حلف سے لے کرسے لے کر28 جولائی  2017 کی برطرفی تک یہ کشمکش جاری رہی۔ مخاصمت کی ایک طویل فہرست ہے جو غلام اسحاق خان سے لے کر فارق لغاری تک اور جنرل اسلم بیگ سے لے کر راحیل شریف تک آتی ہے۔ تین بار نواز شریف کو اقتدار بدر ہونا پڑا۔ اس کشمکش میں مگر غلام اسحاق خان، فاروق لغاری اور جہانگیر کرامت کو بھی گھر کی راہ لینی پڑی۔ پرویز مشرف صاحب کو بھی نواز شریف نے باقاعدہ برخاست کیا اور لیفٹیننیٹ جنرل ضیاءالدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا مگر ایسا ہو نہ سکا اور نواز شریف گرفتار کے لئے گئے۔ نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ حکومت میں آئے تو جنرل اشفاق کیانی کی مدت ملازمت ختم ہونے میں صرف پانچ ماہ باقی تھے مگر معاملات سرد مہری کے شکار تھے۔ جنرل راحیل شریف کے تین سالہ دور میں آئے روز یہ خبریں ملتی تھیں کہ حکومت آج گئی کہ کل گئی۔ ڈان لیکس کے معاملے پر موجود ہ چیف کے ساتھ بھی معاملات اچھے نہیں رہے۔

 طاقت کے حصول کی اس کشمکش میں ایک جمہوریت پسند آدمی کو بہرحال اپنے منتخب نمائندوں کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ سیاست دانوں کے بدعنوانی میں ملوث ہونے اور اپنی سیاسی جماعتوں کو موروثی بنیادوں پر چلانے میں کوئی دو رائے نہیں، تاہم مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس جمہوری عمل کے تسلسل کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ملک میں بادشاہت ہوتی تو رعایا بن کر صبح و شام کرتے رہتے۔ یہاں کوئی ایرانی، سعودی یا طالبانی طرز خلافت ہوتی تو خواہی ناخواہی ہم خاموش رہتے۔ آمریت کا پھل ہم تین مرتبہ دیکھ چکے اور عشروں تک دیکھ چکے۔ ایک جمہوریت پسند آدمی کا آدرش یہی ہوتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔ اس ملک کا ہر شہری جس حلف کے ساتھ بندھا ہوا ہے اس کو آئین کہتے ہیں۔ آئین نے اس ملک کا ایک نظام طے کیا ہوا ہے جس کو پارلیمانی جمہوریت کہتے ہیں۔ اسی پارلیمانی جمہوریت اور آئین کا تقاضا ہے کہ ملک پر حکمرانی اور بالادستی کا حق عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہے۔

اب آیئے دوسرے سوال کی طرف۔ نواز شریف صاحب حکومت میں آئے تو سب سے پہلے انتخابات میں دھاندلی کا غلغلہ اٹھا۔ یہ غلغلہ ہمارے ہاں ہر مرتبہ انتخابات کے بعد اٹھتا رہتا ہے۔ اس بار مگر اس کی آنچ ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنے تک پہنچ گئی۔ سیاست کے گھاک پنڈت فرماتے تھے کہ نواز شریف صاحب کو اپنی حدود پہچاننے کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ اچھی خبر یہ ہوئی کہ اس دھرنے کے خلاف یا اس کے کرتا دھرتاﺅں کے مقابل پورا پارلیمان ایک ساتھ کھڑا ہوا اور یوں نواز شریف ایک مشکل بازی جیت گئے۔ اس کے بعد بدعنوانی کا شور اٹھا۔ بیچ میں پانامہ آ گیا۔ اربوں روپے کے کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہوئیں۔ بات عدالت میں چلی گئی۔ جے آئی ٹی کے قیام میں مخصوص احباب کی مانگ، جے آئی ٹی کے طریقہ تفتیش، عدالت میں معزز ججوں کے ریمارکس، تین ججوں کے بنچ کیس سننا، پانچ کا فیصلہ سنانے تک کئی سوالات نے جنم لیا جس نے معاملے کی نوعیت مشکوک بنا دی۔ بات پانامہ سے شروع ہوئی تھی۔ اقامہ اور اثاثہ کی تعریف پر ایک منتخب وزیراعظم نا اہل ہوئے۔ مزید ’تاحیات نااہلی‘ پر روز دیا گیا۔ معزز عدالت کی طرف سے نیب کے کیسز کی نگرانی کے لئے ایک جج بھی متعین کیا گیا۔ مریم نواز کی کردار کشی کی گئی۔ ضمنی انتخابات میں ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک برسرپیکار آئے۔ اب عقیدے کے ضمن میں حلف اور اقرار کے سوال کو زیر بحث لایا گیا۔ یہ نقطے ہیں جن کو ملانے سے تصویر کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔ آنکھ میں بصیرت ہو تواس پورے منظر نامہ میں احتساب کے آگے پیچھے بہت سے لاحقے اور سابقے نظر آتے ہیں۔ ہجے بدل کر دیکھیں تو احتساب اور اختیار کے درمیان کہیں ’حدود کا تعین‘ معلق ہے۔ یا سادہ زبان میں ’حد پہچانو‘ کی صدا آتی ہے۔ نواز شریف صاحب نے مگر دوسرا راستہ اپنایا۔ دوسرا راستہ جی ٹی روڈ پر سے گزرتا تھا۔ جی ٹی روڈ پنجاب کے وسط میں گزرتا ہے۔ یہاں سے پارلیمان سو نشستیں جڑی ہیں۔ نواز شریف کی برطرفی کے بعد خوش فہمی قائم کی گئی تھی کہ پارٹی شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان صاحب جیسے اہل دانش چلائیں گے اور ایسے ہی چلائیں جیسے متعین حدود میں چلانی چاہیے۔ ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔ نواز شریف صاحب آئینی ترمیم لا کر دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ تو پارٹی ابھی باقی ہے میرے دوست۔

 یوں تو اختتام فیض کے کسی مصرعے پر کرنا چاہیے مگرفلمی گیت لکھنے والے بہار کے شاعر راج شیکھر نے فلم ’ تنو وڈز منو ریٹرن‘ کے لئے ہریانہ اور راجھستانی لہجوں پر مشتمل ایک گیت لکھا تھا ’ گھنی باوری‘ جس کا سادہ ترجمہ انگریزی میں ’ too much crazy‘  بنتا ہے۔ اب صورت حال یوں یہ ہے کہ فریقین کے احباب ایک دوسرے کو یہی گیت سنا رہے ہیں۔ حالانکہ یہی گیت آپس میں سننا اور گانا بنتا ہے۔

جو نا کرنا تھا کر گئی

میں بھی کت جا کے مر گئی

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah