عمران خان کیس کے فیصلے کی حتمی تاریخ نہیں بتا سکتے: چیف جسٹس ثاقب نثار


چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف درخواست پر فیصلہ کب سنایا جائے گا، اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواستوں میں ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی ہے، اس لیے ان درخواستوں پر فیصلہ نہیں دیا۔ عدالت نے کہا کہ ان درخواستوں پر دلائل مکمل ہوئے ہیں، مگر سماعت مکمل نہیں ہوئی۔

بدھ کے روز پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر خان ترین کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے میں اور پاناما لیکس کے معاملے میں کئی باتیں مشترک ہیں جن میں سے ایک بات اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کے استفسار پر دیے جس میں اُنھوں نے عدالت سے پوچھا تھا کہ عمران خان کے مقدمے کا فیصلہ ابھی تک محفوظ کیوں نہیں کیا گیا۔ نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ آرڈر 10 رول ون کے تحت کیس کھلا نہیں چھوڑا جاسکتا۔

انھوں نے پوچھا کہ عدالت اس مقدمے کا فیصلہ کب سنائے گی جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس معاملے میں بہت سی چیزیں دیکھنے والی ہیں اور عدالت تمام حقائق اور قانون کو مدنطر رکھتے ہوئے فیصلہ دے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی وکیل نے اس بات پر معاونت نہیں کی کہ بے ایمانی کیا ہوتی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے عاشورہ کی چھٹیوں کے دوران پاناما لیکس کا فیصلہ متعدد بار پڑھا ہے اور ’اب اگر عدالت چاہے تو اس فیصلے کے بارے میں میرا امتحان لے سکتی ہے‘۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جج ہر روز امتحان میں بیٹھتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے وکیل سکندر مہمند نے اس درخواست کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست بدنیتی پر مبنی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان کے موکل کا نام پاناما لیکس میں نہیں آیا۔ جہانگیر ترین کے وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست عوامی نہیں، سیاسی نوعیت کی ہے اور یہ درخواست پاناما کیس کے بدلے میں دائر کی گئی ہے۔

سکندر مہمند نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کو کسی اور نے استعمال کر کے پٹیشن کروائی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ عدالت کو درخواست گزار کی نیت بھی دیکھنا ہوتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ درخواست گزار حنیف عباسی کے اپنے ہاتھ بھی صاف نہیں ہیں اور وہ درخواست دائر کرنے کے اہل نہیں۔

بینچ میں شامل جسٹس عمر عطا بندیال نے جہانگیر ترین کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ان کے موکل کا احتساب بھی پاناما جیسا ہونا چاہیے جس پر سکندر مہمند کا کہنا تھا کہ ہر رکن اسمبلی کا احتساب ہونا چاہیے۔ اُنھوں نے کہا کہ ایم این اے اور سرکاری پیسوں پر اختیار رکھنے والوں میں فرق ہوتا ہے۔ جہانگیر ترین کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل پر بینک ڈیفالٹر ہونے کا کوئی الزام نہیں، جس پر بینجچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قرضے ڈیفالٹ ہونے پر ہی معاف کرائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب قرض معاف ہوا اس وقت جہانگیر ترین وزیر صنعت و پیداوار تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ کیا عوامی عہدہ رکھنے والوں نے کرپشن کی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاناما کیس بھی انھی درخواستوں کے ساتھ سنا جانا چاہیے تھا کیونکہ تمام درخواستوں میں کئی قانونی سوالات مشترک ہیں لیکن اس وقت کے چیف جسٹس نے کیس الگ الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp