ہمارے گھریلو افرادِ کی پرائیویسی اور ہمارے رویے


پرائیویسی ایک ایسی حالت کو کہا جاتا ہے جس میں دوسرے لوگ کسی انسان کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے اور اسے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق دیتے ہیں۔ پرائیویسی ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ایک دیسی معاشرے میں ایسے لوگ بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں جو دوسروں کی پرائیویسی کا خیال رکھتے ہوں۔ اس کے بر عکس ایک ترقی یافتہ معاشرے میں اس چیز کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ میری ایک برازیلی دوست جب پاکستان آئی تو وہ بہت حیران ہوتی تھی کہ رات کے بارہ بجے کسی کے گھر اچانک ہی مہمان کیسے آسکتے ہیں؟ اس نے بتایا کہ برازیل میں وہ لوگ دوسروں کی پرائیویسی کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ کسی کے گھر بن بتائے جانا بہت برا خیال کیا جاتا ہے۔ کسی سے اس کی نجی زندگی کے متعلق بھی سوال نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کسی کے لینڈ لائن پر لمبی لمبی کالز کی جاتی ہیں۔ وہ چونکہ ایک مختلف معاشرے سے آئی تھی تو اسے ہمارے معاشرے کی یہ ”بے تکلفی“ بہت عجیب لگ رہی تھی۔

ہمارے ہاں اس ”بے تکلفی“ کو محبت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ کسی کے متعلق برا خواب دیکھ لیا تو اگلے ہی دن سب کام چھوڑ چھاڑ اس کے گھر جا پہنچیں گے، کسی کی بیماری کا سن لیا تو پورے خاندان کے ہمراہ اسپتال آ دھمکیں گے، مریض کی تیمارداری تو دور الٹا اس کے لواحقین کو ”شربت پانی“ کی ٹینشن ڈال دیں گے، گھر میں بور ہو رہے ہیں تو بغیر وقت دیکھے کسی کے بھی گھر چلے جائیں گے، اب چاہے رات کے 12 بجے ہوں مگر ہماری جانے بلا، کوئی کتنی بھی جمائیاں لیتا رہے ہم اس سے اور سناؤ کی فرمائش ہی جاری رکھیں گے۔

بعض اوقات پرائیویسی میں مداخلت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ دوسرے اس سے تنگ آنے لگ جاتے ہیں۔ آپ کی شادی کب ہوگی؟ شادی ہو گئی ہے تو بچہ کب ہوگا؟ آپ کو ڈاکٹر نے یہ دوائی بتائی ہے؟ آپ اسے چھوڑ کر یہ دوائی لیں۔ ارے تم نے سائنس کیوں رکھی ہے؟ تم تو کند ذہن ہو۔ تم کوفتوں میں ٹماٹر نہیں ڈالتی؟ ایسے تو کوفتے اچھے نہیں بنتے۔ تم اپنے کپڑے خود استری کرتے ہو؟ بیوی نہیں کرتی؟ یہ وہ سب جملے ہیں جو ہم اکثر و بیشتر دوسروں کو کہتے رہتے ہیں۔ کہنے کو یہ عام سے جملے ہیں مگر یہ عام سے جملے کسی کو کتنی تکلیف دے رہے ہیں اس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے۔

پرائیویسی میں مداخلت میں رہی سہی کسر مشترکہ خاندانی نظام پوری کر دیتا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے بیشتر گھروں میں میاں بیوی اپنے بچوں کے ہمراہ ایک ہی کمرے میں دس سے پندرہ سال گزار دیتے ہیں۔ ماں باپ کو موجودہ بچوں کے سونے کا یقین کرنے کے بعد نئے بچوں کو دنیا میں لانے کی تیاری کرنی پڑتی ہے۔ دوسری طرف بچوں کی بھی کئی نجی ضروریات ہوتی ہیں جس کے لئے انہیں ایک الگ جگہ چاہیے ہوتی ہے مگر اس نظام کی وجہ سے ہم انہیں یہ آزادی نہیں دے پاتے۔ اس نظام کے تحت کئی سال ایک کمرے میں گزارنے کے بعد کسی جھگڑے کو بنیاد بنا کراس خاندان کو الگ گھر لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔

مشترکہ خاندانی نطام کے کتنے فوائد ہیں، اس بحث کی وجہ سے اس کے مہلک نقصانات کو نظر انداز نیں کیا جانا چاہیے۔ اس نظام کی وجہ سے والدین اور بچوں کی پرائیویسی کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔ ایسے گھروں کے سربراہ عموماً ”میں نے تو سب کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے“ بڑے فخر سے کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اس ”جوڑ“ کی وجہ سے کون کون سانس نہیں لے پا رہا اس سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔

ہم لوگ عموماً پرائیویسی کی ضرورت کو بھی نہیں سمجھتے۔ ہمارے بچے اکیلے وقت کیوں گزارنا چاہتا ہیں؟ ہماری بہو دوپہر اپنے کمرے میں اکیلا کیوں رہنا چاہتی ہے؟ ہمارا بیٹا ہمارے اے سی والے مشترکہ کمرے میں سونے کی بجائے لاؤنج میں کیوں سونا چاہتا ہے؟ ہمارے پڑوس میں رہنے والا جوڑا شادی کے دو سال بعد بھی اولاد کیوں نہیں پیدا کرنا چاہتا؟ کوئی گھرانہ رات کے دو بجے تک جاگتا رہتا ہے تو ان کے گھر کسی بھی وقت کیوں نہیں جایا جا سکتا؟ یہ سب وہ اعتراضات ہیں جو ہم پرائیویسی کی ضرورت کے جواب میں دیتے ہیں۔ یہ سب اعتراضات کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا مذہب بھی پرائیویسی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اسلام مشترکہ خاندانی نطام کی نفی کرتا ہے، ایک مخصوص عمر کے بعد بچوں کے بستر الگ کرنے کا بھی حکم ہے، بچوں کو ٘خصوص اوقات میں والدین کے کمرے میں بلا اجازت آنے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح دوسروں کی جاسوسی کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ مگر ہم چونکہ ہندوانہ ثقافت سے بہت متاثر ہیں تو ہم اسلام کے ان احکامات کو بھی نظر انداز کر جاتے ہیں۔

بعض لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر وقت دوسروں کی زندگی میں گھسے رہتے ہیں لیکن جہاں کوئی ان کی زندگی میں جھانکنے کی کوشش کرے تو انہیں برا لگ جاتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں دوسروں کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتے تو ہمیں دوسروں کی زندگی میں مداخلت کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اس لئے اپنے سے جڑے لوگوں کو سانس لینے کا موقع دیں اور ان کی زندگی میں کم سے کم مداخلت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).