شرمین… اور شرم کے مارے ہم وطن


\"asadہم سب میں شرمین عبید چنائے اور ان کے آسکر ایوارڈز پر مختلف طبقہ ہائے فکر کی آرا سامنے آ رہی ہیں ایک مضمون یہاں البتہ ایسا بھی چھپا ہے جس کے ساتھ مصنف نے ایک تمہیدی نوٹ شامل کیا ہے جس میں بتایا گیا کہ ان کی اس تحریر کو تین بڑے اخبارات نے چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تجسس ہوا کہ مضمون میں ایسی کیا بڑی بات ہے کہ اخبارات اسے چھاپنے سے ڈرتے رہے اسی تجسس میـں مضمون پڑھا تو تجس کی جگہ اس حیرانی نے لے لی کہ اتنے بہت سے اخبارات کی طرف سے مسترد کر دی جائے والی یہ تحریر وجاہت مسعود صاحب نے کیونکر چھاپ دی.

فاضل مصنف نے تمہید باندھتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اگر پڑھنے والے اپنے اپنے تعصبات کو ایک طرف رکھ کر یہ تحریر پڑھیں تو ان کے پاس مصنف سے کامل اتفاق کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچے گا آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ موصوف کا تعلق بھی غیرت بریگیڈ سے ہے اور ایک دوست کی کہی بات یاد آ گئی کہ ہر کامیاب پاکستانی کے پیچھے لاکھوں ایسے پاکستانی ہوتے ہیں جو ان کی ٹانگ کھینچنے میں لگے رہتے ہیں

بہت تفصیل میں جانے کی یقینا ضرورت نہیں چند الفاظ میں فاضل مصنف کے تھیسس کا جائزہ لینا مقصود ہے موصوف نے اپنے استدلال کی عمارت اس نکتے پر کھڑی کی ہے کہ شرمین عبید چنائے کی بنائی ہوئی فلموں کے مقابلے میں جو فلمیں نامزد ہوئی تھیں ان میں فلم بنانے والوں نے اپنے اپنے معاشرے کی مثبت خصوصیات کو اجاگر کیا ہے جبکہ ان خاتون کا کام صرف پاکستان کی بدنامی کا سامان پیدا کرنا ہے ۔

شرمین عبید چنائے کی فلموں کے حوالے سے فاضل مصنف فرماتے ہیں ” شرمین عبید چنائے کے ساتھ نامزد ہونے والے دیگر فلم ساز انتہائی بیوقوف ہیں، جنہوں نے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا، جس میں ان کے معاشرے کا کوئی مسخ پہلو شامل نہ تھا، بالکل ٹھیک ہوا، ان کو یہ اعزازنہیں دیا گیا۔ ہم پرامید ہیں شرمین عبید چنائے آئندہ برسوں میں مزید آسکرایوارڈز جیتنے میں کامیاب ہوں گی، کیونکہ ابھی تو ہمارے بہت سارے زخم باقی ہیں، جن کو دستاویزی فلموں میں دکھا کر اعزازاور فتح کی بھیک مل سکتی ہے۔ کسی نے پروین شاکر کے شعر کو شرمین کے نام لکھا کہ۔۔۔

\"Sharmeen-Obaid-Chinoy-Oscar\"

تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے

ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے“

مصنف نے اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کچھ فلموں کے نام بھی درج کیے ہیں۔ فرماتے ہیں

” شرمین کے مقابلے میں جن چار فلموں کی نامزدگی ہوئی، ان میں پہلی فلم”باڈی ٹیم 12“ کا موضوع عالمی فلاحی تنظیم ریڈ کراس کے سماجی ورکوں کی زندگی تھا۔ دوسری فلم”چاﺅ، بی ہائنڈ ز دا لائن“کا موضوع ”ایک معذور فنکار کی زندگی کی جدوجہد“ تھا۔ تیسری فلم”کلاﺅڈی لانزمین، سپیکٹرم آف دی شوح“تھی، جس کا موضوع ”ایک فرانسیسی ہدایت کار کی زندگی اوراس کا پیشہ ورانہ کام“ تھا۔ چوتھی اورآخری فلم کا نام”لاسٹ ڈے آ ف فریڈم“ تھا، جبکہ موضوع ”ناانصافی اورنفسیاتی مسائل “ تھا ”

طوالت سے بچنے کے لیے محض ان فلموں کی تفصیل جان کر بات ختم کی جائے باڈی ٹیم 12 لائبیریا میں ایبولا وائرس کی وبا کے دوران لاشیں اٹھا کر دفنانے والی ایک ٹیم کے کام کے بارے میں ہے اور اس میں لائبیریا یا افریقی براعظم کی بڑائی تو ایک طرف اس غریب ملک میں طبی سہولیات کی کمی نمایاں ہے

کلاڈ لانزمین والی فلم محض ایک ہدایتکار کی زندگی اور اس کے کام کے نہیں جرمن فاشسٹ قوتوں کے ہاتھوں مرنے والے لاکھوں یہودیوں کے بارے میں ایک فلم بنانے کی کوششوں کی کہانی ہے

لاسٹ ڈے آف فریڈم ”ناانصافی اور نفسیاتی مسائل ” نہیں نسلی منافرت اور سزائے موت کے گرد بنی گئی ہے

اور آخر میں ذکر ہو جائے ”چاﺅ، بیانڈ دا لائن“ جسے فاضل مصنف شاید جذبات کی رو میں بی ہائنڈ ز (sic) لکھ گئے۔ اصل میں امریکہ کے ویت نام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال جیسے ظالمانہ کرتوتوں کی کہانی ہے

فاضل مصنف نے دو چار فلموں کے نام نقل کر کے (اور یقینا فکری بددیانتی کی بنیاد پر) ایک جھوٹا مقدمہ قائم کرکے شرمین چنائے کی فلموں کو مذموم قرار دینے کی کوشش کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصد پڑھنے والوں کو گمراہ کر کے اس ذہنیت کا غلام بنائے رکھنا ہے جس کے ہمارے ممدوح خود بھی شکار ہیں۔ آسکر ایوارڈ سمیت دنیا کا کوئی بھی ادارہ سیاست سے پاک نہیں لیکن یہاں نگار ایوارڈ جیسا برا حال بھی نہیں

ان کے اس طریقہ واردات سے ایک اور دوست کی چالاکیاں یاد آ گئیں جو سماجیات کا امتحان دیتے ہوئے فرضی مغربی مستشرقین کے حوالوں سےامتحانی پرچہ یوں بھر دیتے کہ ممتحن کو پرچہ مارک کرتے ہوئے اپنی کم علمی پر شرمندگی کا تاوان ہمارے دوست کو فراخدلی سے پاس کرکے ادا کرنا پڑ جاتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments