عربی شاعری سے عمران خان تک


دور تک پھیلا ریگستان، سر کے بالکل اوپر چمکتا  بلکہ تلملاتا ہوا سورج، چنے بھن جانے والی گرمی، تپتی ہوئی لو اور ریتلی آندھیاں ۔۔۔ پھر اس کے بعد ڈھلتی خوبصورت شام، دور تک پھیلی چاندنی، وہ نہ ہو تو بے شمار ستارے، صبح کی نشیلی ہوا، نہ اس سے کچھ زیادہ، نہ اس سے کچھ کم، قدیم عرب شاعروں کے پاس یہی کچھ تھا جس کے گرد گھومتے وہ شعر کہتے تھے۔ جہاں پانی دیکھا وہاں پڑاؤ ڈال دیا، پانی ختم ہوا تو اگلے ٹھکانے کی تلاش میں چل دئیے۔ خانہ بدوشی کا ایک اہم فیکٹر قدرتی حالات میں پلنا ہوتا ہے۔ وہ لوگ کھلی آب و ہوا میں رہتے تھے اور جو دل چاہتا تھا اسے شعر میں ڈھال دیتے تھے۔ کیا زبان و بیان تھا، کیسی عمدہ تشبیہیں دیتے تھے، کیا روانی تھی اور جذبات کا اظہار کیسے کھلے دل سے کرتے تھے اس کی دو تین اعلی مثالیں دیکھنی ہوں تو امرالقیس، متنبی اور خنسا کی شاعری دیکھ لیجیے۔ انٹرنیٹ کے دور میں یہ کوئی مشکل کام نہیں، صرف انگریزی یا اردو میں نام لکھیے سب کچھ سامنے آ جائے گا۔

“اگر کوئی شاعر تم سے محبت کرتا ہے تو جان لو تم مر نہیں سکتے۔” یہ کہاوت شاید اسی زمانے میں بن گئی ہو گی۔ امرالقیس نے محبوباؤں کے تذکرے میں حد کر دی، خنسا کے دو بھائی دشمنوں سے جنگ میں کام آئے، انہوں نے ان کے مرثیے کہے اور امر ہو گئیں۔ متنبی اگرچہ ان کے دو تین سو برس بعد آئے لیکن فہم و فراست اور بلاغت میں لوگ انہیں بڑے بڑے شاعروں پر ترجیح دیتے تھے۔ یہ تو دل کی باتیں ہو گئیں۔ ابھی عربی شاعری کی ایک اور اہم چیز “قصیدہ گوئی” کی طرف جاتے ہیں۔

ہوتا یوں تھا کہ اس زمانے میں بھی قصیدے دو وجوہات کے لیے کہے جاتے تھے، ایک تو اپنے قبیلے کی تعریف میں، دوسرے کسی انعام وغیرہ کی لالچ میں، تیسری کوئی وجہ نہیں ہوتی تھی۔ جس طرح آج جب ہمارے بچے کہتے ہیں کہ بابا میں ڈاکٹر بنوں گا، میں پائلٹ بنوں گی، مجھے بڑے ہو کے انجینئیر بننا ہے اور ان کی باتوں پر ہم لوگ خوشی سے اچھلتے رہتے ہیں، ویسے ہی، اس زمانے میں اگر کوئی شاعر نکل آیا کرتا تو پورے خاندان کی موجیں ہو جاتی تھیں۔ شاعر ہونے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ بڑا ہو گا تو اپنے قبیلے کی شان میں شعر کہے گا، دوسرے قبیلے والوں کی مدحیہ شاعری کا جواب دے گا، اور یوں وہ اپنے قبیلے کی عزت بڑھائے گا۔ آئے دن شعری ملاکھڑے ہوا کریں گے، دونوں شاعر اپنے اپنے قبیلوں کی عزتیں آسمان سے ملائیں گے اور ہمارا شاعر بازی لے جائے گا۔ تو بچے میں شاعری کے ذرا سے جراثیم دکھ جانے پر باقاعدہ مبارکیں دی جاتی تھیں اور پورا خاندان چوڑا ہو کر چلتا تھا کہ لو بھئی، منڈا شاعر ہو گیا جے!

سو سے زیادہ شاعر وہ تھے کہ جو اس بابت مشہور ہوئے لیکن ان کے دیوان وقت چاٹ گیا۔  جو قصیدے انعام و اکرام کی لالچ میں کہے جاتے تھے وہ مداحی سے زیادہ لفاظی کا شاہکار ہوتے تھے۔ بھاری بھرکم لفظ لیکن اندر کچھ مغز نہیں، کوئی گہرائی نہیں ہوتی تھی، کچھ ایسا ہوتا جو صاف خوشامد نظر آتا لیکن بانس پر چڑھے ممدوح کو (تخت پہ بیٹھے بادشاہ کو) وہ تمام فضائل، وہ تمام تعریفیں، وہ ساری عظمتیں، سب کچھ اپنے اندر نظر آتا تھا۔ قصیدہ گو شاعروں کا بیسک کام تھا ہی یہی کہ جس کی تعریف ہو رہی ہے اسے اتنا اونچا اڑائیں کہ وہ صدیوں تک نیچے اترنا چاہے بھی تو نہ اتر سکے۔ یہی کام بہ صد کامیابی سرانجام دینے پہ انہیں بڑے سے بڑا انعام دیا جاتا تھا اور ہر بادشاہ کی خواہش ہوتی تھی کہ اس کا دربار بیسٹ قصیدہ گوؤں سے بھرا رہے۔

سرزمین عرب پہ جب اسلام کا نور پھیلا تو بہت سے شاعر بھی مسلمان ہوئے۔ جہاں عرب میں اسلام آنے کے بعد بھی بہت سے شاعر دکھائی دیتے ہیں وہیں قصیدہ گوئی بھی پنپتی نظر آتی ہے۔ مسلمان فارس کا رخ کرتے ہیں تو قصیدہ گوئی جو ایرانی شاعری میں پہلے سے موجود تھی مزید تراش خراش سے نکھرتی ہے، وہاں سے برصغیر پہنچتی ہے تو ملکہ وکٹوریا کا قصیدہ بھی کہا جاتا ہے۔ سینتالیس میں پاکستان بنتا ہے اور قصیدہ گوئی نثر میں باقی رہتی ہے، جہاں شاعری کی بات آئے گی وہاں یہ صنف اب صرف اسلاف کے لیے مخصوص ہو چکی ہے۔

نثری قصیدہ گوئی ہم سب سے زیادہ خود اپنی کرتے ہیں۔ عام خیالات کے مطابق ہم کرہ ارض کے افضل ترین لوگ ہیں، ہمارے بزرگ دنیا کی تمام اہم ایجادات میں حصے دار تھے، ہم سب سے زیادہ پارسا، نیک، زاہد اور عبادت گزار مخلوق ہیں۔ ہمارے گرد تقدس کا ہالہ ہر وقت لپٹا رہتا ہے۔ ہم جیتے ہیں تو نیکیاں کماتے ہیں، مرتے ہیں تو حوریں مقدر ہوتی ہیں، بخشے تو ہم نے ہر حال میں جانا ہے الغرض ایک پیدائشی اتفاق کو بنیاد بنا کر ہم اپنے اردگرد ریشم کا جالا بٌن لیتے ہیں۔

امریکی شہر لاس ویگاس میں ایک میوزک کنسرٹ ہو رہا ہے، اچھے بھلے ہنستے کھیلتے لوگوں پر گولیاں چلتی ہیں، پچاس سے زیادہ افراد کام آ جاتے ہیں۔ کچھ دیر بعد یہ خبر سوشل میڈیا پہ شئیر ہوتی ہے اور نیچے ایک تبصرہ لکھا جاتا ہے، “افسوس، دین حق پہ مرتے تو بڑا اچھا ہوتا، کافر رہ کے مر گئے۔” ایک منٹ یار، ہمیں تو ایمان کا حصہ یہ بتلایا گیا تھا کہ کچھ بھی نہ کر سکو تو ظلم کو کم از کم دل میں ہی برا سمجھنا، ہم کیا دل میں بھی برا نہیں سمجھتے؟ یہ نیشنل جیوگرافک پہ ہونے والا شکار نہیں تھا، آدمی مرے تھے، جیتے جاگتے، جیسے ہمارے لوگ مرتے ہیں، دھماکوں میں، فائرنگ میں، خود کش حملوں میں ۔۔۔ یہ ماس کلنگ تھی، قتل عام تھا، یہاں بھی ہمارا بیسٹ پاسیبل پرسا یہی ہو گا کہ اگر وہ دین حق پہ مرتے تو اچھا ہوتا؟ یعنی جیتے جاگتے انسانوں کے کیڑے مکوڑوں کی طرح مرنے پر کوئی غم نہیں، وہ کوئی ٹینشن نہیں، لیکن ہمارے ہم عقیدہ ہو کے جنونی دہشت گرد کے ہاتھوں مرتے تو اچھا ہوتا؟

یہی سوچ ہمارے اسی ہزار لوگوں کو مرتے ہی شہادت کا رتبہ دے کر دہشت گردی کی آنچ دھیمی کر دیتی ہے۔ یہی سوچ آرمی پبلک سکول کی ماؤں کو سمجھاتی ہے کہ تم نے بچے دنیا میں کامیاب ہونے کو پڑھنے بھیجے تھے لیکن وہ تو اب اعلی ترین درجات پر ہیں۔ پانی ہمارے سروں پر سے بہہ جاتا ہے اور ہمیں اچھے اور برے طالبان کی لوریاں ملتی رہتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ عمران خان اب بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ طالبان کے ضمن میں ان کی پالیسی ہونی کیا چاہئیے۔ پچھلے دس برسوں میں کئی بار وہ ڈھکے چھپے بلکہ اکثر واشگاف الفاظ میں جہادی تنظیموں کی حمایت کر چکے ہیں۔ ابھی ایک ہفتہ پیشتر بھی یہی بیان آیا کہ “پہلے بھی کہتا تھا طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں، اب بھی یہی کہتا ہوں۔” یہ مائینڈ سیٹ صرف ان کا نہیں ہے بلکہ ان کے پیچھے جانے والے اکثر نوجوانوں کی اکثریت بھی یہی سب کچھ دہراتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمیں اب بھی سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کس مجبوری اور کس امید پہ ایسی باتیں کرتے ہیں؟ لوگوں کو تو جانے دیجیے، ان کا مسئلہ وہی ہے جو اوپر بیان کر دیا۔

دیکھیے، مسلمان مرے یا کافر مرے، موت انسانیت کی ہوتی ہے۔ عقیدے پہ مرے یا بے عقیدہ مرے، موت ایک سالم وجود کی ہوتی ہے۔ حق پہ مرے یا بے ہدایت مرے، موت رشتوں کی ہوتی ہے۔ ایک ماں مرتی ہے، ایک باپ مرتا ہے، ایک بیٹی، بیٹا، بہن، بھائی، ان میں سے کوئی بھی مرتا ہے تو خاندان کا زخم ساری عمر نہیں بھرتا۔ بہتا لہو سبھی کا یک رنگ ہوتا ہے، جہاں خون کے تالاب بہانے ہوں وہاں مارنے والے دہشت گرد نہ اپنے عقائد کو جانتے ہیں اور نہ سامنے والوں سے عقیدوں کا  پوچھتے ہیں، پھر چاہے وہ آرمی پبلک سکول کے معصوم بچے ہوں یا لاس ویگاس میں ناچتے گاتے بے فکرے امریکی! بھیانک موت سب کا مقدر ہوتی ہے۔

پس نوشت؛ امریکہ انتہائی اقدام کی دھمکی کیوں دے رہا ہے؟ یہ بات گھر کی صفائی سے ڈائریکٹ پروپورشن رکھتی ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain