کراچی کا چھرا مار چھلاوا کون ہے؟


کراچی کا چھرا مار جب تک گرفتار نہیں ہوجاتا، وہ پراسرایت کے دبیز پردوں میں لپٹا ایک دلچسپ کردار ہے۔ وہ ایسا کیوں کررہا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ وہ لڑکیوں کو قتل نہیں کرتا، وہ پشت کی جانب سے نازک حصے پر وار کرکے عزت نفس کو مجروح کرتا ہے، چھلاوا اب تک 13 سال کی بچی سمیت 11 لڑکیوں کو زخمی کرچکا ہے۔

پولیس کے ذرائع کہتے ہیں کہ چھرا مار ایک نفسیاتی مریض ہے جبکہ حساس اداروں کے ذرائع اسے انصارالشریعہ کا وہ کارندہ بتارہے ہیں جو بغیر محرم کے گھر سے نکلنے کا گناہ کرنے والی عورتوں کو شریعت پر لانا چاہتا ہے۔

چھلاوا راستوں سے واقف ہے، وہ انتہائی اطمینان سے حملہ کرتا ہے اور حملے کے بعد بھاگتا نہیں ہے بلکہ پرسکون انداز میں واپس جاتا ہے جیسے اسے کوئی جلدی نہ ہو، وہ چالاک ہے کہ ایک بار بھی اس نے بغیر ہیلمٹ کے واردات نہیں کی، وہ ہمیشہ بائیں ہاتھ سے وار کرتا ہے، کبھی بھی کسی ایسی عورت پر حملہ نہیں کیا جس کے ساتھ مرد ہو، وہ ہمیشہ پیدل چلنے والی لڑکیوں پر حملے کرتا ہے، اس کے پاس 125 سی سی والی موٹرسائیکل ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق چھلاوہ بظاہر کوئی ذہنی مریض نہیں کیونکہ ذہنی مریض اتنا منظم اور چالاک نہیں ہوسکتا، ذہنی مریض اپنے گھر والوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے اس لیے عموماً ایسے کیسز میں گھر والے خود پولیس کو اطلاع دیدیتے ہیں، یہ ناکام عاشق یا بیوی اور سوتیلی ماں کا ستایا ہوا ہوسکتا ہے کیونکہ راولپنڈی میں گزشتہ برس ایسے ہی ایک مجرم محمد علی نے 14 خواتین پر حملےکیے تھے اور وہ اپنی سوتیلی ماں کا ستایا ہوا تھا جبکہ چیچہ وطنی اور ساہیوال میں 2013 سے 2015 کے دوران ایسے ہی ایک مجرم نے 45 خواتین کو زخمی کیا تھا، محمد وسیم گرفتار ہوا، آٹھ ماہ جیل میں رہا اور پھر غائب ہوگیا، اس کے جرم کا محرک سامنے نہیں آسکا تھا۔

چھلاوے کے کردار نے پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹرز نما مائیک ہولڈرز کی نا اہلیت کی قلعی کو بھی کھول کر رکھ دیا ہے، لاس ویگاس میں اسٹیفن پوڈیک کے قتل عام کے بعد وہاں کے صحافیوں کو جرم کا محرک نہیں ملا تو انہوں نے امکانات پر بہترین نتائج اخذ کیے مگر ہمارے یہاں معاملہ سندھ حکومت کی ناکامی سے آگے نہیں بڑھ رہا، دولے شاہ کے چوہے نما رپورٹرز کے نرغے میں ایک متاثرہ لڑکی کی والدہ آگئیں تو زومبی نما رپورٹرز کا پورا زور اس بات پر تھا کہ کسی طرح وہ خاتون یہ جملہ بول دیں کہ سندھ حکومت ناکام ہوگئی، ان بیچاروں کے ذہن ٹھٹھر کر سکڑ گئے ہیں، سیاسی سطح پر بھی اگر ایم کیوایم کی جانب سے کوئی مطالبہ سامنے آیا تو وہ چھلاوے کی آڑ میں مہاجر علاقوں میں ان سیکیورٹی بیرئیرز کی بحالی کا تھا جو رینجرز کراچی آپریشن میں نو گو ایریاز کے خاتمے کے دوران ہٹاچکی ہے۔

یہاں کراچی سے باہر کے لوگوں کے لیے اہم بات یہ ہے کہ چھرا مار کا مسئلہ پورے کراچی کا مسئلہ نہیں، یہ گلستان جوہر نامی علاقے کا بھی مسئلہ نہیں بلکہ گلستان جوہر کے ایک بلاک اور اطراف کے ایریاز کا معاملہ ہے۔

کراچی پولیس چھرا مار کو گرفتار نہیں کر پا رہی، اس کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ کراچی پولیس اس طرز کے کیسز کو نمٹانے میں مہارت نہیں رکھتی، وہ خطرناک گینگ کو برسٹ کرسکتی ہے مگر ایک پراسرار ایسے تنہا مجرم سے نہیں نمٹ سکتی، جس کے جرم کا محرک بھی پراسرار ہو، کراچی پولیس نے گلستان جوہر سے 20 مشتبہ افراد کو بھی گرفتار کیا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی چھلاوا نہیں، یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سندھ پولیس کو صوبے میں صوبائی حکومت سے زیادہ اختیارات ہیں، عدالت سندھ حکومت کو آؤٹ سائیڈر قرار دے چکی ہے، سندھ پولیس کو عدالت سے ملنے والے بھرپور اختیارات کے بعد اب اپنی اہلیت ثابت کرنا ہوگی

چھلاوے کو گرفتار کرنے کے حوالے سے بہت سے پہلو ہیں، ان میں سب سے اہم مجرم کے پاس آلٹر موٹرسائیکل کا ہونا ہے، کراچی میں سات بڑے مکینک آلٹر موٹرسائیکلیں بناتے ہیں جبکہ چھوٹے مکینک اگر یہ کام کرتے ہیں تو مقامی تھانے کے علم میں ہوتا ہے، چھلاوے کی کارروائی کا انداز بتارہا ہے کہ اسے یقین ہے کہ پولیس اس تک نہیں پہنچ پائے گی، اس یقین کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ مجرم کرمنل یا مشکوک بیک گراؤنڈ نہیں رکھتا، چھلاوے کا اطمینان اس بات کا بھی اظہار ہے کہ وہ گلستان جوہر کے راستوں سے اچھی واقفیت رکھتا ہے اور اس اطمینان کی وجہ سے پولیس ایک علاقے پر فوکس رکھ سکتی ہے، مجرم نے اب تک گیارہ کے گیارہ حملے بائیں ہاتھ سے کیے ہیں یعنی وہ لیفٹی ہے اور پولیس اپنے مخبروں کے ذریعے لیفٹیز لوگوں کا ڈیٹا حاصل کرسکتی ہے، چھلاوے نے آخری پانچ حملے رات نو بجے کے آس پاس کیے اور یہ ٹائم الیکٹرانک میڈیا کا پرائم ٹائم ہوتا ہے یعنی کہا جاسکتا ہے کہ مجرم پبلسٹی کا شوقین ہے، ان اوقات میں پولیس کے سادہ لباس اہل کار اپنا گشت بڑھا کر چھلاوے تک پہنچ سکتے ہیں، یہاں مجرم تک پہچنے میں سادے لباس میں خواتین پولیس اہل کاروں کا کردار اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).