استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہیے


آج صبح ہماری بیٹی بتا رہی تھی کہ انہوں نے گذشتہ روز اپنی سہیلی کے ساتھ مل کر ایک خوبصورت کارڈ تیار کیا ہے، یہ کارڈ وہ اپنی ٹیچرکو دے گی، دوران ”موبائل مطالعہ” ہم نے ”ہوں ہاں” میں جواب دیا، صاحبزادی محترمہ سمجھ گئی کہ ہم نے ان کی بات سنی ان سنی کردی ہے انہوں نے دوبارہ ہمیں جھنجھوڑتے ہوئے بتایا کہ ”آج ٹیچر ڈے ہے میں اپنی ٹیچر کے لئے خوب صورت کارڈ تیار کر کے لے جا رہی ہوں ”پہلے تو غصہ آیا کہ اتنی اچھی پوسٹ پر بحث میں مصروف تھے، پھر اچانک خیال آیا کہ بچے ستائش چاہتے ہیں سو ہم نے پہلی نظر میں ہی جانچ لیا کہ اپنی ٹیچر کو سلام پیش کرنے کے لئے رات بھر بیچاری نے خوب محنت کی ہے، چمکدارکاغذوں، ٹیپ سے بنا کارڈ واقعی خوبصورتی کی مثال تھا۔ جب وہ سکول پہنچ کر اپنی ٹیچر کو دکھائے گی تو کیا ری ایکشن ہوگا؟ یہ تو خیر وہ واپس آکر بتانے والی ہے البتہ قابل فخر بات یہ ہے کہ بچے بھی جانتے ہیں کہ اساتذہ کا کردار ان کے لئے کتنا اہم ہے۔

دفتر پہنچتے پہنچتے اپنے بچپن، لڑکپن اور پھرجوانی میں تعلیم کی سیڑھیوں کی بابت سوچتے رہے، ٹاٹ والے (بلکہ صرف سردیوں میں یہ سہولت میسر تھی) سکول میں پڑھائی سے لے کر آج کے سجے سجائے پرائیویٹ سکولوں کے تمام مدارج ذہن میں گڈ مڈ ہوتے رہے۔ ہم نے سرکاری سکولوں اور کالج میں تعلیم حاصل کی بنچوں سے محروم سکول دیکھے، اساتذہ کی محنتوں کے عینی شاہد ہیں، لیکن جونہی آج کے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف نظر پڑتی ہے تو یکسر مختلف ماحول سامنے آتا ہے۔ آج شکوہ کیا جاتا ہے کہ سرکاری سکولوں میں وہ کچھ نہیں پڑھایا جاتا جو نجی سکول پڑھا رہے ہیں، ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تعلیمی نصاب میں مسلسل کی جانے والی تبدیلیوں کا مقصد ہی یہی تھا کہ پرائیویٹ سکولوں کے کاروبار کو وسعت دی جائے اور آج نصاب بنانے اور تبدیلیاں کرنے والے اپنے مقاصد میں کامیاب رہے ہیں، خیر نجی اور سرکاری سکولوں کی بحث سے ہٹ کر ایک بات پورے وثوق سے کہے دیتے ہیں کہ سرکاری سکولوں، خاص طورپر چھوٹے اضلاع کے اساتذہ کے ساتھ جو ظلم روا رکھے گئے ہیں وہ بذات خود شرمناک ہیں۔ ظاہراً پانچ اکتوبر کا دن اساتذہ کے لئے مخصوص ہے ان کی عزت یاد دلانے کے لئے ، انہیں سلام، ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے لیکن عملی طورپر اگر صوبائی حکومت کے بزرجمہروں کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو شرم آتی ہے کہ استا د کو کیا سے کیا بنا دیا گیا ہے۔

استاد ایک تعلیم دینے والی شخصیت اب کئی دوسرے کے کاموں پر لگی ہوئی ہے، ہمارے سامنے حکومتی اقدامات، احکامات کی طویل فہرست موجود ہے، سوچ رہے ہیں کہ طرح طرح کے عجیب وغریب اقدامات جانے کن اذہان کا کمال ہیں، ایسے لوگ اور ایسے اذہان جنہیں شاید اندازہ نہیں ہوتا کہ استاد بھی انسان ہیں۔ سنئے، احکامات کے مطابق اڑھائی سے تین، ساڑھے تین سال کے بچے کو کچی کلاس میں داخل کیا جائے اور پھر اگلے سال امتحان لئے بغیر اگلی کلاس میں پروموٹ کیا جائے، ایک بچہ جو تھوڑا ہی عرصہ قبل ماں کی گود سے نکلا ہو اور اسے سکول لانا اور پھر اس کو بہلانا اس کی صفائی کا خیال رکھنا بھی اساتذہ کی ذمہ دار ی ہے۔ پھر اگر موسمی شدت یا دیگر وجوہات کی بنا پر بچہ چھٹی کرے تو ذمہ دار بیماری، موسمی سختی نہیں بلکہ اساتذہ قرار پاتے ہیں۔

مزید ستم ڈھایا گیا ہے کہ اساتذہ کے لئے چھٹی کی سہولت بھی کچی کلاس کی پچانوے فیصد حاضری سے مشروط کر دی گئی ہے، حکومتی بزرجمہروں کا ایک اور کارنامہ بھی ملاحظہ ہو۔ گرلز، بوائز سکولوں کے لئے احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ خواتین مرد اساتذہ دوران اسمبلی بچوں کے ساتھ اپنی تصاویر کو وٹس ایپ گروپوں (یہ حکومتی احکامات پر بنائے گئے ہیں) میں شیئر کریں، اب سوال یہ ہے کہ ان گروپوں میں مرد بھی ہیں اور خواتین بھی، یقینا یہ تکلیف دہ اقدام خواتین کی نجی زندگی کے لئے خطرے کا باعث بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی تجاویز کس کے کہنے پر دی گئیں۔ انہیں احکامات کی شکل جس نے دی شاید اسے پتہ نہیں تھا کہ ان تجاویز کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ مقامی افسران تعلیم سے شکایت کی جائے تو فرمایا جاتا ہے کہ یہ تصاویر گروپ میں شیئر کرنے کا مقصد اسمبلی میں اپنی موجودگی ظاہر کرنا ہے۔

 خدا کے بندو، جب تم لوگوں نے اساتذہ کو ایک ایسی مشین بنا کر رکھ دیا جس کا کام تعلیم دینے کے علاوہ اور بہت کچھ ہے تو پھر اس گھٹیا اقدام سے کیا اساتذہ کو تذلیل کرنے کی ضرورت باقی رہ گئی تھی؟ مزید سنئے اب سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو انگلش، اردو ریاضی یعنی تین مضامین کے سوالات پر مشتمل کتابچہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اچھی طرح سے یاد کر سکیں پھر مانیٹرنگ آفیسر ہرماہ آ کر اپنے ٹیب کے ذریعے ہر استاد سے براہ راست وہی سوالات کر کے فوری صوبائی محکمہ کو ارسال کر دیتا ہے، ٹھہرئیے ٹھہریئے مزید ڈرامے ملاحظہ ہوں، حکم نامہ جاری ہوا ہے کہ جو بچے سکول چھوڑ کر کسی دوسرے سکول چلے گئے ہیں انہیں ہرصورت واپس لایاجائے بصورت دیگر کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو بچہ علاقہ چھوڑ کر چلا گیا یا والدین نے اپنی حیثیت کے مطابق بچے کو کسی اے بی سی کٹیگری کے حامل نجی ادارہ میں داخل کرا دیا تو اس میں اساتذہ کیوں کر قصور وار قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے کئی عجیب وغریب اقدامات اور احکامات جاری کرنے والوں کے اپنے بچے بڑے اور اے بی کلاس کے نجی تعلیمی اداروں میں داخل ہیں ۔ خواتین ومرد اساتذہ کا احتجاج بھی اسی بات پر ہے کہ انہیں تو مجبور کیاجاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولو ں میں پڑھائیں، زیادہ سے زیادہ بچے سکولوں میں لائیں لیکن ان افسران کو کیوں کچھ نہیں کہا جاتا جنہیں اپنے زیرنگیں سرکاری سکولوں پر اعتبار نہیں ۔

اساتذہ کا دن منائیے، یہ شوق ضرور پوراکریں لیکن خدارا انہیں وہ عزت بھی دیں جو ان کا حق بنتا ہے، انہیں مشین یا روبوٹ سمجھ کر احکامات کے بوجھ تلے لادنے کی بجائے زمینی حقائق کوتسلیم کرتے ہوئے ان سے وہ کام لیں جو ان کے شایان شان ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).