امریکی وزیر خارجہ تک شائد تمام حقائق پہنچ نہیں پائے


اللہ خیر کرے۔ ستمبر1999ءیاد آگیا۔ اُس ماہ نواز شریف کی فہم وفراست سے مالا مال چھوٹے بھائی، جناب شہباز شریف صاحب کسی خاص مشن پر امریکہ پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے امریکہ میں قیام کے دوران ہی وہاں کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا۔ اس بیان پر کسی ترجمان کے دستخط نہ تھے مگر اس بیان میں ان خبروں پر ”تشویش“ کا اظہار کیا گیا تھا جو دعویٰ کر رہی تھیں کہ پاکستان میں عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین تناﺅ شدت اختیار کر رہا ہے۔

صدر کلنٹن کا یہ دوسرا دورِ صدارت تھا۔ موصوف نے 4 جولائی 1999ءکے دن اپنے ملک کے یومِ آزادی کی تقریبات میں شرکت کے بجائے ان دنوں کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کئی گھنٹے بیٹھ کر ایک فارمولہ تیار کیا جس نے کارگل پر جنگ بندی کو ممکن بنایا۔ موصوف دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں کے ”محافظِ اعلیٰ“ بھی گردانے جاتے تھے۔ ستمبر 1999ءکو جاری ہوئی پریس ریلیز کے باوجود مگر 12 اکتوبر 1999ءہو گیا۔ شہباز شریف کی فہم وفراست اپنے بھائی کی مدد نہ کر پائی۔
فوجی ٹیک اوور کے چند ہی گھنٹوں بعد جنرل مشرف نے پہلا فونUS Centcom کے جنرل زینی کو کیا اور سب OK ہو گیا۔
اب2017ءکی اکتوبر4کو بروز بدھ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف اپنے ہم منصب سے ملے ہیں۔ اس ملاقات کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے فکر مندی سے اعتراف کیا کہ اس کے ملک کو پاکستانی حکومت کے استحکام کی خواہش لاحق ہو چکی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کی حکومتِ پاکستان کے استحکام کے بارے میں فکرمندی خاصی مضحکہ خیز اس وجہ سے بھی محسوس ہوئی کہ بدھ ہی کے روز ریکس ٹیلرسن اپنے دفتر میں صحافیوں کے ایک ہجوم کے سامنے وضاحتیں کرتے پائے گئے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دے رہے۔ انہیں ڈونلڈٹرمپ کی قیادت تلے کام کرتے ہوئے فخر و اطمینان کا احساس ہوتا ہے اور امریکی صدر بھی ان پر کامل بھروسہ کرتے ہیں۔

ہوایوں تھا کہ منگل کا سارا دن امریکی میڈیا میں یہ خبر چھائی رہی کہ چند ماہ قبل ٹرمپ کی ایک تقریر سن کر ریکس ٹیلر سن نے اپنے صدر کو چند دوستوں کے سامنے Moron (احمق)کہا اور اس خواہش کا اظہار کردیا کہ اسے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ امریکی نائب صدر تک جب یہ اطلاع پہنچی تو اس نے فوراً ٹیلرسن کو گھیرلیا اور اس وقت تک موصوف کی جان نہ چھوڑی جب تک امریکی وزیر خارجہ اپنے عہدے پر برقرار رہنے کو آمادہ نہیں ہوگئے۔اپنے بارے میں پھیلی ”غلط فہمیوں“ کو جھٹلانے کے بعد پاکستان میں موجود حکومت کے استحکام کے بارے میں فکر مند ہوا ٹیلرسن مجھے بہت عجیب لگا اور ساتھ ہی ستمبر 1999ءبھی یاد آگیا۔

نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد قائم ہوئی شاہد خاقان عباسی کی حکومت کو محض امریکی وزیر خارجہ کی نیک تمنائیں استحکام فراہم نہیں کر سکتیں۔ اس حکومت کی طاقت کا اصل انحصار پاکستان مسلم لیگ نون کی قوت پر ہے اور اس جماعت کے ایک قدرآور رہ نما چودھری نثار علی خان صاحب نے شاہد خاقان عباسی کی حکومت میں وزارت کا عہدہ لینے سے انکار کردیا تھا۔ اس حکومت کے وزیر خارجہ نے جب امریکی دورے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ”اپنا گھر ٹھیک“ کرنے کی ضرورت پر زور دیا تو چودھر ی صاحب نے خواجہ آصف کو ”دشمن کی زبان بولنے“ کا طعنہ دیا۔ وزیراعظم عباسی کی جانب سے خواجہ آصف کے بیان کی حوصلہ افزائی بھی وزیر خارجہ کے کام نہ آپائی۔

خواجہ آصف کی اپنی ہی جماعت کے سرکردہ رہ نماﺅں کے ہاتھوں ”عزت افزائی“ کے بعد اس ہفتے کے آغاز میں وزیر داخلہ احسن اقبال احتساب عدالت کے بند دروازوں کے باہر کھڑے ”ریاست کے اندر ریاست“ والی دہائی مچاتے پائے گئے۔ اس واقعے کے بعد ان کے خواجہ سعد رفیق جیسے ذہین ساتھی،نجی طورپر صحافیوں کو یہ بتاتے پائے گئے کہ وزیر داخلہ کو موجودہ حالات میں ”نیویں نیویں“ رہ کر ”ڈنگ ٹپانے“ کی عادت اختیار کرنا چاہیے۔ نظر بظاہر،احسن اقبال فی الحال ”ڈنگ ٹپانے“ پر آمادہ نہیں ہورہے مگر کب تک؟ ذہین آدمی ہیں۔سرکش ترین گھوڑے پر بھی جب زین ڈالی جائے تو چند روز ”اڑی“ دکھاتا ہے مگر پھر ”رواں“ ہوجاتا ہے۔ اس حکومت کو کچھ وقت ملا تو احسن اقبال بھی خواجہ سعد رفیق والی بردباری سیکھ ہی جائیں گے۔

بردباری کا کمال مظاہرہ اگرچہ اسی حکومت کے انتہائی قابل وزیر قانون، زاہد حامد نے انتخابی قوانین میں ہوئی ترامیم کے حوالے سے بھی کیاہے۔ ان پر ان ترامیم کی آڑ میں مسلمانوں کو انتخاب لڑنے سے قبل عقیدہ ختم نبوت پر ایمان کا حلف اٹھانے سے مبرا بنانے کا جھوٹا الزام لگایا گیا۔ ہاتھوں میں نئے قانون کا مسودہ لہراتے ہوئے منگل کی شام زاہد حامد ایک ماہر لسانیات کی طرح مسلسل وضاحتیں دیتے پائے گئے۔ اس کے عین ایک روز بعد سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے مگر اپنے ایوان میں موجود اپوزیشن کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر انتخابی ترامیم کے حوالے سے چند ”کلیریکل غلطیوں“ کا اعتراف کر دیا۔ جنہیں ہنگامی طورپر درست کر دیا جائے گا۔

سردار ایاز صادق کی معاملہ فہمی کے باوجودبدھ ہی کی سہ پہر لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے الحمرا ہال میں ہوئے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف صاحب نے نواز شریف سے اس وزیر کی فوری فراغت کا مطالبہ کر دیا جو انتخابی قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے ”کلیریکل غلطی“ کا مرتکب ہوا تھا۔ ”حمزہ حمزہ حمزہ“ کی تکرار کے ساتھ اسی تقریب میں نواز شریف کو یہ بات بھی سمجھادی گئی کہ لاہور میں انتخابات جیتنے ہیں تو انحصار ”تایا ابو“ کو اپنے بھتیجے پر کرنا ہو گا، بیٹی مریم نواز پر نہیں۔

امریکی وزیر خارجہ تک شاید یہ تمام حقائق پہنچ نہیں پائے ہیں۔ اسے خبر ہوتی تو موجودہ حکومتِ پاکستان کے استحکام کے بارے میں شاید مزید فکرمند نظر آتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).