انسان کے سامنے شیطان کی ہار


وہ زمانہ کتنا اچھا تھا جب انسان کو ورغلانے کی ذمہ داری صرف شیطان نبھایا کرتا تھا۔ انسان سے مہذب قسم کے گناہ سرزد کرواتا کہیں کلو دودھ میں پاؤ دو پاؤ پانی ملانے کا کہتا۔ اول نماز سے روکتا اگر ناکام ہوجاتا تو نمازی کو بعد نماز کے اپنی پرانی چپل کے بدلے کسی دوسرے نمازی بھائی کی چپل چرانے پہ اکساتا۔

بازار میں خواتین کو دیکھ کر اس کے ایمان کو عارضی طور پر متزلزل کرنے کی نرم ملائم سی کوشش کرتا ایمان اس وقت ہی ڈانوا ڈول ہوتا جب مقابل خاتون پر مسلط شیطان بھی اس قدر ماہر ہوتا کہ خاتون میں دوسرے مرد کے لئے جذبہ انسیت بیدار کرسکے۔ ورنہ مردوں پر مسلط شیطان اپنے دوست کی نا اہلی پر خود کو اور شرف شیطنیت کوستا رہ جاتا تھا۔

شیطانوں کی باقاعدہ میٹنگز ہوتیں تھی ہنگامی بنیادوں پر اجلاس طلب کیے جاتے تھے۔ نمبروار ایک ایک شیطان سے رپورٹ لی جاتی تھی۔ آج کتنے بچوں کو مدرسے جانے سے روکا، کتنی بیویوں کو خاوند سے لڑوایا۔ کتنے پڑوسیوں کے ہاں سے دوسرے پڑوسی کے ہاں پتھر پھنکوائے۔

ایسا نہیں تھا! اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھا جاتا کہ کتنے بچوں کو اسکول کے بدلے گراونڈ میں بھیجا۔ کرکٹ فٹبال جیسے صحت افزا کام بھی شیطانی چرخے میں شامل رہتے۔

وقت کا پہیہ گھومتا گیا۔ انسانی خواہشات کا پیالہ ڈرم کی صورت اختیار کرگیا، شیطان کے سارے جال پرانے ہوگئے۔ جیسے لوگ بوڑھے مداری کے مخصوص کرتب سے اکتا جاتے ہیں ایسے ہی لوگ شیطان کی روایتی پٹیوں سے اکتا گئے۔ شیطان نے اللہ سے اجازت مانگی تھی کہ مجھے انسانوں کو گمراہ کرنے کا موقع دیا جائے۔ انسان نے شیطان سے مطالبہ کرلیا کہ اب آپ انسان کو ورغلانے کی تمام ذمہ داریاں اپنے اناڑی چیلوں سے لے کر ہمیں سونپ دی جائے۔

شیطان کو تا قیامت تک اس دنیا کے منظر نامے پر ہر حال میں رہنا تھا۔ لہذا یہ عالم شیطانیت کی تاریخ کا سیاہ ترین معاہدہ تھا۔ یہ معاہدہ ماتحت شیاطین کے لئے اتنا ہی گراں تھا۔ جتنا ہماری تاریخ میں بنگلہ دیش تسلیم کرنے کا معاہدہ اور ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان۔ نظریاتی شیاطین نے اس محرومی پر برف پوش پہاڑوں کو گلے لگا کر جان دے دی۔

انسان تو انسان ہے، شیطان انسان کی چال دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ شیطان نورانیت کا لبادہ اوڑھ کر کم علم لوگوں کے سامنے آکر اپنے خدا ہونے کا اقرار کرواتا۔ وہاں بھی اگر کوئی امام غزالی کا شاگرد ٹکرا جاتا تو بیچارا الٹے پاوں بھاگ جاتا۔ مگر انسان، اس نے خدا اور اس کی خدائی پر ملحدین کی سیاہ کاریوں کے ذریعے ایسے ایسے سوالات اٹھائے، ایسے علم گاڑے، نئے نظریات کی بنیاد ڈالی کہ لوگوں کو اسلام سے متنفر کردیا۔

وہ دودھ میں خالص پانی ملواتا تھا، اس نے وائٹ کیمیکل پاوڈر ایجاد کرکے دودھ میں ملا دیا، جس سے لوگوں کو جان کے لالے پڑ گئے۔ وہ گاؤں دیہات میں لوگوں سڑے ہوئے پھلوں سے شراب بنانے کی ترغیب دیتا، پھر بنانے والے کو اس شراب کا عادی بناتا، اور اکثر شرابی تو عادی بنتے ہی حق گوئی شروع کردیتے بڑے بڑے شاعر بن جاتے مشاعروں میں شیطان کی خوب کلاس لیتے۔

جبکہ انسان نے اس طریقے کو دقیانوسی کہا۔ افیم کا جو استعمال شیطان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا اس سے حضرت انسان نے ہیروین جیسی جان لیوا چیز بنائی اور کہا اب دیکھتا ہوں کون مائی کا لعل شعر کہتا ہے۔ مشروبات کے نام پر ایسا ایسا زہر ایجاد کیا جو بمشکل ہی انسانی زندگی کو پچاس کا ہندسہ کراس کرنے دیتا ہے۔

کتنے پیارے دن تھے۔ جب سینما شوبزنس یہ تمام صنعتیں شیاطین کے کنٹرول میں تھی۔ اس زمانے کے گلوکارائیں نور جہاں، فریدہ خانم، منی بیگم، اپنے ناموں کی طرح بارعب ہوا کرتی تھی۔ لمبی اونچی جسامت۔ کھڑے ہوکر جب گانا گاتیں تو ایسا لگتا ایوب خان تقریر فرما رہے۔ غیرت کی تعلیم کا اندازہ اس بات سے لگائے وحید مراد تین گھنٹے کی فلم میں اپنے ایک مخالف کو ڈیڑھ گھنٹہ اس لیے پیٹتا ہے کہ اس نے وحید مراد کو ماں کی گالی دی تھی۔ جبکہ آج فلموں میں ماں کا کریکٹر صرف تمسخر کے لئے ہوتا ہے۔ مرحوم محمد علی ہر وقت جج صاحب کی لغزشوں سے پردہ اٹھاتے۔ وکیلوں کی فیس ادا کرنے کے لئے بسوں کی اسٹپنیاں چراتے آج کی طرح نہیں کہ ڈان بن کر شہر کو برباد کردیتے۔ ہمیں کالے کوٹ کی سیاہ کاریاں دکھاتے۔

گزرے زمانے ایک بدنام ہندوستانی گانا ” بتی بجھا دو، پردے گرادو، بند کمرے میں پیار کریں گے“ اس زمانے کا سپر ٹاپ شیطانی گانا تھا۔ جبکہ غور کیا جائے تو اس گانے میں بھی پردہ داری کا دامن ہاتھ چھٹنے نہیں دیا گیا ہے۔ پردے بھی گرانے کا کہا جارہا ہے بتی بجھانے کی استدعا بھی ہورہی ہے۔ دروازے کھڑکی بھی بند کیے جارہے۔ مطلب تمام احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لایا جارہا۔ آج کی فلموں میں کون کرتا ہے اتنا۔ کیا سنی لیون سے یہ امید کی جاسکتی ہے۔

پس ثابت ہوا کہ شیطان سے مقابلہ آسان جبکہ انسان کی شیطانیت سے لڑنا ناممکن ہے۔ کیونکہ شیطان لا حول ولا قوة الا باللہ کی مار ہے اور انسان۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).