کراچی حملہ آور ذہنی مریض ہے تو ٹارگٹ صرف خواتین ہی کیوں؟‘


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گذشتہ شام کو ہونے والے واقعے کے بعد طاہرہ بانو کے گھر والے خوف زدہ ہیں۔طاہرہ بانو کے بھائی سیّد رضوان اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طاہرہ پیشے سے کلینیکل سائیکالوجسٹ ہیں اور وہ جمعرات کی شام گلستانِ جوہر میں خواتین پر ہونے والے حملوں کے خلاف احتجاج میں حصہ بھی لینا چاہتی تھیں لیکن وقت نہ ہونے کی وجہ سے نہ جا سکیں۔

28 سالہ طاہرہ بانو جمعرات کی شام گلستانِ جوہر بلاک 12 میں ایک مقامی سٹور کے پاس اے ٹی ایم استعمال کرنے رُکی تھیں جہاں ان پر نامعلوم افراد نے چاقو سے وار کیا۔ سیّد رضوان نے بتایا کہ ’طاہرہ اے ٹی ایم استعمال کر کے جب گاڑی میں بیٹھیں تو ایک موٹرسائیکل اُن کی گاڑی کے ساتھ آکر رُکی اور موٹر سائیکل سوار نے گاڑی کے بمپر کی طرف اشارہ کیا جس سے طاہرہ کو لگا کہ بمپر پھر لٹک رہا ہے۔ وہ جب دیکھنے کے لیے گاڑی سے اُتر کر جھکیں تو موٹرسائیکل سوار نے اُن پر وار کر دیا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران طاہرہ فوراً مڑ گئیں جس کی وجہ سے تیز دھار آلہ اُن کو پیٹ میں لگا اور باقی چھری کے وار سے ان کی پُشت اور بازوؤں پر زخم آئے۔ طاہرہ نے موٹرسائیکل سوار کے جاتے ہی گاڑی خود چلانے کی کوشش کی لیکن تھوڑے ہی فاصلے پر گاڑی روک دی۔

رضوان نے بتایا کہ اُن کی گاڑی کے ساتھ ہی ایک رکشہ آ رہا تھا جس میں بیٹھی خواتین نے رکشہ والے سے طاہرہ کو ہسپتال پہنچانے کا کہاـ جس پر گاڑی پارکنگ میں لگا کر رکشہ والا طاہرہ کو ہسپتال لے گیا اور پھر ان کے بھائی کو مطلع کیا۔

طاہرہ کو دارالصحت لے جایا گیا جہاں اُن کو پانچ ٹانکے لگےـ رضوان نے بتایا کہ ڈاکٹروں کے مطابق زخم کچھ وقت میں صحیح ہوجائیں گے کیونکہ زخم بہت گہرے نہیں ہیں۔ سید رضوان نے مزید بتایا کہ ہسپتال پہنچتے ہی اُنھیں پولیس نے صحافیوں کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی جانے کو کہا۔

’ہسپتال میں پہلے کوئی بھی نہیں تھا لیکن اچانک سے پولیس کی بھاری نفری پہنچ گئی۔ میں اپنی بہن سے بات کر کے بل دینے کے لیے نکلا ہی تھا کہ پولیس نے کہا اب آپ بے شک گھر چلے جائیں یا طاہرہ کی گاڑی کا پتہ لگائیں۔ مجھے یہ بات عجیب لگی کیونکہ میرے خیال میں جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا اب بات چھپانے کا کیا فائدہ؟‘

جمعرات کی دوپہر تک بن ہاشم کے پاس کافی رش تھا، لیکن بیکری کے قریب دکانداروں نے بتایا کہ کل شام سے یہاں سنّاٹا ہے۔ بیکری کے سامنے مُرغی کی دُکان پر کام کرنے والے محمد یامین قریشی نے بتایا کہ ’رات نو سے دس بجے کے بعد یہاں سّناٹا ہو جاتا ہے لیکن کل رات کے واقعے کے بعد صبح بھی کم خواتین بازار آئیں جو ہمارے لیے تشویش کی بات ہے کیونکہ یہ بازار خواتین کی وجہ سے ہی چلتا ہے۔‘ یامین نے کہا کہ وہ اِس بات کو نہیں مانتے کہ حملہ آور ذہنی مریض ہےـ ’اگر ذہنی مرض میں مبتلا ہے تو صرف خواتین کو ہی کیوں ٹارگٹ کر رہا ہے؟ اب تک کسی مرد کو کیوں نہیں مارا؟ یہ بہت سوچ سمجھ کر کیا جا رہا ہے تاکہ خواتین گھر تک محدود ہو کر رہ جائیں۔‘

وہیں پر کھڑے راہگیر قیصر امام نے کہا کہ ’یہ واقعات اور حملہ آور کا طریقہ واردات سنہ 1980 کی دہائی میں ہونے والے ہتھوڑا گروپ کے حملوں سے کافی مماثلت رکھتا ہےـ اُس وقت بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے۔‘ پولیس بھی اسی شش و پنج میں مبتلا ہے کہ آخر ایسا کون اور کیوں کر رہا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے ’سخت‘ احکامات کے باوجود پولیس اب تک حملہ آور کا سُراغ نہیں لگا سکی ہے، جبکہ وزیرِاعلیٰ نے حملہ آور کے سر کی قیمت پانچ لاکھ روپے رکھی ہے۔ دوسری طرف ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کراچی مشتاق مہر نے میڈیا سے خاص طور پر اپیل کی ہے کہ وہ ’واقعے کو رپورٹ ضرور کریں لیکن سنسنی خیز بنا کر پیش کرنے سے گُریز کریں۔‘

ایس پی گلشن، غلام مرتضیٰ بھٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک ’کئی گرفتاریاں ہو چکی ہیں، لیکن جب تک واقعے سے جُڑے کسی خاص بندے کی شناخت نہیں ہوتی تب تک کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔‘ ادھر جامعہ کراچی نے اپنے طلبہ پر یونیورسٹی کی حدود میں ہیلمٹ پہننے پر پابندی بھی لگا دی ہے اور ہیلمٹ نہ پہننے پر جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز پولیس نے ایک اہم گرفتاری کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کیا لیکن اُس کے باوجود ایک اور واقعہ کل شام ہی کو پیش آیا جس کے بعد تیز دھار آلے سے زخمی ہونے والی خواتین کی تعداد 12 ہو چکی ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp