لفافہ جرنلسٹس کا نوحہ ۔۔۔ ہمارے لفافے کہاں ہیں؟


عمر چیمہ، عمار مسعود، احمد نورانی ہی نہیں، ارشد شریف، کاشف عباسی اور دیگر کون ہے جو اس مافیا سے محفوظ ہے یہ تو چلیں اینکرز ہیں، ہم رپورٹرز کا تو پوچھیے ہی مت۔۔ نجانے کون نگوڑ مارے ہمارے لفافے لے اُڑتے ہیں، “بہت شور سنتے ہیں پہلو میں دل کا” پھر جو ڈھونڈنے نکلو تو نہ لفافے کے اندر چھپا مال ملتا ہے، نہ لفافہ، میں پوچھتی ہوں کیوں آخر کیوں؟

اب تو نئی ٹیکنالوجیاں آگئیں، ارے بد بختوں کچھ دینا ہی ہے تو بینک سے رقم منتقل کردو، مگر نہ جی، لگتا ہے دینے والوں کو ابھی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی وہ لسٹیں بھولی نہیں جس میں سب کا نام تھا وہ بھی اکاونٹ نمبرز کے ساتھ۔

اچھا چلو، فی خبر فی آرٹیکل، فی کالم کوئی اجرت دینا ہی ہے تو ایزی پیسہ سے لوڈ کروا دو، سچ میں اب تو اس سے بھی لاکھوں روپے منتقل کیے جارہے ہیں، مگر اس میں شناختی کارڈ استعمال ہو گا، لگتا ہے یہ لینے دینے والے بہت ہی ڈرپوک ہیں اسی لیے یوں بھی تو نہیں دیتے۔

عمر چیمہ نے پاناما کی خبر بریک کی، بہت سوں نے کہا کہ خبر انٹرنیشنل ہے اس لیے بہت موٹے لفافے کے عوض بک گیا۔ بیچارے چیمہ صاحب کب سے ٹوئٹر پر اس قوم سے بار بار سوال کر رہے ہیں کہ آخر وہ لفافے جن کا بڑا ذکر ہوتا ہے، کہاں گئے، کوئی سرمہ چور وہ موٹے موٹے لفافے لے اُڑا۔ سراسر زیادتی ہے بھئی، یوں بھی بدنام اوپر سے لفافہ بھی نہ ملے، کوئی بات ہوئی بھلا۔

کالم نگار عمار مسعود بھی عرصے سے سن رہے ہیں کہ انہیں فی کالم لفافہ مل رہا ہے، البتہ ان کے لفافے کی ضخامت ان کے کالم کے موضوع کے اعتبار سے شاید طے ہوتی ہوگی، ہمارے اندازے سب درست، مگر انہیں بھی لفافے کی ترسیل کرنے والا بیچ میں ڈنڈی مار جاتا ہے، عمار صاحب راہ تک رہے ہیں مگر نہ لفافہ ملا نہ وصال صنم۔ ان دیکھے لفافوں کی حسرتوں کے ہاتھوں تنگ آکر انہوں نے چند روز قبل ایک پرتعیش گاڑی کے سامنے کھڑے ہوکر تصویر کھینچوائی ساتھ لکھ دیا “لو جی لفافوں کی برکت سے آج نئے ماڈل کی فراری کا بھی سودا ہوگیا، اب ہم اس میں بیٹھ کر ایماندار اور سچ کہنے والے صحافیوں کو منہ چڑائیں گے”

ارشد شریف تو بیک وقت پیمرا، آئی بی اور نجانے کن کن سے نبرد آزما ہیں، اس مرد آہن کو بھی اب تک لفافہ نہ ملنے کا قلق تو ہوگا، حامد میر کی صحافت کے لیے گولی کھانےکی قربانی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، پہلے میر صاحب پر الزام لگا کہ دشمن ملک سے لفافے نہیں بوریاں پکڑی ہیں، اب کہا جاتا ہے کہ ان کے لفافے مقامی مینوفیکچرنگ سے آتے ہیں مگر مجھے قوی امید ہے میر صاحب کو لفافے تو کیا اب تک نوٹوں کی گڈیوں سے بھری وہ بوریاں بھی موصول نہیں ہوسکی ہوں گی ۔

مطیع اللہ جان کو تو اپنے پروگرام اور شعلہ بیانی کے باعث جان کے ہی لالے پڑے ہیں، ہائے مگر وہ تھوک سے سیل بند لفافے کہاں ہیں۔ امید ہے کہ ڈاکیا جلد وہ لفافے پوری ایمانداری سے ان تک پہنچاوے گا تاکہ مطیع اللہ کوئی نئی ماڈل کی چکا چک گاڑی لے سکیں۔

نام تو اور بھی کئی بڑے ہیں، مگر راقم اپنی دکھیاری داستان بھی سامنے رکھنا چاہتی ہے، میں نے عمران خان کے جلسے میں شرکا کی تعداد کے حوالے سے ایک طنزیہ مزاحیہ وڈیو بنائی، خوب وائرل ہوئی کہا گیا کہ یہ وڈیو وزیراعظم ہاوس میں چلنے والے مریم نواز میڈیا سیل نے لفافہ دے کر بنوائی۔۔۔میں پوچھنا چاہتی ہوں یہ بیچ کا چور کون ہے جو میرا لفافہ لے اُڑا؟

چلو بھول گئی لفافے کا غم، مگر “پھٹیچر” اسٹوری فائل کرنے پر خوب زور و شور سے کہا گیا کہ اس وڈیو کے عوض مجھے ڈالرز سے بھرا بریف کیس ملا ہے۔ کہاں ہے سوٹ کیس۔۔ اوہ میرا مطلب بریف کیس؟ میرے بھی کچھ خواب ہیں آخر میں بھی زندگی میں کچھ کرنا چاہتی ہوں برائے مہربانی وہ ڈالرز والا بریف کیس مجھے فوری دیا جائے۔

کسی خبری نے کہا مجھے ایک وڈیو کے بعد لگنے والے بے سروپا مذہبی الزامات کےعوض کینیڈا کی شہریت ملنے لگی ہے، ارے او نیک بختوں، کوئی سرا تو دیتے جاو کہاں سے مل رہی ہے، کون دے رہا ہے۔

ابھی کل ہی تازہ تازہ خبر ملی ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ میں سوال پلانٹڈ تھے اور یہ کہ ہم صحافیوں کو فرمان بردار شاگرد کی طرح بیٹھ کر سر ہلانے اور خاموشی سے ڈی جی صاحب کی بریفنگ سننے کے عوض لفافے ملے۔۔ قسمے یہ لفافے کا تقسیم کار کوئی سلیمانی ٹوپی تو نہیں پہنتا ؟ ہمیں تو نظر نہیں آیا۔ اور اگر چند افراد کو ملنے کی تصدیق ہوجاتی ہے تو میں پوچھنا چاہتی ہوں یہ امتیازی سلوک کیوں؟ سر تو ہم نے بھی بہت ہلایا تھا، سوال تو ہم نے بھی بڑی دبی دبی سے آواز میں پوچھا تھا پھر لفافہ کیوں نہ ملا ؟

میں اپیل کرتی ہوں جناب وزیر اعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس سے کہ ہم صحافیوں کے ساتھ ہونے والی اس کھلی دھوکہ دہی کا فوری نوٹس لیں، ہمارے لفافے، نوٹوں سے بھری بوریاں، فراریاں اور ڈالرز سے لبالب بریف کیس ہمیں واپس دلوائے جاویں اور اس بیچ کے بچولی کوجو ہمارا مال لفافوں سمیت کھا جاتا ہے، قرار واقعی سزا دی جاوے۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi