آپ کیا کرتے ہیں،جناب عالی؟


ایک چھوٹی سی محفل میں جب میں نے ایک خاص موضوع پر نواز شریف کے موجودہ موقف کی حمایت میں کچھ کہنا شروع کیا تو کسی نے میری بات کاٹ دی ۔ بولے تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو۔ہمیشہ توتم نے نواز شریف کی سیاست کی مخالفت کی ہے۔ انہیں دائیں بازو کے قدامت پرستوں کاحامی سمجھا ہے۔ اور اب تم ان کا ساتھ دینا چاہتے ہو۔ تب مجھےکینزسے منسوب ایک واقعہ یاد آیا۔ کینز بیسویں صدی کے ایک عظیم ماہر معاشیات تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک اہم اجلاس میں جب انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا تو ایک سرکاری افسر نے اعتراض کیا کہ پہلے توآپ کچھ اور کہتے تھے اور اب آپ کی رائے بدل گئی ہے۔ کینز نے جواب دیا کہ جب حقائق اور حالات بدل جاتے ہیں تو میں بھی اپنی رائے تبدیل کردیتا ہوں۔ آپ کیا کرتے ہیں، جناب عالی؟۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جن حقائق اور حالات سے ہمارا ملک اور معاشرہ اس وقت نبردآزما ہے ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک کٹھن وقت ہے جو ہم سے یہ تقاضہ کررہا ہے کہ ہم اپنی محبتوں ، نفرتوں اور تعصبات کے حصار سے نکل کر اور اپنی پرانی وابستگیوں سے قطع نظر، اپنی رائے قائم کریں۔ افسوس کہ یہ بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ انسانی تعلقات میں اتار چڑھاو کے مراحل سے ہمارا سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ تعلقات کتنے نازک اور پیچیدہ ہوتے ہیںاور یہ بھی کہ غیروں کے لئے اہم کردار اور عمل کے جو پیمانے متعین کرتے ہیں وہ اپنوں کے لئے نہیں ہوتے۔ پھر ایسے حادثے رونما ہوتے ہیں اور تعلقات میں ایسے موڑ آتے ہیں کہ بیٹھ کریہ سوچنا پڑتا ہے کہ ہم کس کے ساتھ ہیں یا ہماری رائے کیا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں اس وقت کیا کچھ ہورہا ہے اور کیسی کیسی سرخیاں ہماری بے چینی میں اضافہ کررہی ہیں اس کا ذکر میں جان بوجھ کرنہیں کررہا۔ ایک وجہ تویہ ہے کہ اتنا کچھ ہورہا ہے کہ اسے سمیٹنے کی میں کوشش نہیں کرسکتا۔ کسی بھی ایک واقعہ کو پوری صورت حال کا استعارہ بتایا جاسکتا ہے۔ اس ہفتے کی بات کریں تو جو ڈرامہ ہم نے پیر کی صبح ٹیلی وژن پر براہ راست دیکھا وہی بہت کچھ ہے۔ یعنی احتساب عدالت کے باہر ، ملک کے وزیر داخلہ کھڑے ہیں اور رینجرز کے اہل کار ان کو اندر نہیں جانے دے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ رینجرز کو وزیر داخلہ کے ماتحت سمجھا جائے گا۔ کیا یہ منظر اس بات کا اشارہ نہیں ہے کہ حقائق اورحالات تبدیل ہورہے ہیں؟ پھر ایک ناراض وزیر داخلہ یعنی احسن اقبال کی گفتگو بھی شاید آپ نے سنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میرے ماتحت کہیں اور سے احکامات لیں، یہ نہیں ہوسکتا۔ اور ہاں، ریاست کے اندر ریاست والی بات بھی تھی۔آپ دیکھیں اور سوچیں کہ یہ کیا مسئلہ ہے اور ہماری تاریخ کی پیچدارراہداریوں میں اس کی گونج کتنی دور تک سنائی دیتی ہے۔ سویہ توایک تصویر ہے۔ایک دوسری تصویر بھی کئی نئی اور پرانی کہانیوں کے غبار میں لپٹی ہوئی ہے اور میرے لئے ایک استعارہ ہے۔ منگل کے دن سابق (اور نااہل) وزیراعظم نواز شریف اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ایک پر شور اجلاس سے خطاب کررہے ہیں۔ انہیں چوتھی بار پاکستان مسلم(ن) کا بلا مقابلہ صدر منتخب کیا جاچکا ہے۔ اب سینئے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اور سوچئے کہ وہ یہ کیوں کہہ رہے ہیں۔ یہ تقریر آپ نے شاید براہ راست سنی ہو یا اس کے ٹکڑے ٹیلی وژن کی خبروں اور ٹاک شوز میں دیکھے ہوں یا اخباروں نے اس کی جو سرخیاں نکالی تھیں ان پر آپ کی نظر گئی ہو تو بتائیے کہ نواز شریف کی اس تقریر میں آپ کے لئے یا کسی اور کے لئے کیا پیغام تھا؟ ایک بات توانہوں نے یہ کہی کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس ایک نکتے کو اٹھالیا جائے توپوری بات کہنا دشوار ہوجائے۔ اس اجلاس میں پارٹی کے دوسرے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا ۔ لہجے کچھ بدلے بھی لیکن محسوس یہ ہوا کہ حکمراں جماعت کے یہ افراد حزب اختلاف کا طنطنہ اور للکار اپنے ساتھ لائے ہیں۔ ایک چھوٹی سرخی، احسن اقبال کے نام سے ’’ 70سال سے بہت ہوچکا ، ڈومور والوں کو نو مور۔‘‘ یہ تو دوتصویریں ہوئیں کئی دوسری تصویریں بھی اس ہفتے کے حالات حاضرہ کے البم میں موجود ہیں۔ چند تصویریں ایسی ہیں کہ جن کو آپ صرف اپنے تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر جب نواز شریف اور ان کے ساتھی کنوینشن سینٹرمیں تقریریں کررہے تھے توچند میلوں کے فاصلے پر اسپیشل کور کمانڈرز کانفرنس جاری تھی۔یہ کانفرنس بھی سات گھنٹے طویل تھی۔ اس کا بڑا موضوع یقیناً سیکورٹی کی صورت حال تھا ۔ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف زمین پرجوجنگ جاری ہے اس سے ایک بڑی جنگ ہمارے ذہنوں میں چل رہی ہے۔ اور یہی میرا سوال ہے کہ ذہنوں میں لڑی جانے والی اس جنگ میں آپ کس طرف ہیں؟ کیا آپ کی اپنی کوئی رائے ہے؟ کیا یہ رائے تبدیل ہوتی رہی ہے؟ اور ہاں، اگر یہ رائے تبدیل ہوئی ہے تو اس کی بنیاد کیاتھی ۔ حقائق اور حالات میں تبدیلی؟

جیسا کہ میں نے کہا ، میں تمام اہم سیاسی واقعات کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ ان تمام واقعات کی مخلوط دھمک خطرے کی گھنٹی کی طرح سنائی دے رہی ہے۔ آپ شاید یہ کہیں کہ خطرے کی گھنٹی وہ دھن بن چکی ہے کہ جسے ہم ’’ سگنیچر ٹیون‘‘ کہتے ہیں۔ کوئی ایک دولفظ کہے اور آپ سمجھ لیں کہ یہ تو پاکستان کے بنیادی بحران کی جانب ایک اشارہ ہے۔ اس بحران کی تشریح،ایمانداری اور بصیرت کے ساتھ، ہمارے عوامی میڈیا کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے کچھ سیکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ہم تو کراچی کے ٹریفک جام سے بھی کچھ نہیں سیکھ پاتے۔ یعنی جوکچھ دکھائی دے رہا ہے اسے بھی غور سے دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بظاہر موجود نہیں ہے۔ اور ان علمی اور فکری کوتاہیوں کے باوجود، ہم اپنی رائے کا اظہار اتنی شدومد اور اعتماد سے کرتے ہیں کہ جیسے کسی دوسرے نقطہ نظر یا سچائی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس ذہنی شدت پسندی نے سنجیدہ گفتگو کے امکانات کو معدوم کردیا ہے۔

عدم برداشت کے ماحول میں ایک خاص رائے رکھنے والے جوجی چاہے کہیں اور مختلف رائے رکھنے والے خاموش ، سہمے بیٹھے رہیں۔ اسے ہم ’ سیلف سنسر شب‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس صورت حال سے بھی پاکستان کے بنیادی بحران کا ایک خاص رشتہ ہے۔ وہ یہ کہ کیا پاکستان میں ، کسی صورت میں بھی ، جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوسکتی ہیں،اور اگر نہیں تو اس کی کتنی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یہ تو وہ سوالات ہیں جو تاریخ کے مطالعے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اس کے چند پہلو ایسے ہیں جن کا تذکرہ اب نواز شریف کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کی70سالہ تاریخ میں کسی وزیراعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ جس طرح اب وہ یہ بات کہہ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی رائے تبدیل کی ہے۔ ویسے ہماری سیاست میں رائے بلکہ پارٹی کی تبدیلی کاکافی رواج رہا ہے۔بہت سے لوگ اپنے مفادات کے حصول میں ادھر سے ادھر لڑھک جاتے ہیں اور سامنے کی سچائیوں کوتسلیم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ نواز شریف کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے لئے ایک خطرہ مول لے رہے ہیں۔ ان کی اپنی جماعت میں کوئی نرمی کا مشورہ دیتا ہے تو کوئی اعلان جنگ کا اور وہ خود باغیانہ انداز اپنارہے ہیں۔ یہ تو وہ ہے جوہم دیکھ رہے ہیں۔ پردے کے پیچھے کیا کچھ ہورہا ہے اس کی ہمیں خبر نہیں یعنی اس وقت ہم اپنی رائے کتنی ہی بدلیں، ہماری سوچ، ہماری سمجھ اور ہماری برداشت کا امتحان ابھی باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).