بھٹو کیوں زندہ ہے؟


مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کا اجلاس تھا۔ اسلام آباد کا کنونشن سینٹر پرجوش پارٹی ورکرز اور پارٹی عہدیداروں سے اٹا پڑا تھا۔ نااہلی کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کا موقع تھا۔ ہزاروں کارکن ہال میں جمع تھے۔ تالیوں کی گونج میں میاں نواز شریف پنڈال میں داخل ہوئے۔ جوشیلے ترانوں کا بھی بھرپور انتظام موجود تھا۔ نواز شریف کی تقریر سے پہلے ہر وزیر، مشیر نے حتی الامکان زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ تالیوں اور نعروں کے جھرمٹ میں نواز شریف اسٹیج پر تشریف لائے کارکنوں کے جوش و جذبے کا شکریہ ادا کیا۔ مجھے کیوں نکالا کے اسباب پر روشنی ڈالی۔ سقوط ڈھاکہ کو یاد کیا۔ جمہوریت کے لئے دی گئی قربانیوں کا تذکرہ بھی ہوا۔ جب جمہوریت کے لئے دی گئی قربانیوں کا تذکرہ ہوا تو کچھ ذکر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور سابقہ وزراء اعظموں کا بھی کیا گیا۔میں اس سارے منظر کو ٹی وی اسکرین پر دیکھ کر اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا وجہ ہے بھٹو زندہ رہتا ہے۔ بے نظیر دور کی کرپشن ہو، زرداری دور کی بد انتظامی ہو، بلاول کی حماقتیں ہوں پھر بھی بھٹو زندہ رہتا ہے۔جب بھی ہم میں سے کسی کو جمہوریت کے حق میںکوئی دلیل درکار ہوتی ہے سب سے پہلے یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارا ایک منتخب وزیر اعظم عوام کے حقوق کی جنگ لڑتا پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ ہمارے ملک کی سیاست پر بھٹو کا نقش اس قدر توانا ہے کہ مسلم لیگ جو ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کی حریف جماعت رہی ہے اس پر بھی جب برا وقت آیا تو بھٹو کی پھانسی کا حوالہ دیا گیا۔ کیا سحر تھا اس شخص میں کہ آج بھی شہباز شریف نے بھٹو جیسی تقریر کی سعی ناکام کی حتی کہ مائیک تک گرانے کی کوشش کی اور اس میں بھی ناکام رہے۔بھٹو کی سیاست میں کیا کشش تھی کہ جو لوگوں کو آج تک نہیں بھولتی۔

سوچنے کی بات ہے کہ بھٹو حیات بعد از موت اسباب کیا ہیں۔ کیا اسٹیل مل لگانے کا کارنامہ اتنا بڑا ہے کہ بھٹو امر ہو گیا ہے؟ کیا نیوکلیئر پلانٹ اور اسلامی ایٹم بم کے خواب کے حوالے سے بھٹو یاد رکھا جاتا ہے؟ کیا اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔کیا مسلم ممالک کے بلاک کی تشکیل بھٹو کو ہمیشہ کی زندگی دے گئی؟ کیا بھٹو کی خطیبانہ صلاحیتوں نے اس کو حیات جاودانی عطا کر دی ہے؟کیا کارکنوں سے بھٹو کا رابطہ اسقدر مضبوط تھا کہ آج تک اسے یاد رکھا جاتا ہے؟کیا طلبہ تنظیموں ، ٹریڈ یونینوں ، اور مزدور تحریکوں نے بھٹو کو زندہ رکھا ہو اہے؟کیا بھٹو کی اقوام متحدہ میں تقریر اس کو امر کر گئی ہے؟ کیا نوے ہزار فوجیوں کو بھارتی تسلط سے آزادکروانے کا کارنامہ بھٹو کو ایک اور زندگی دے گیا؟کیا فیض ، فراز اور جالب کے عشق نے بھٹو کو مرنے نہیں دیا؟کیا سوشلزم کا نعرہ بھٹو کو مرنے سے بچا گیا؟کیا پکی پکائی تازہ روٹی اور راشن کارڈ میں کوئی ایسی کشش تھی کہ بھٹو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکلتا؟ کیا ایک وڈیرے کے منہ سے مزارع کے حق میں نکلا نعرہ بھٹو کو دوام دے گیا؟کیا وجہ ہے کہ اس دور ناگوار میں بھی اگر جمہوریت کے لئے قربانیاں گنوانے کا موقع آیا تو بھی روایتی حریف بھٹو کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکے۔
اس دور میں پیپلز پارٹی کو اور مسلم لیگ نواز کو بدترین حریف اور بہترین حلیف قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر وار کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔اختلاف کی وجہ تو سراسر سیاسی مفاد ہے لیکن اتفاق کی وجہ وہ میثاق جمہوریت ہے جو بے نظیر اور نواز شریف کے درمیان ہوا تھا۔ یہ مشرف دور کا واقعہ ہے۔ بے نظیر اور نواز شریف دونوں اپنی حکومتوں کی دو ، دو باریاں لگا چکے تھے۔ دونوں میں سے کسی کو ایک دفعہ بھی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی تھی۔ اٹھاون ٹو بی کی تلوار سے دونوں کو باری باری ذبح کیا گیا تھا۔تاوقتیکہ مشرف نے طیارہ سازش کیس میں نواز شریف کا تختہ الٹ دیا اور نو سالہ دور اذیت کا آغاز ہو گیا۔اس عرصے میںدو بڑی سیاسی پارٹیوں کو یہ سمجھ آگئی کہ نامعلوم قوتیں ہمیں لڑوا کر اپنا مطلب نکالتی ہیں تو کیوں نہ باقی سب اختلاف اپنی جگہ رکھے جائیں لیکن جمہوریت کے حق میں دونوںسینہ سپر ہو جائیں۔جمہوریت پر آنچ آئے تو سب اکھٹے ہو جائیں باقی اپنی اپنی سیاست جاری رکھیں۔بے نظیر بھٹو کے پر اسرار قتل کے بعد بھی یہ معاہدہ قائم رہا۔لیکن حق بات تو یہ ہے کہ کسی فریق نے اس معاہدے کا دل سے پاس نہ کیا۔ دونوں بغل میں خنجر لئے ایک دوسرے کی غفلت کے منتظر رہے۔

اس معاہدے میں پہلی دراڑ محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود ڈالی جب وہ ایک ڈکٹیٹر سے این آر او کر کے واپس آگئیں اور نواز شریف کو پیچھے چھوڑ دیا۔ زرداری حکومت میں بھی اس معاہدے پر شب خون مارے جاتے رہے۔ کبھی پنجاب میں گورنر راج لگ گیا ، کبھی ڈوگر کورٹس کے ذریعے شہباز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ کبھی عدلیہ بحالی میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ دوسری جانب نواز شریف جب حکومت میں آئے تو وہ بھی معاہدے کے بنیادی نکات کو بھول گئے۔ اگر چہ دھرنے کے دنوں میں پیپلز پارٹی نے ہی حکومت کو بچایا تھا لیکن نواز حکومت کی جانب سے اس کے باوجود نہ باسٹھ ، تریسٹھ کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی، نہ کراچی میں رینجرز کی کارروائی پر کوئی داد فریاد سنی گئی، نہ زرداری کی تاریخی تقریر کے بعد اگلے دن ملاقات کا موقع دیا گیانہ فوجی عدالتوں کے مسئلے پر پیپلز پارٹی کی کوئی بات سنی گئی۔، دونوں جانب سے جمہوریت کے حق میں کچھ کم ہی ہوا ہے۔ ذاتی مقاصد معاہدے پر حاوی ہوتے رہے۔

لیڈر بنانے میں حالات بہت اہم ہوتے ہیں۔ امر ہونے کے مواقع کم ہی رہنمائوں کو میسر آتے ہیں۔کالم کا آغاز بھٹو کے امر ہونے کے حوالے سے ہوا تھا۔ بھٹو کے جس کارنامے نے اس کو حیات جاودانی دی نہ وہ نیوکلیئر پلانٹ ہے نہ اسلامی سربراہی کانفرنس، نہ روٹی کپڑے اور مکان کا نعرہ ،نہ سوشلزم کا پرچار، نہ اسٹیل مل اور نہ پکی پکائی تازہ روٹی کے پلانٹ ۔ جس چیز نے بھٹو کو امر کیا ہے وہ اسکی ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والی سرشت ہے۔ بھٹو نے استعمار سے کوئی ڈیل نہیں کی۔کوئی دس سالہ معاہدہ کر کے جلا وطنی اختیار نہیں کی۔ جمہوریت کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی۔ بھٹو کو بھی جلاوطنی کی پیشکش کی گئی۔کئی ممالک کے سربراہان نے ایک ڈکٹیٹر سے یہ درخواست بھی کی۔ لیکن بھٹو نے عوام کے حق حاکمیت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ناکردہ گناہوں میںپھانسی قبول کر لی لیکن ظلم کی قوتوں کے آگے سر نہیں جھکایا۔

نواز شریف بھی تاریخ کے ایسے ہی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ حالات ایسے ہیں کہ ان سے ایک عظیم لیڈر جنم لے سکتا ہے۔فیصلہ اب میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے کہ عوام کے حق حاکمیت کے لئے امر ہونا ہے یا پھر جلا وطن ہونا ہے؟معاہد ہ کرنا ہے یا ڈٹ جانا ہے؟اس ملک کی روشن تاریخ کو نئے سرے سے مرتب کرنا ہے یا ماضی کےاندھیروں پر ماتم کرنا ہے؟

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar