بحران کی ڈھلوان


ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی ڈھلوان پر پھسل رہے ہیں، کہیں قدم ٹکتے دکھائی نہیں دیتے، سامنے آمریت کی گہری کھائی ہے۔ نواز شریف کو منصب سے الگ کر دیا گیا لیکن سیاست سے نہیں نکالا جا سکا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ اپنے حلقوں میں اب بھی مقبول ہیں۔ پی ایم ایل (ن) کی اصل حریف پی ٹی آئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت اُس سے آگے نہیں بڑھ پائی جتنی 2013 ء الیکشن میں تھی۔ پی ایم ایل (ن) کو صدمہ پہنچا لیکن وہ مقابلے کے لئے میدان میں موجود ہے۔ اگر ایک حالیہ ضمنی الیکشن کو پیمانے کے طور پر لیا جائے تو لگتا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی اُ س وقت تک نہیں جیت سکتی جب تک پی ایم ایل (ن) کو مزید گھائل نہ کردیا جائے۔

نواز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں کسی وجہ کے بغیر، محض اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر، نکال باہر کیا گیا۔ مشرف دور کے خاتمے پر ’’ماندگی کا ایک وقفہ ‘‘ ضرور آیا تھا لیکن گزشتہ دوجمہوری حکومتوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے قدموں کے نشانات بتدریج پھیلنے لگے۔ اس وقت اشتعال کے عالم میں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کے موڈ میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ منتخب شدہ نمائندوں کا اختیار قائم کرائیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کو سویلین اتھارٹی کے کنٹرول میں لائیں گے۔ وہ اس حقیقت کو تبدیل کردیں گے کہ وہ پس پردہ ڈور ہلاتے ہوئے حقیقی طاقت رکھتی ہے۔

کوئی بھی ہاتھ آنے والی طاقت سے رضاکارانہ طور پر دستبردار نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ ہی ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔ اس نے بہت ہوشیاری اور احتیاط سے اپنی نرم طاقت کی آبیاری کی ہے،چنانچہ یہ ایک روایتی فوج کی طرح واپس بیرکوں میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ نوازشریف کا خیال ہے اُنہیں نکال باہر کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے سرخ لکیر عبور کرلی ہے۔ دوسری طرف ’’جمہوریت کی بحالی بنام آمریت‘‘ کی بحث نے فوج کو یہ تاثر دیا ہے کہ نواز شریف سرخ لکیر عبور کررہے ہیں۔ اب جبکہ میدان جنگ میں لکیر کھنچ چکی تو لگتا ہے کہ معرکہ ضرور ہوگا۔ نرم یا گرم ؟

اگر لیگل اتھارٹی (جسے اخلاقی اتھارٹی کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے) اور بازوؤں کی طاقت کے درمیان ٹکرائو ہوجائے تو مہذب معاشروں میں لیگل اتھارٹی جیت سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی سپریم کورٹ نے اپنی لیگل اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے نوازشریف کو گھر بھیج دیا (یہ الگ بحث ہے کہ کیا ایشو منصفانہ تھا، یا اس سے عدالت کو کتنی زک پہنچی ہے)۔ ہوسکتا ہے کہ عدالت کا جواز قانونی استدلال پر پورا نہ اترتا ہو، لیکن زیادہ تر لوگوں نے یہی سمجھا کہ اُنہیں اس لئے نکالا گیا کہ اُن کی فیملی کی ملکیت میں ایسے اثاثے تھے جن کی وہ وضاحت پیش نہ کرسکے۔ چنانچہ غیر جانبدار حلقوں کے نزدیک وہ اپنی اخلاقی اتھارٹی سے محروم ہوگئے ہیں۔ لیگل اور اخلاقی اتھارٹی سے محروم ہونے، اور طاقتور ادارے کے مقابلے پر اتر آنے کے بعد نوازشریف کے پاس کوئی چانس باقی نہیں رہ گیا۔ یہ تصویرمزید دھندلی ہوجاتی ہے کیونکہ نواز شریف کو اُس جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا تھا جس کی تیاری میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کا غالب کردار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض حلقے اس تمام کارروائی کو شروع سے ہی غیر منصفانہ قرار دے رہے تھے۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یہ کوئی بے لاگ اور ہمہ گیر احتساب کا عمل ہر گز نہ تھا۔ اس تاثر کو تقویت ملی کہ لندن فلیٹس کوایک بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نوازشریف کو ہٹایا گیا۔

جمہوریت کے حامی، غیر جانبدار ایک طرف کھڑے ہیں۔ کھنچنے والی لکیر کے ایک طرف عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ایک رہنما ہیں جن کا گزشتہ کئی عشروں سے اقتدار میں آنا جانا لگا رہا، لیکن وہ اپنے اثاثوں کی الف لیلیٰ کی وضاحت سے قاصر ہیں۔ دوسری طرف ہماری تاریخ کے من پسند احتساب کے نعرے کا غلغلہ ہے۔ اوراس کی دھمک نئی نہیں۔ غیر منتخب شدہ ادارے سیاست دانوں کو ’’راہ ِ راست ‘‘پر لانے کے لئے احتساب کرتے آئے ہیں۔ اب غیر جانبدار نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ نواز شریف کی رخصتی میں خاکی کردار جتنا واضح ہوتا جائے گا، اتنی ہی احتساب اور جمہوریت کے عمل کی گرد اُڑتی جائے گی۔

یہاں ایک مسئلہ سر اٹھاتا ہے کہ اگر نااہل قرار دئیے جانے کے باوجود نواز شریف عوامی مقبولیت اور پی ایم ایل (ن) کی حمایت برقرار رکھتے ہیں اور این اے 120 کے ضمنی الیکشن (جسے پی ٹی آئی نے نواز شریف اور سپریم کورٹ کی مبازرت قرار دیا تھا) کی طرح مزید کامیابیوں کی طرف بھی بڑھتے ہیں تو یہ احساس گہرا ہونا شروع ہوجائے گا کہ گھائل ہونے کے باوجود پی ایم ایل (ن) 2018 ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست سے دوچار کر سکتی ہے۔ تو پی ایم ایل (ن) کی مزید پانچ سال کے لئے حکومت، جس کا ریموٹ کنٹرول نواز شریف کے بے خوف ہاتھوں میں ہوگا، کا احساس سیاسی مورچوں کو آباد رکھے گا۔

تو ایسی صورت میں مخصوص حلقے کیا کریں گے؟ ’’رینجرزگیٹ ‘‘ ایک ٹریلر تھا۔ یہ ان کی پاور کی نرم اور سخت طاقت کی ایک جھلک تھی۔ آئین تو واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سویلین کنٹرول میں ہو گی۔ فی الحال یہ بات بھول جائیں۔ رینجرز قانون نافذ کرنیو الی ایک پیراملٹری فورس ہے جو براہ ِراست وزارت ِ داخلہ کو جوابدہ ہے۔ جوڈیشل کمپلیکس کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے اس نے چین آف کمانڈ کی جو خلاف ورزی کی، اُسے نرم سے نرم الفاظ میں غیر قانونی اقدام کہا جاسکتا ہے۔ ہماری انتہائی منظم اور مثالی ڈسپلن رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی طرف سے ایسا رویہ ناقابل ِفہم ہے۔

تاہم اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا مزید پھیلائو دیکھنے کے آرزو مند حلقوں نے اس دلیری کے ساتھ سویلین کو دھول چٹانے کا خیر مقدم کیا جیسے پانی پت فتح کر لیا گیاہو۔ طاقتور ٹیم کے پویلین میں بیٹھے ہوئے شائقین نے رینجرز کی حکم عدولی کو سراہا۔ ان کے توشہ خانے میں سویلین کی دروغ گوئی سے لے کر ٹماٹروں کی بلند ہوتی ہوئی قیمتوں تک، ہر قسم کے دلائل موجود تھے۔ فوراً ہی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا واضح مظاہرہ دکھائی دینے لگا۔ اس کا دفاع کرنے والی بولیوں نے ’’جذبہ ٔ بے اختیار ِ شوق دیکھا چاہیے‘‘ کا سماں باندھ دیا۔

آج پی ایم ایل (ن)اور پی ٹی آئی کے درمیان مسابقت ایسی ہے جس طرح 90 ء کی دہائی میں پی ایم ایل (ن) اور پی پی پی کے درمیان تھی۔ 90 ء کی سیاست نے ثابت کیا کہ ہر مرکزی جماعت کی دوسری چوائس فوج ہی ہوتی ہے۔ پہلی چوائس اپنا اقتدار ہوتا ہے۔ دھرنوں کے دوران، اور اُس کے بعد بھی خوشامدی زبان کو تروتازہ رکھتے ہوئے، پی ٹی آئی نے اس بات پر کسی کو شک میں نہ رہنے دیا کہ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے، چاہے اس کے لئے کسی بیساکھیوں کا سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔ چنانچہ جب پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پر کمربستہ،ا ور پی ایم ایل (ن) اُن کے سامنے میدان میں کھڑی ہے تو ہمارے سامنے 90 کی دہائی کے مناظر واضح ہوتے جارہے ہیں۔

ہر فریق کے پاس ایسے دلائل کی کمی نہیں کہ چاہے فوج آجائے، لیکن فریق ِ مخالف نہ آنے پائے۔ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کو زعم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اُنہیں وزیر ِ اعظم بنانے کے لئے طاقت دکھاسکتی ہے۔ دوسری طرف نوازشریف کا فائدہ اس میں ہے جب اس بحث میں ’’جمہوریت بنام آمریت ‘‘ کا شور نمایاں ہوجائے۔

اگر ریٹائرڈ افسران، جن کے دم قدم سے میڈیا کا قلزم موجزن ہے، کی ارزاں کردہ دانائی کا نچوڑ نکالا جائے تو لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی لکیر کے ایک طرف پوزیشن سنبھال لی ہے، اور یہ نواز شریف کی سائیڈ ہرگز نہیں ہے۔

جمہوریت کے تسلسل اور قانون کی حکمرانی کے لئے ضرر رساں کچھ دیگر شواہد بھی نظروں کے سامنے ہیں۔ راحیل شریف کے دورمیں ذاتی تشہیر کے شغف کو ایک طرف رکھ دیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی سمت بالکل درست رہی تھی۔ ہرچند جنرل صاحب کے چکاچوند کارناموں سے ٹوئٹس کا دامن بھرا ہوا تھا لیکن کسی مرحلے پر بھی سویلینز کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مذہبی اشتعال کو کسی مقصد کے لئے استعمال نہ کیا گیا۔ بلکہ اُنھوں نے ملک میں ہر قسم کے انتہا پسندوں کو چیلنج کیا اور کافی حد تک اُن کا صفایا کر دیا۔

تاہم اس برس یہ صورت حال تبدیل ہونے لگی۔ پہلے بلاگرز اغوا ہوئے اور پھر توہین کے الزامات سے فضا گہری ہونے لگی۔ حکومت پر دبائو کے لئے ایسے ایشو کھڑے کیے جانے لگے جن سے گریز بہتر ہوتا۔ صرف یہی نہیں، ملی مسلم لیگ کو سیاسی میدان میں اتارا گیا۔ میڈیا کے مخصوص حلقوں نے ان کی وکالت شروع کردی کہ انتہا پسندوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دینا بہترین خیال ہے۔ اپنا قانونی جواز پختہ کرنے کے لئے مذہب کا سہار ا لینا، جیسا کہ جنرل ضیا دور کی مذہبی تنظیموں اور بعد میں مشرف دور میں ہونے والی ایم ایم اے کی تخلیق سے ماضی کے سائے گہرے ہورہے ہیں۔

اگر چہ ملک میں فوجی عدالت فعال رہی ہیں لیکن غائب شدگیوں کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔ اس سلسلے میں تازہ ترین گمشدگی پاک ترک اسکول کے ایک ٹیچر کی فیملی کا پراسرار اغوا ہے۔ پہلے پہل اردوان حکومت نے یہ ٹاسک شریفوں کو دیا تھا، اورپنجاب حکومت نے پاک ترک اسکولوں کی انتظامیہ اورترک اسٹاف پر چڑھائی کردی۔ تاہم عدالت نے مداخلت کی اور اسکولوں کا کنٹرول حاصل کرنے یا ترک اساتذہ کو نکالنے کی کارروائی روک دی۔ لیکن اب ایک ترک فیملی کو جس پراسرارطریقے سے اٹھا لیا گیا ہے اُس سے شکوک و شبہات گہرے ہوتے ہیں۔

اس وقت عالمی سطح پر آمریت کے خلاف کوئی رکاوٹ موجود نہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ امریکہ نے مصر میں فوجی آمریت کی حمایت کی ہے۔ ہمارے ہاں سویلین اتھارٹی پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ عوام کی نظروں میں منتخب شدہ حکومتوں کو بے توقیر کردیا گیا ہے۔ سول ملٹری عدم توازن کو دور کرنے کی کوشش میں ہم سول ملٹری تصادم کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ صورت حال کسی کے لئے بھی فائدہ مند نہیں۔ جب زمین اور آسمان کی رنگت تبدیل ہو رہی ہے تو اس عالم میں نواز شریف تہیہ طوفان کیے بیٹھے ہیں۔ بس ایک چنگاری کی دیر ہے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ شعلگی کی بجائے دھیمی آنچ سے کام چل جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar