ٹیلی میڈیسن کے ذریعے ذیابیطس کا علاج


یہ مضمون ان تمام افراد کے لئے لکھ رہی ہوں جو گاہے بگاہے ای میل، فون یا فیس بک کے ذریعے اپنی بلڈ شوگر بتا کر دوا کے لئے مشورہ طلب کرتے ہیں۔ مقامی ڈاکٹرز کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دینے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجھے آپ کی مدد کرنے میں‌ دلچسپی نہیں یا میں‌ جان بوجھ کر مدد نہیں‌ کرنا چاہتی ہوں۔ ذیابیطس کے مریض ہم روز دیکھتے ہیں اور ذیابیطس سے لوگوں‌ کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیا کیا ہوتا ہے وہ بھی دیکھتے ہیں۔ ان مریضوں‌ سے مجھے بہت ہمدردی ہے اور ان کا مناسب علاج کرنے میں‌ دلچسپی بھی۔ سائنس ہر جگہ ایک ہی ہے جس سے اس کی کائناتی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے لیکن ایک انفرادی مریض کی بیماری کی کیا نوعیت ہے، کہاں‌ کون سی دوائیں یا سہولیات موجود ہیں وہ مختلف ہوتا ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کے تین مقاصد ہیں۔

1۔ انٹرنیٹ یا ٹیلی میڈیسن کے ذریعے علاج کی حدود سمجھی جا سکیں۔
2۔ صحت کے شعبے سے وابستہ افراد ذیابیطس کا علاج سیکھیں۔
3۔ لوگوں‌ کو خود بھی معلوم ہو کہ ذیابیطس کا مناسب علاج کیسے کروانا ہے۔

میڈیسن کا پہلا اصول ہے کہ ”ڈو نو ہارم!“ یعنی کسی کو نقصان مت پہنچاؤ۔ ذیابیطس ایک طویل عرصے کی بیماری ہے جس کا اگر درست طریقے سے علاج نہ کیا جائے تو فائدے کے بجائے نقصان ہوسکتا ہے اور اس کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ نیویارک میں‌ کی گئی ایک ریسرچ سے معلوم ہوا کہ کالے، گورے، ہسپانوی، امریکین انڈین یا مشرقی ایشیائی افراد کے مقابلے میں جنوب ایشیائی افراد میں‌ ذیابیطس کا خطرہ سب سے بڑھ کر پایا گیا۔ یہ بات عام ہے کہ جب لوگوں‌ کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ذیابیطس ہے تو وہ شدید خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ درست رویہ نہیں ہے۔ طوفان دیکھ کر آنکھیں‌ بند کرلینے سے وہ ٹل نہیں‌ جاتا۔ جتنا ہوسکے اپنی بیماری کے بارے میں سیکھنا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں‌ ہونے والے مسائل سے بچا جاسکے۔

یہ مضمون لکھنے کا یہ مقصد بھی ہے کہ لوگوں‌ کی جان بچا سکوں۔ ہمارے کئی کلاس فیلو اور رشتہ دار وفات پا چکے ہیں، کچھ کے پیر کٹ گئے، کسی کے گردے فیل ہوگئے اور کسی کی آنکھیں‌ ٹھیک سے کام نہیں‌ کرتیں۔ وہ لوگ چھوٹے بچے چھوڑ کر گئے جن کو ابھی ان کی ضرورت تھی۔

ذیابیطس کے ایک نئے مریض‌ کو 45 منٹ کی اپوانٹمنٹ ملتی ہے جس میں‌ ان کا تفصیلی انٹرویو، معائنہ اور خون کے ٹیسٹوں‌ کے نتائج کا جائزہ لے کر ان کو مناسب مشورہ دیا جاتا ہے۔ تمام نئے ذیابیطس کے مریضوں‌ کو ذیابیطس کلاس میں‌ بھیجا جاتا ہے جہاں‌ وہ چار گھنٹے کی کلاس میں ایک ایجوکیشن مینیول کے ساتھ اس کے بارے میں ہر ضروری بات سیکھتے ہیں۔ ذیابیطس کا علاج اس کے مریض کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں‌ ہے۔

ذیابیطس کے انٹرویو میں‌ کیا پوچھا جاتا ہے؟

ذیابیطس کے انٹرویو میں‌ یہ پوچھا جاتا ہے کہ ذیابیطس کب تشخیص ہوئی، یہاں‌ پر دھیان رہے کہ کب سے ہے اور کب تشخیص ہوئی میں‌ فرق ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ بیماری شروع ہونے میں‌ اور تشخیص میں قریب دس سال کا فاصلہ ہے۔ کون کون سی دوا ٹرائی کرلی گئی ہے، کیا انسولین شروع کردی گئی ہے؟ اگر کی ہے تو کون سی اقسام کی اور کب سے؟ کیا مریض‌ کو ذیابیطس کی کوئی پیچیدگیاں ہیں جیسے کہ نیوراپیتھی، آنکھوں‌ میں‌ ریٹیناپیتھی، نیفراپیتھی یعنی کہ گردوں‌ کی بیماری، دل کے دورے یا فالج کی بیماری۔ وہ دن میں‌ کتنی بار اپنی بلڈ شوگر چیک کر رہی ہیں، ان کا لیول کتنا ہے، ہیموگلوبن اے ون سی کتنی ہے جو کہ پچھلے تین مہینے کی اوسط بلڈ شوگر ناپنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ فیملی ہسٹری، سوشل ہسٹری، الرجیز، کون سی دوائیں ماضی میں‌ ناقابل برداشت تھیں، یہ سب پوچھنا اور چارٹ میں‌ لکھنا ضروری ہے۔ مریض کے وائٹل سائنز چیک کئیے جاتے ہیں جن میں‌ دل کی رفتار، بلڈ پریشر، وزن، قد، سانس کی رفتار شامل ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں‌ میں‌ بلڈ پریشر کی بیماری ہونے کی وجہ سے ان میں دل کی بیماری کا خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض‌ کے جسمانی معائنے میں‌ آنکھوں‌ کا معائنہ اور پیروں‌ کا معائنہ شامل کرنا ضروری ہے کیونکہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ پیروں میں بے حسی کی وجہ سے اگر ان کو پیر میں‌ زخم آ جائے تو ان کو پتا نہیں‌ چلتا اور پیر کٹنے تک کی نوبت آ جاتی ہے۔

ذیابیطس میں‌ موت کی سب سے بڑی وجہ دل کا دورہ پڑنا ہے۔ عمر رسیدہ ذیابیطس کے مریضوں‌ میں‌ اور خاص طور پر خواتین میں جب دل کا دورہ پڑتا ہے تو وہ خاموشی سے ہوتا ہے کیونکہ نیوراپیتھی کی وجہ سے وہ کبھی کبھار اس کو محسوس نہیں کرتے جو کہ خطرناک بات ہے۔

ذیابیطس کے مریضوں کو کیسی خوراک کا مشورہ دیا جاتا ہے؟

ذیابیطس کے مریضوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ سبزیاں اور پھل زیادہ کھائیں اور گوشت خاص طور پر گائے کے گوشت کم کھائیں۔ مچھلی، مرغی یا ٹرکی کا گوشت نسبتاً اتنا نقصان دہ نہیں۔ کاربوہائیڈریٹ جن غذاؤں‌ میں‌ زیادہ ہوں جیسے کہ آلو، روٹی یا چاول، ان کی مقدار میں‌ کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ میٹھے مشروب میں‌ چینی، خالی کیلوریاں‌ اور کیمیکل ہوتے ہیں اور وہ غذایت سے بھرپور نہیں ہوتے، ان سے بہتر ہے کہ سادہ پانی پیا جائے۔ یہ آئیڈیا ابھی تک کافی لوگوں کے ذہن میں‌ ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں‌ کو تین بڑے کھانوں‌ کے بجائے چھوٹے چھوٹے 6 سے آٹھ کھانوں‌ کی ضرورت ہے جو کہ پرانا ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے زمانے میں‌ انسولین مختلف تھیں‌ جن کے دورانیے کی وجہ سے شوگر کم ہونے کا خطرہ ہوتا تھا۔ آجکل جو نئی انسولینیں نکلی ہیں وہ نارمل فزیالوجی کی طرح‌ کام کرتی ہیں اور ذیابیطس کے مریض‌ دیگر افراد کی طرح‌ ہی کھانے پینے کا شیڈول بنا سکتے ہیں۔

ذیابیطس کے مریض کو کتنی بار خود بلڈ شوگر چیک کرنی چاہئیے؟

یہ جواب ہر مریض کے لئے مختلف ہے۔ کئی اسٹڈیز سے یہ سامنے آیا کہ جو لوگ دن میں‌ زیادہ مرتبہ چیک کرتے تھے ان کی ہیموگلوبن اے ون سی ان لوگوں‌ کی نسبتاً کم تھی جو کم چیک کرتے تھے۔ یہ انفرادی پلان اس بنیاد پر طے کیا جاتا ہے کہ ایک مریض کون سی دوائیں لے رہا ہے اور ذیابیطس کا کنٹرول کیسا ہے۔

کون سے خون کے ٹیسٹ کرنے ہیں اور وہ کیوں اہم ہیں؟

خون کے ٹیسٹ سال میں‌ ایک مرتبہ کروانا انتہائی اہم ہے۔ اگر کوئی ٹیسٹ نارمل نہ ہو تو اس کو زیادہ مرتبہ بھی کروانا پڑ سکتا ہے۔ ذیابیطس کے مریض‌ کو سال میں‌ ایک مرتبہ مندرجہ ذیل ٹیسٹوں‌ کی ضرورت ہوتی ہے۔

1۔ سی ایم پی یعنی کہ کامپریہینسو میٹابولک پینل۔ اس ٹیسٹ سے سوڈیم، پوٹاشیم، گردے کے کام، جگر کے کام اور دیگر الیٹرولائٹس کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ گردے اور جگر کے ٹیسٹ انتہائی اہم ہیں کیونکہ جو بھی دوائیں ہم لیتے ہیں وہ زیادہ تر انہی دو راستوں‌ سے جسم سے خارج ہوتی ہیں۔ اگر کسی کا جگر ٹھیک سے کام نہ کر رہا ہو یا گردے ٹھیک سے کام نہ کررہے ہوں‌ تو دوا کا لیول خون میں‌ بڑھتا جاتا ہے اور زہریلے اثرات دکھاتا ہے۔ یہ معلومات دوا کے چناؤ اور اس کی مقدار مقرر کرنے کے لئے اہم ہے۔

2۔ سی بی سی یعنی کہ کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ۔ اس ٹیسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ کیا کسی کو انفکشن تو نہیں یا انیمیا یعنی کہ خون کی کمی کی بیماری تو نہیں۔ کئی بار ایسے مریض بھیجے گئے جن کی ہیموگلوبن اے ون سی ریفرنس رینج سے کم تھی۔ اس کا جواب سادہ تھا کہ انیمیا کی وجہ سے ایسا تھا۔ خون کے سرخ جسیمے تقریبا“ 120 دن زندہ رہتے ہیں۔ خون میں‌ گردش کرتی ہوئی شوگر ان سے جڑ کر ہیموگلوبن اے ون سی کا لیول ظاہر کرتی ہے۔ اسی لئے یہ ٹیسٹ تین مہینے بعد دہرانا مناسب ہوتا ہے۔ گردوں‌ کے فیل ہونے سے بھی انیمیا کی بیماری ہوتی ہے۔ سب چیزیں‌ ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس انفارمیشن کے بغیر کسی بھی مریض‌ کو درست مشورہ نہیں دیا جاسکتا۔

3۔ کولیسٹرول کا چیک جس کو لپڈ پروفائل کہتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں‌ میں‌ کولیسٹرول کو قابو میں‌ رکھنا نہایت اہم ہے کیونکہ یہ کولیسٹرول چھوٹی خون کی نالیوں‌ کو بلاک کرکے خون کا بہاؤ روک دیتی ہے جس کی وجہ سے دل کے دورے اور فالیج ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں‌ کی گئی ریسرچ سے پتا چلا کہ فاسٹنگ یا بغیر فاسٹنگ میں‌ کییے گئے لیولز میں‌ بہت زیادہ فرق نہیں‌ ہوتا اس لئے جن مریضوں‌ کو فاسٹنگ کی وجہ سے خون میں‌ شوگر کے انتہائی کم ہوجانے کا خطرہ ہو ان کا ہمارے کلینک میں‌ عام حالات میں‌ ہی کولیسٹرول چیک کرنا شروع کیا۔

4۔ تھائرائڈ کا چیک۔ تھائرائڈ کی بیماری عام ہے اور ہم سال میں ایک مرتبہ ذیابیطس کے مریضوں‌ کا ٹی ایس ایچ چیک کرتے ہیں۔ اس طرح‌ بہت سارے مریضوں‌ کی نئی تشخیص کی گئی جن کو شاید ویسے کافی عرصے تک پتا نہ چلتا کہ ان کو تھائرائڈ کی بیماری ہے۔

5۔ پیشاب میں پروٹین چیک کرنے کا ٹیسٹ۔ یہ ٹیسٹ سال میں‌ ایک مرتبہ کیا جاتا ہے۔ یہ ذیابیطس کی وجہ سے گردوں‌ کی بیماری کو اس سے پہلے پہچان لیتا ہے جب وہ سی ایم پی ٹیسٹ میں‌ دیکھی جا سکے۔

ذیابیطس کے مریضوں‌ کو کون کون سے احتیاطی ٹیسٹ کروانا ضروری ہیں؟

ذیابیطس میں‌ چونکہ موت کی سب سے بڑی وجہ دل کے دورے پڑنا ہے، اسٹریس ٹیسٹ کروانا چاہئیے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ کچھ مریضوں‌ کو کارڈیالوجسٹ کے پاس ریفر کیا تو وہ اگلی اپوائنٹمنٹ میں‌ دو تین اسٹینٹ لگوا کر واپس آئے۔ ذیابیطس کے مریضوں‌ کو مناسب ویکسینیں لگوانے کی ضرورت ہے۔ ان کو سال میں‌ ایک مرتبہ فلو ویکسین لگوانی چاہئیے۔ ان کو سال میں‌ ایک مرتبہ پتلیاں‌ پھیلا کر آنکھ کے پیچھے موجود پردے کا معائنہ کروانا ضروری ہے۔ پیروں‌ کو روزانہ خود بھی دیکھنا چاہیے اور سال میں‌ ایک مرتبہ ڈاکٹر سے بھی معائنہ کروانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی انفرادی احتیاطی ٹیسٹ ہونے چاہئیں ان کا بھی مشورہ دیا جاتا ہے۔ ہر 50 سال کے فرد کو آنتوں‌ کے کینسر کی اسکرین کے لئے کولانوسکوپی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ 40 سال کی عمر سے زیادہ خواتین کو بریسٹ کینسر کے لئے سال میں‌ ایک مرتبہ میموگرام کروانا چاہئیے۔ مردوں‌ میں‌ پروسٹیٹ کینسر کی اسکرین ضروری ہے۔

ذیابیطس کے علاج کے لئے دوا کا چناؤ کیسے کیا جاتا ہے؟

اگر امریکن ذیابیطس اسوسی ایشن یا امریکن اسوسی ایشن آف اینڈوکرنالوجی کی گائیڈ لائنز دیکھیں‌ تو سب سے پہلے گلوکوفاج دینے کے لئے لکھا ہے اس کے بعد دواؤں‌ کا چناؤ انفرادی مریض کےحالات پر مبنی ہے۔ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ کس ملک میں‌ کون سی دوائیں‌ دستیاب ہیں۔ امید ہے کہ اس مضمون سے قارئین کی اس دائرے میں معلومات بڑھی ہوں گی اور وہ لوکل ڈاکٹرز سے مشورہ کریں‌ گے۔

یہ ذیابیطس کی پیچیدہ بیماری کے معائنے اور علاج کا محض ایک خلاصہ ہے جس کو مکمل نہ سمجھا جائے۔ قارئین سے گذارش ہے کہ اس دائرے میں اپنا مطالعہ جاری رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).