موروثی سیاست کے خاتمے کا ایک تیر بہدف قدیم طریقہ


وطن عزیز میں یہ بات نہایت ہی زیادہ پریشانی کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ موروثی سیاست نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ ایک طرف پارٹی کے وہ سینئیر ترین لیڈر ہاتھ باندھے کھڑے ہوں جنہوں نے چالیس پچاس برس پارٹی کی خدمت کی ہو، اور دوسری طرف وہ نوجوان شہزادہ یا شہزادی ہوں جن کی واحد اہلیت صرف یہ ہو کہ وہ ایک بڑے سیاستدان کے گھر پیدا ہوئے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے خطے میں یہی چلن ہے۔ ہندوستان میں نہرو خاندان، سری لنکا میں بندرا نائیکے، بنگلہ دیش میں شیخ مجیب کا خاندان اور پاکستان میں پہلے بھٹو اور اب نواز شریف کی خاندانی بادشاہت قائم رہی ہے۔ اب ہمارے عوام موروثیت پر یقین رکھتے ہیں۔ کسی مقبول لیڈر کے بعد اسی کی آل اولاد کو ووٹ دیتے رہیں گے۔ ہماری پارٹیاں چلتی ہی افراد کے نام پر ہیں۔ اس لئے ہمارے ووٹر اس جمہوری نظام میں تو موروثیت ختم ہونے نہیں دیں گے۔ اس ووٹر کو ختم کرنا تو ممکن نہیں ہے۔ کیا ہم اسی بے بسی کے ساتھ موروثی سیاستدانوں کو منتخب ہوتے دیکھتے رہیں گے یا اس کا کوئی حل ممکن ہے؟

بعض لوگ یہ رائے دیتے ہیں کہ جس طرح تاجر کا بیٹا تاجر، وکیل کا بیٹا وکیل، ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر، جنرل کا بیٹا جنرل بنتا ہے، ویسے ہی سیاستدان کی اولاد کو سیاست میں آنے دینا چاہیے کیونکہ یہ سب بچے اپنے بزرگوں کے گھٹنے سے لگے بچپن سے ہی اس فن کے رموز سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ قدیم شاہی خاندانوں کے شروع کے دو چار لوگ تو نہایت عقلمند اور طاقتور بادشاہ ہوتے تھے جو اپنی دانش استعمال کر کے تخت حاصل کرتے اور سلطنت کو پھیلاتے تھے، مگر تین چار نسلوں کے بعد جب ان کے گھٹنے سے لگے شہزادے بادشاہ بنتے تھے، تو نہایت نا اہل ثابت ہوتے تھے۔ آپ اس زوال پر غور کرنا چاہیں تو بابر سے بہادر شاہ ظفر تک کا سفر دیکھ لیں یا پنڈت نہرو سے لے کر راہل گاندھی تک کا۔

مغربی جمہوریتوں میں بھی ایسے خاندان ہوتے ہیں جو نسل در نسل سیاست کرتے آتے ہیں۔ امریکہ کا کینیڈی یا بش خاندان ہو یا برطانیہ کا ملی بینڈ خاندان نسل در نسل سیاست میں آتے ہیں۔ مگر آپ یہ دیکھیں کہ ان خاندانوں کی نئی پیڑھیوں کو عوام کے ووٹ کے ذریعے اپنے آپ کو ثابت کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد ہی وہ قیادت کے اہل قرار پاتے ہیں۔ ادھر کی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں عوام اگر کسی سیاست دان کی اگلی نسل کو ووٹ دیتے ہیں تو ان کا فیصلہ درست ہوتا ہے، مگر ہمارے عوام کا ایسا فیصلہ غلط کہا جانا چاہیے۔

اب عوام کی ایسی جہالت دیکھتے ہوئے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان سیاسی شاہی خانوادوں سے کیسے جان چھڑائی جائے۔ ہم اس معاملے پر پچھلے پندرہ برس سے ریسرچ کر رہے ہیں اور نہایت خوشی سے آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس اس مسئلے کا حل موجود ہے۔ لیکن پہلے تاریخ میں ایک غوطہ لگاتے ہیں۔

ہندوستان میں جب دہلی کے مسلمان سلاطین آئے تو وہ نسل در نسل اپنی اولاد کو اقتدار نہیں دیتے تھے۔ شہاب الدین غوری نے اپنے غلام ایبک کو سلطان بنایا، ایبک نے آرام شاہ کو، اس سے التمش نے تخت چھین لیا، التمش نے اپنے بیٹے رکن الدین فیروز کو سلطان بنا دیا جسے روایات کی درستگی کے لئے امرائے چہلگانی کو قتل کرنا پڑا۔ اس کے بعد رضیہ الدین سلطانہ تخت پر بیٹھی۔ وہ بھی التمش کی بیٹی تھی۔ امرا نے چار سال اسے برداشت کیا مگر جب غیرت کا معاملہ آیا یعنی اس کا ایک رومانی سکینڈل بنا اور پھر اس نے لو میریج کر لی تو اسے بھی مارنا پڑ گیا۔ یوں موروثیت خانہ جنگی کا باعث بنی۔

لیکن ان ترک سلاطین دہلی سے ہم ایک چیز سیکھ سکتے ہیں۔ وہ یہ کہ ان کے دربار میں غلاموں کا راج تھا۔ ادھر ادھر سے غلام خرید لئے جاتے تھے جو بعد میں اپنی صلاحیتوں کے بل پر میرٹ پر حکمران بھی بن سکتے تھے۔ دوسری طرف آپ دیکھیں کہ جب اولاد والے غلام بادشاہ بنے تو موروثی بادشاہت آ گئی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ لیکن ان غلاموں میں ایسے مخنث بھی شامل تھے جو نہایت کامیاب بادشاہ یا گورنر ثابت ہوئے۔ شاہی حرم کی حفاظت کے لئے بھی مخنث مقرر کیے جاتے تھے۔ اچھے بھلے جوانوں کو حرم کی حفاظت کے لئے تعینات کرنے کے لئے مخنث بنایا جاتا تھا۔

اگر ہم ماضی سے سبق سیکھیں تو ہم موروثیت کا یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں۔ اگر الیکشن قوانین میں یہ بات شامل کر دی جائے کہ الیکشن لڑنے والے تمام امیدواران کے لئے لازم ہو گا کہ وہ غیر شادی شدہ ہوں اور کاغذات نامزدگی جمع کرتے ہی ان کو مخنث بنا دیا جائے گا تو موروثیت کا یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ نہ سیاست دان کے بیوی بچے ہوں گے، نہ سیاست میں موروثیت آئے گی۔

اس نئے قانون کے مطابق ریٹرننگ افسر کاغذات نامزدگی وصول کرتے ہی امیدوار کو جراح یا نائی کے سپرد کرے گا اور اس کے بعد ہی کاغذات نامردمی ایشو کرے گا۔ اس کے بعد ہی امیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملے گی۔ سیاستدان قوم کے لئے ہر قربانی دینے کا جو اعلان کرتے ہیں، اس کی پرکھ بھی ہو جائے گی اور یوں صرف وہی افراد قوم کی قیادت کریں گے جو اپنے عہد سے مخلص ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar