خاموش زبان میں محبتوں کے قصے


خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جس نے بھی کہا ہے حق ہی بیان کیا ہے۔ ایک زبان ہاتھوں کی بھی ہوتی ہے۔ ہاتھوں کو ٹھیک طرح غلط انداز میں ہلانا آتا ہو تو سر کھول قسم کی لڑائی ہو جاتی ہے۔ ضیا کا زمانہ تھا ہمارا وران خان پاگل سا تو ویسے ہی تھا اب جوانی اسے دیوانہ بھی کر رہی تھی۔ وران تھا بھی چارسدے کا وہ جب گاؤں جاتا قوم پرستی کا تازہ لوڈ کرا کے ہی واپس آتا تھا۔

جمرود روڈ جسے یونیورسٹی روڈ بھی کہتے ہیں۔ وہاں ہم رہتے تھے وران تازہ تازہ گاؤں سے آیا تھا نہایت فوج مخالف ہو چکا تھا۔ ہم روڈ پر کھڑے تھے اک فوجی گاڑی گزری جس میں کچھ افسر بیٹھے تھے۔ وران نے ہاتھوں کے غلط استعمال سے انہیں اک بلیغ اشارہ کیا۔ اصولاً تو اک عدد گولی چلنی چاہیے تھی۔ پر گاڑی میں آگے جو بن ٹھن کے بیٹھا تھا وہ بھی ہماری طرح ہی کسی کھوتی سکول کا پڑھا ہوا تھا۔ اسے پتہ نہیں کیا یاد آیا اس نے جواب میں ایک نہایت لکھنوی قسم کا سلام کیا۔ وران سے آج بھی بات ہو تو وہ یہی کہتا مڑا دغو تہ با سہ وئے (انہیں کیا کہیں)۔ کسی نے نہیں بتایا پر سیکھ گئے کہ جب ایک غصے میں ہو تو دوسرا نرمی کرے، ہنس کر سہہ لے تو بندے میں بھی اور صورتحال میں بھی سدھار آتا ہے۔

مہ وڑوک والی کے خورے ڈیرے خوڑلے مہ سرا دہ خورو غم دے۔ مصرع پتہ نہیں کس شاعر کا ہے ٹھیک بھی لکھا ہے یا نہیں لیکن جانیں وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ”میں نے بچپن میں مٹی بہت کھائی ہے مجھے اپنی مٹی کا غم ہے“۔ اظہار نہ کریں تو غم مار دیتا ہے۔ سننے والا مہربان نہ ہو تو غم بڑھ جاتا ہے۔ زندگی پشاور میں گزاری ہے۔ پہلا بچہ تھا اپنے خاندان کا تو شروع میں اکیلا ہی رہا۔ سکول میں پٹ جایا کرتا تھا اپنے ساتھیوں سے۔ پھر یوں ہوا کہ درجنوں کے حساب سے شنواری آفریدی ہمارے سکول میں داخل ہو گئے، بعد میں افغانی بھی آگئے۔ سکول میں ہی تھا جب ایک دعا کے لیے لنڈی کوتل گیا تھا۔ دعا کیسے کرتے ہیں یہ بتانے کو میرا دوست اپنے والد کے پیچھے کھڑا ہو کر اشاروں سے سمجھاتا رہا کہ اب ہاتھ اٹھاؤ اب اب بیٹھو اب اجازت لو۔ ان کا رواج اب اپنے مزاج کا حصہ ہے ان کی تکلیف سے الگ نہیں رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔

رانی پور سندھ میں پیدا ہوا تھا۔ وہاں کی دھندلی سی یادیں ہیں کہ وہاں جایا کرتے تھے۔ ایک بار ہمیں اونٹ دے کر ڈیرے سے گھر روانہ کر دیا گیا۔ اب اونٹ جیسے چلتا ہے اسے دیکھ کر ہم دونوں کزن ڈر گئے۔ ہم نے اونٹ کی مہار چھوڑی اور اس کے آگے دوڑ لگا دی۔ اونٹ بھی تیز ہو گیا لگتا تھا کہ اس کے نیچے ہم کچلے جائیں گے۔ گھر کے اونٹ کو بھی یہ سمجھ تھی ہم تیز ہوتے تو وہ بھی تیز ہو جاتا ہم رکتے تو وہ کھڑا ہو جاتا اور چلتے تو پیچھے چل پڑتا۔

پنڈ میں ایک دوپہر ہم اپنا بل فائٹر قسم کا سنڈا جو بہت ٹکریں مارتا تھا، کھول کر نہر پر لے گئے۔ نہر میں اس کو گھسا کر نہلایا پھر سارے جوانوں نے اس کے اوپر بیٹھ کر اسے واپس نکالا تو ہم سارے نہر میں گر گئے۔ ہمارا سنڈا ڈرائیور جو اس کی تقریبا گردن پر بیٹھا تھا۔ اسے لے کر سنڈا بھاگتا ہوا فرار ہو گیا۔ ڈیرے جا کر بریک ماری وہاں پر ہمارے ڈرائیور کو اتارنے سے پہلے بزرگوں نے اس کی اوپر بیٹھے ہی لتریشن کی۔ دیر سے سمجھ آئی کہ اس بے عقل جانور کو بھی سمجھ تھی کہ بچوں کو مارنا گرانا نہیں ہے۔

چھوڑیں کوئی اور بات کرتے ہیں۔ کیا آپ کی کوئی ایسی دوست ہے جو آپ کو بتاتی ہو کہ اسے آپ کا کون سا دوست پسند ہے؟ میری تو ہے، میں اسے بڑا تنگ کرتا ہوں، وہ مجھے ستاتی ہے کہ تم سے تمھارا دوست اچھا ہے۔ دوست مرنے والا ہو رہا کہ اسے بتا دوں کہ وہ کون ہے۔ مزے کی ٹرائی اینگل بنی ہوئی ہے۔ دوست بن ٹھن کے رہتا ہے وہ مجھے سناتی رہتی ہے، میں اسے اس مولوی کزن کا قصہ سناتا ہوں جو اپنے بھائی کا رقعہ لے کر گیا تھا۔ رقعہ دینے کی بجائے اس نے اس مٹیار سے حامل رقعہ سے گلے ملنے کی فرمائش کر دی تھی۔ زندگی بڑی پیاری ہے اگر اس میں غصہ نرمی مزہ مستی مذاق حق اور حد کا ایک گڈ مکس کر لیا جائے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi