وہ پانچ اہم باتیں کیا ہیں جو ہماری درسگاہیں نہیں سکھاتیں


کسی جاننے والے کا فون آیا، انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا بزنس منیجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، ڈگری حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی اچھی کمپنی میں انٹرن شپ بھی کرے سو میں یہ کام کروا دوں۔ میں نے کہا کہ آپ بیٹے کو میرے پاس بھیج دیں۔ نوجوان آیا تو میں نے اس کا مختصر سا انٹرویو لینے کی کوشش کی، وہ ہنس کر کہنے لگا کہ مجھے سچ مچ کی انٹرن شپ نہیں کرنی، ایک سرٹیفیکیٹ درکار ہے کہ میں نے فلاں کمپنی میں دو ماہ کام کیا ہے، بس اسی بنیاد پر ڈگری مل جائے گی۔

دوسرا واقعہ میرے ایک کولیگ نے سنایا جس کے پاس مختلف پروفیشنلز کو لائسنس جاری کرنے کا اختیار ہے۔ اسے کسی نے سفارشی فون کیا کہ فلاں نوجوان کو بھیج رہا ہوں، اس کا انٹرویو نسبتاً آسان کرنا۔ نوجوان آیا اور سلام دعا کے بعد بیٹھتے ہی بولا کہ سر انٹرویو تو رسمی کارروائی ہے، آپ بس لائسنس جاری کریں۔

تیسری مثال۔ حال ہی میں تمام تعلیمی اداروں نے آن لائن امتحانات منعقد کیے ہیں۔ ان میں سے بہت سے طلبا پوری تیاری کر کے خوب محنت سے امتحان میں بیٹھے ہوں گے اور انہوں نے ایمانداری سے بغیر نقل کیے امتحان دیا ہو گا مگر کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے نقل کی زحمت بھی نہیں کی اور اپنی جگہ کسی اور شخص پیسے دے کر امتحان دینے کے لیے بٹھا دیا۔

ندامت کا تو ذکر ہی نہیں، الٹا ان طلبا کو اپنی اس حکمت عملی پر فخر ہے۔ یہ چند مثالیں ملک کے تمام نوجوانوں کے کردار کی غمازی کرتی ہیں اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں صرف جھوٹ اور دغا بازی سے ہی کام چلایا جاتا ہے۔ نئی نسل بہت سے حوالوں سے شاید ہم سے بہتر ہے مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے نکلنے والے طلبا کی اکثریت اس اخلاقی احساس سے عاری ہے جس کی مدد سے درست او ر غلط بات میں تمیز کی جاتی ہے۔

اخلاقیات یا اقدار ہماری زندگیوں کے ایجنڈے پر شاید سب سے نیچے ہیں اور بہت سی وجوہات میں سے اس کی ایک وجہ ہمارے اسکول اور کالج ہیں جو علم بانٹنے کی بجائے نوجوانوں میں محض سندیں تقسیم کر رہے ہیں۔ آپ گرامر اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی ریاضی، سائنس یا جغرافیے کی کتابیں اٹھا کر دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے، ایسی دقیق کتابیں ہیں کہ لگتا ہے جیسے بچہ سائنس دان بننے والا ہے۔ دوسری طرف حال یہ ہوگا کہ بنیادی اخلاقی تعلیم، زندگی جینے کا ڈھنگ اور باہر کی دنیا سے نمٹنے کے بارے میں معلومات قریباً صفر ہوں گی۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کاش اس ملک میں کوئی ایسی دانش گاہ ہو جیسی افلاطون نے یونان میں بنائی تھی، جہاں ایف اے، بی اے کروانے کی بجائے نوجوانوں کو اخلاقی اقدار کی تعلیم دی جائے، حلال اور حرام میں تمیز سکھائی جائے، درست او ر غلط کا فرق سمجھایا جائے، قانون اور آئین کی عملداری سے روشناس کروایا جائے اور نوجوانوں میں شعور اور ہمت پیدا کی جائے کہ وہ باطل کے مقابلے میں حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔

ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب نوجوانوں کی سوچ فقط نوکری کے حصول تک محدود نہ رہے۔ اس قسم کی دانش گاہ تو شاید نہ بن پائے البتہ کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہماری درسگاہوں میں سکھانی شروع کر دی جائیں تو کسی حد تک افاقہ ہو جائے گا۔ اس کام کے لیے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور نہ نئے اساتذہ کی بھرتی کی، اس کا علیحدہ سے کوئی امتحان ہوگا اور نہ کوئی نیا ٹائم ٹیبل بنانا پڑے گا۔ اس کام کے لیے کالج کے پرنسپل کو کسی سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں، اس کے ذمے صرف یہ ہوگا کہ وہ مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کامیاب لوگوں کو کالج میں مدعو کرے گا جو نوجوانوں سے مکالمہ کریں گے اور انہیں یہ باتیں سکھائیں گے۔ وہ باتیں کیا ہیں؟

سب سے پہلے تو نوجوانوں میں اخلاقی احساس جگانا ضروری ہے، یہ بات پہلے ہو چکی، دنیا میں یہ کام اسکول کی ابتدائی جماعتوں سے ہی شروع کروا دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں نصابی کتابوں میں اخلاقی موضوعات پر کچھ مضامین شامل تو کیے جاتے ہیں مگر انہیں پڑھایا یوں جاتا ہے کہ لگتا ہے جیسے ان مضامین کو یاد کر کے فقط نمبر حاصل کرنا ضروری ہے، عملاً ان اخلاقیات کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنا ضروری نہیں۔ دوسری بات، محبت اور انسان دوستی۔

ہماری درسگاہوں سے نکلنے والے نہ جانے دل میں اتنی نفرتیں کیوں لے کر نکلتے ہیں، دنیا سے ان کی یہ نفرت ختم کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں یہ بتانا ضروری ہے کہ حب الوطنی کا مطلب باقی دنیا کو نیست و نابود کرنا نہیں ہوتا، ہمیں اپنے ملک، ثقافت اور روایات سے محبت کرنی چاہیے مگر اس کے لیے باقی تمام دنیا کے کلچر اور رسوم رواج پر تبرا کرنا لازمی نہیں۔ یہی کلیہ انسانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، ہر انسان کو اس کی اچھائی اور برائی کے ساتھ قبول کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہیے، جس طرح ہم اپنی ذات کی خرابیوں کو رعایتی نمبر دے کر پاس کر دیتے ہیں اسی طرح یہ رعایت ہمیں اللہ کے دوسروں بندوں کو بھی دینی چاہیے چاہے ان کا دین، مذہب، مسلک، عقیدہ، جنس، نظریہ یا ملک ہم سے مختلف ہو۔

تیسری بات مالی معاملات سے متعلق ہے اور یہ عملی زندگی میں بہت اہم ہے۔ ہماری درسگاہیں نوجوانوں کو دنیا جہان کی کتابیں رٹا دیتی ہیں مگر یہ نہیں بتاتیں کہ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انہوں نے پیسہ کیوں کر کمانا ہے، سرمایہ کاری کس چڑیا کا نام ہے، محدود سرمائے سے کاروبار کیسے شروع کیا جا سکتا ہے، آمدن اور بچت میں کیا توازن ہونا چاہیے! ہمارا نصاب بھی اس ضمن میں خاموش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوانوں کو یہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ انہوں نے اب کیا کرنا ہے، وہ باپ سے کہتے ہیں کہ کسی با اثر دوست رشتہ دار کو پکڑے اور انہیں نوکری پر لگوا دے۔ ہمارے کالج اور جامعات اگر اس موضوع پر سال میں چند لیکچر رکھوا دیں تو نوجوانوں کا بھلا ہو جائے گا۔

چوتھی بات، جذباتی تربیت۔ اسکول کالج کی عمر میں نوجوان لڑکے لڑکیوں میں جسمانی تبدیلیاں آتی ہیں، ہارمونز کا نظام بدلتا ہے، نوجوان بہت جذباتی ہو جاتے ہیں، ہر کسی کو عشق بھی ضرور ہوتا ہے۔ یہ عمر بہت نازک ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں اس عمر کی جذباتی تربیت کا کوئی انتظام نہیں، میرے علم میں ایسا کوئی اسکول یا کالج نہیں جہاں کسی پرنسپل نے اپنے طلبا کی اس ضرورت کو مد نظر رکھ کر کوئی کام کیا ہو۔ اصولاً تو نوجوانوں کو یہ سہولت میسر ہونی چاہیے کہ وہ اپنی الجھنوں کے بارے میں کسی ماہر نفسیات سے تنہائی میں بات کر سکیں لیکن اگر یہ ممکن نہ ہوتو کم از کم ان کے لیے کسی تربیتی سیشن کا اہتمام ہی کر دیا جائے، یہی غنیمت ہے۔ آخری بات، تعلقات کیسے نبھائے جائیں۔

جوانی میں کوئی نہیں بتاتا کہ انسانی تعلقات زندگی میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں اور مستقبل پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہ انسانی زندگی کا سب سے اہم پہلو ہے، اس میں نوجوانوں کو تعلقات بنانے، استوار کرنے اور نبھانے کے بارے میں بتانا چاہیے اور اگر کسی سے تعلقات ختم ہو جائیں تو بتانا چاہیے کہ اس صورتحال کو کیسے قبول کیا جائے۔ تعلقات استوار کرنے میں بے حد اہم کردار گفتگو کے ہنر کا ہے جس میں بد قسمتی سے نوجوان تو کیا ہم میں سے زیادہ تر لوگ پیدل ہی ہیں، ہمیں یہ ادراک ہی نہیں کہ بات چیت کیسے شروع کی جاتی ہے اور گفتگو میں کن باتوں اور آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ باتیں سیکھنا یا سکھانا کوئی مشکل کام نہیں۔ کالج کا پرنسپل اگر متحرک ہو تو اپنے طلبا کی زندگیوں میں انقلاب لا سکتا ہے، اس پوری محنت کے نتیجے میں اگر ایک بھی نوجوان عملی زندگی میں کچھ سیکھ جائے تو سودا برا نہیں!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments